مہک بشیر کا تعلق کرسچین کیمونٹی سے ہے اور وہ فیصل آباد کی رہائشی ہے مہک بشیر کو سال 2020میں مسلم کیمونٹی سے تعلق رکھنے والے بااثر شخص نے اسلحہ کے زور پر اغوا کرکے تین ماہ سے زائد عرصہ اپنے پاس رکھ کر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ ایک بچی کی ماں بن گئی‘مہک کے اغواء کے بعد مسیحی کیمونٹی کی جانب سے بھرپور احتجاج اور قانونی چارہ جوئی کے بعد عدالتی حکم پر پولیس نے مہک کو برآمد کرکے والدین کے حوالے کردیا مہک بشیر کی والدہ کا کہنا ہے کہ عدالت کے حکم پر ان کی بیٹی تو ان کے حوالے کردی گئی ہے مگر پولیس نے ملزم کو گرفتار نہیں کیا ہے جس کی وجہ اس کی جانب سے انہیں خطرہ رہتاہے کیونکہ مہک کے گھر آنے بعد ملزم نے دوبارہ اسے اغوا کرنے کی کوشش کی جس کے دوران انہیں (مہک کی والدہ کو) پانچ گولیاں لگی تھی‘دوسری جانب مہک بشیر کا کہنا ہے کہ جب تک ملزم گرفتار نہیں ہوتا اور اسے سزا نہیں ملتی وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں‘عدالت نے اسے گھر تو بھجوا دیا ہے مگر انصاف نہیں دیا کیونکہ وہ ایک ایسی بچی کی ماں بن چکی ہے جس کووالد کا نام کبھی نہیں مل سکے گا‘ یہ صرف ایک مہک بشیر کی کہانی ہی نہیں۔ پاکستان میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی درجنو ں بچیاں ہیں جو اس طرح کی درناک داستانیں لئے بیٹھی ہیں
[pullquote]جبری مذہب تبدیلی کے کیسز اور تفتیشی اداروں کا کردار [/pullquote]
مینارٹیز الائنس پاکستان کے چئیر مین ایڈوکیٹ اکمل بھٹی کا کہنا ہے کہ جبری مذہب تبدیلی کے کیسز میں زیادہ دشواری پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں کی وجہ سے پیش آتی ہے‘ جب کسی بچی کو اغوا کر لیا جاتاہے تو ایف آئی آر درج کرتے وقت حقائق مسخ کردئیے جاتے ہیں جبکہ رہی سہی کسر تفتیش کے دوران نکال دی جاتی ہے‘ مہک بشیر کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب وہ اس کیس میں مدعیہ کی طرف سے پیش ہورہے تھے تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جو واقعات مدعیہ کی جانب سے بتائے گئے ہیں پولیس کی تفیش اس کے برعکس ہے تاہم بھرپور پیروی اور قانونی معاونت کی وجہ سے مہک بشیرکو کسی حد تک انصاف ہو تو مل گیا ہے مگر پولیس ابھی تک اس کو جبری مذہب تبدیلی‘ جنسی اور جسمانی تشدد کا شکار بنانے والے مجرم کو گرفتار نہیں کرسکی ہے
[pullquote]جبری مذہب تبدیلی کے واقعات میں اضافہ [/pullquote]
ادارہ برائے سماجی انصاف(سی ایس جے) کی سال 2022میں شائع ہونے والی جائزہ انسانی حقوق رپورٹ کے مطابق سال 2021سے جبری مذہبی تبدیلی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘صرف اسی ایک سال کے دوران مذہب تبدیلی کے 78واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اس کے برعکس سال 2019کے دوران 50اور سال 2020کے دوران 15کیس رپورٹ ہوئے تھے‘ اس رپورٹ کے تناظر میں دیکھا جائے تو سال 2019اور 2021کی نسبت جبری مذہب تبدیلی کے واقعات میں بالترتیب 80فیصد اور 50فیصد اضافہ ہوا ہے انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقلیتی حلقوں کی جانب سے جبری مذہب تبدیلی کے واقعات میں اضافے کوتشویش کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ادارہ برائے سماجی انصاف کے مطابق یہ اعداد شمار میڈیا رپورٹس‘سرکاری اداروں اور دیگر ذرائع سے حاصل کئے گئے تاہم ادارہ برائے سماجی انصاف نے اپنے ذرائع سے بھی ان اعداد شمار کی تصدیق کی ہے۔
