میرے’سر ‘ ایک با کمال شخصیت ہیں، اُن کی نظر ہمہ وقت بین الاقوامی امور اور اُن سے جڑے پیچیدہ اور دقیق مسائل پر رہتی ہے ، تاریخِ عالم انہوں نے گھول کر پی رکھی ہے ، اِس کے علاوہ جغرافیہ ، عمرانیات،سیاسیا ت اور ابلاغیات پر بھی سر کی گرفت خاصی مضبوط ہےلیکن تاریخ چونکہ سر کا خاص موضوع ہے اِس لئےانہوں نے مشرقی پاکستان کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’ وہاں ہماری شکست کی وجہ فوجی نہیں بلکہ سیاسی تھی لیکن بد قسمتی سے ہم نے اِس پہلو پر کبھی توجہ ہی نہیں دی۔‘‘ عموماً میں سر کی تمام باتوں سے اتفاق ہی کرتا ہوں الّا کہ سر مجھے اختلاف کی اجازت دیں اور اُس اختلا ف کا مقصد بھی سر کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے مگر اِس مرتبہ جب سر نے مشرقی پاکستان کی مثال دی تو مجھے حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ یاد آگئی ، آپ اسے میری خوش قسمتی سمجھیں یا بد قسمتی، یہ رپورٹ میں نے پڑھ رکھی ہے، اِس لئےباوجود خواہش اور کوشش کے،اپنے محبوب سر کی بات سے اتفاق نہ کرسکا۔
حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے ایک باب کا عنوان ’فوجی پہلو‘ہے، اِس باب میں بتایا گیا ہے کہ 14 دسمبر تک جنرل یحییٰ کا خیال تھا کہ مشرقی پاکستان میں جنگ جاری رہنی چاہئے حالانکہ یہ بات اُس وقت تک روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی تھی کہ ہم ڈھاکہ پر اب مزید قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتے، اُن دنوں واقعات جس تیزی کے ساتھ پیش آرہے تھے انہیں دیکھ کر جنرل یحییٰ جیسے تجربہ کار فوجی کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ ڈھاکہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا، اگر ہم نےایک ہفتے بعد بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ہی ڈالنے تھے تو یہ اندازہ ایک ہفتے پہلے بھی لگایا جا سکتا تھا اور ہتھیار ڈالنے کی ہزیمت سے بچا جا سکتا تھا ۔جنرل یحییٰ نے اُس وقت بھی عوامی لیگ کے ساتھ سیاسی مصالحت اور امن کی پیشکش ٹھکرا دی جبکہ یہ پیشکش سوویت یونین جیسے ملک کی طرف سے کی گئی تھی، جس کے پاس ویٹو کی طاقت تھی جو ہمارے حق میں ہونے والی کسی بھی اقوام متحدہ کی قرارداد کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھی ۔رپورٹ میں یہ جملہ لکھا گیا ہے کہ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کس وجہ سے جنرل یحییٰ نے جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے کا اختیار یا مشورہ دیا ،جنرل یحییٰ آخری وقت تک کسی بھی قسم کی سیاسی مصالحت کے لئے تیار نہیں تھے ،انہیں اِس بات کا اچھی طرح ادراک تھا کہ وہ کسی بھی صورت مشرقی پاکستان پر اپنا ذاتی کنٹرول برقرار نہیں رکھ سکیں گے اِس لئے انہوں نےآخر وقت تک مغربی پاکستان پر اپنا تسلط برقرار کھنے کی کوشش کی۔ رپورٹ کا یہ باب اِس جملے پر ختم ہوتا ہے کہ ہم اس ناگزیر نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جنرل یحییٰ نے ملک کو ایک ایسی جنگ میں جھونکنے کی اجازت دی جس سے کسی اچھے نتیجے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی اور وہ اپنے ضدی طرز عمل کو محض اس لئے جاری رکھنا چاہتے تھے کہ وہ کسی بھی قیمت پرملک کی مشکلات کا سیاسی حل تلاش کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے،آخر کاراِس ہٹ دھرمی کا نتیجہ شرمناک شکست کی صورت میں نکلا اور قوم کو بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی ذلّت اٹھانا پڑی، ایسی ذلّت جس کی اسلام کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔رپورٹ میں ایک اور جگہ اُس دستور کا ذکر بھی ہے جس کا ڈرافٹ جنرل یحییٰ نے اُس وقت تیار کروایا جب ملک دو ٹکڑے ہورہا تھا ، مقصد اُس وقت بھی ملک کو نیا آئین دینا نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو بچانا تھا ۔ اُس آئین کی شق 16 یہ کہتی تھی ملک کے پہلے صدر جنرل یحییٰ خان ہوں گے اور اِس کے ساتھ ساتھ وہ آئندہ پانچ برس کے لئے ملک کے کمانڈر اِن چیف بھی رہیں گے۔یہی نہیں بلکہ دستور میں شق 260 بھی شامل کی گئی جس میں کمانڈر اِن چیف کو ملک بھر میں مارشل لگانے کا ’آئینی اختیار ‘ بھی دیا گیا، دوسرے لفظوں میں آئین میں ہی آئین شکنی کا طریقہ کار لکھ دیا گیا جو ایک مضحکہ خیز بات تھی ۔جس دن اِس مجوزہ آئین کی کاپیاں پریس کو بھیجی گئیں وہ دن 16دسمبر 1971کا تھا ،یہ وہی دن تھا جب جنرل نیازی (مبینہ ٹائیگر )بھارتی فوج کے سامنے سرنڈر کی یاد داشت پر دستخط کر رہاتھا۔ حمودالرحمٰن کمیشن رپورٹ میں لکھا ہے کہ جنرل یحییٰ خان جس خیالی دنیا میں رہ رہا تھا اُس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 18 دسمبر کو مغربی محاذ پر جنگ بندی کے بعد جنرل صاحب نے اعلان کیا کہ ان کے ’آئینی منصوبوں‘ میں ذرا سی بھی رکاوٹ نہیں آئی اور وہ اپنے’ ٹائم ٹیبل‘ کے مطابق آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں، موصوف نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ نیا دستور 20 دسمبر کو نافذ کیا جائے گا،باقی تاریخ ہے ۔
جہاں تک اِس بات کا تعلق ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان سیاسی شکست تھی تو یہ بات بھی سو فیصد جھوٹ نہیں ، سیاسی طور پر یہ ناکامی تھی کہ ملک کی دو بڑی جماعتیں متفقہ آئین پر آمادہ نہ ہوسکیں اور یوں جنرل یحییٰ کے ہاتھ میں یہ عذر آگیا کہ عوامی لیگ اپنی واضح اکثریت کی بنیاد پر مغربی پاکستان کے مفادات کا تحفظ نہیں کرے گی لیکن یہ محض ایک بہانہ تھا، انتخابات جیتنے والی سب سے بڑی جماعت کو اقتدار سے دور رکھنے کا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے اِس اعتراض کا جواب اسی وقت یہ کہہ کر دے دیا تھا کہ’’میں ایک جمہوری شخص ہوں اور پورے پاکستان کا لیڈر ہوں، میں مغربی پاکستان کے مفادات کو نظر انداز نہیں کرسکتا،میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام کے ساتھ ساتھ عالمی رائے عامہ کو بھی جوابدہ ہوں….ہم پارلیمانی جمہوریت کے تمام عمل سے گزریں گے اور ہر معاملے پر مذاکرات کرکے (فریقین کیلئے )اسمبلی کے اندر اور باہر قابل قبول حل تجویز کریں گے۔‘‘یہ باتیں ملک ٹوٹنے سے فقط چند ماہ پہلے کی ہیں ، گویا جس شیخ مجیب پر ہم ملک توڑنے کی سازش کا الزام لگا رہے تھے وہ شیخ مجیب اُس وقت بھی ملک جوڑنے اور جمہوریت کی بحالی کی باتیں کر رہا تھا لیکن اگر ’سر ‘ کہتے ہیں کہ ملک ٹوٹنا سیاسی ناکامی تھی تو پھر ہمیں سر ِتسلیم خم کرکے یہ بات قبول کرلینی چاہئے ، ہو سکتا ہے کہ اسی میں ہماری بہتری ہو، آخر ہم نا سمجھ بھی تو ہیں!
بشکریہ جنگ