[pullquote]جبری مذہب تبدیلی سے متاثرہ اقلیتی کیمونٹیز[/pullquote]
غیر سرکاری تنظیموں سے حاصل کئے گئے اعداد و شمار او ر میڈیا رپورٹس کے مطابق سا ل 2019سے 2021تک جبری مذہب تبدیلی کے جو واقعات منظر عام پر آئے ہیں ان میں مذہبی اقلیت کی شناخت کے لحاظ سے 39ہندو‘38مسیحی اور ایک سکھ خاتون جبری مذہب تبدیلی کا شکار ہوئی ہیں‘ ان میں سے 76فیصد بچیاں نابالغ تھیں اور ان کی عمر 18سال سے کم تھی جبکہ 33فیصد بچیوں کی عمر 14سال سے بھی کم تھی‘سنٹر فار سوشل جسٹس کی رپورٹ کے مطابق جبری مذہب تبدیلی کا شکار 18فیصد بچیوں کی عمر کا ذکر نہیں ملتا اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ یہ بچیاں نابالغ تھیں جس کی وجہ سے ایف آئی آر ز اور دیگر رپورٹس میں ان کی عمر کا ذکر نہیں کیا گیا۔ان واقعات بارے میں پولیس کے پاس ایف آئی آرز درج ہیں مگر ایف آئی آر ز کے اندراج کے وقت عمر کو نظر انداز کیا گیاہے ۔
[pullquote]علاقی سطح پر جبری مذہب تبدیلی کے واقعات کا تناسب [/pullquote]
جبری مذہب تبدیلی کے سب سے زیادہ کیسز صوبہ سندھ میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان کیسز کی تعداد 40ہے‘جبری مذہب تبدیلی کے لحاظ سے صوبہ پنجاب دوسرے نمبر پرہے‘ پنجاب میں جبری مذہب تبدیلی کے رپورٹ ہونے واقعات 36ہیں جبکہ بلوچستان او رخیبر پختوانخواہ میں تاحال جبری مذہب تبدیلی کا ایک ایک واقعہ رپورٹ ہوا ہے۔جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے ادارہ برائے سماجی انصاف کی سال 2022میں جاری رپورٹ کے مطابق لاہو رمیں جبری مذہب تبدیلی کے 8‘ فیصل آباد میں 7‘ننکانہ میں 4‘شیخوپورہ میں 3 مظفر گڑھ‘روالپنڈی اور قصور میں دو‘دو‘ جھنگ‘ ساہیوال‘ بہاولپور اور لودھراں میں ایک ایک واقعہ رپورٹ ہوا ہے‘خبر پختوانخواہ کے ضلع ہر ی پور اور بلوچستان کے ضلع سبی میں بھی جبری مذہب تبدیلی کا ایک ایک واقعہ رپورٹ ہوا ہے‘صوبہ سندھ کے ضلع میر پور اور تھرپارکر میں جبری مذہب تبدیلی کے پانچ‘پانچ جامشور و اور کراچی میں چار‘ چار‘گھوٹکی میں 3جبکہ کشمور‘ میر پور ماتھیلو‘نوشہرو فیروز‘بدین اور سانگھڑ میں دو‘ دو جبکہ ٹنڈو محمد خان‘ٹنڈو اللہ یار‘سکھر‘لاڑکانہ‘خیر پور‘عمر کوٹ اور داد و میں جبری مذہب تبدیلی کا ایک‘ ایک واقعہ رپورٹ ہوا ہے
[pullquote]جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کا موقف[/pullquote]
جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین قبلہ ایاز سے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر‘ٹی‘آئی) کے ذریعے یہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بطور چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل اقلیتوں کے تحفظات دور کرنے اور جبری مذہب تبدیلی کے عمل کو روکنے کے لئے انہوں نے کوئی سفارشات مرتب کی ہیں یا حکومت کو بھجوائی ہے جس پر قبلہ ایاز نے بتایا کہ اقلیتی برادری کے رہنماؤں سے مشاورت کا عمل جاری ہے اسلام میں جبری مذہب تبدیل کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے اسلامی نظریاتی کونسل جبری مذہب تبدیلی کی قطعی حمایت نہیں کرتی تاہم نیشنل مینارٹیز الائنس کے چئیر لالہ روبن ڈینیل کا کہا ہے ایک طرف قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ جبری مذہب تبدیلی کی اجازت نہیں اور دوسری طرف مذہب تبدیلی کے سرٹیفکٹس جاری کرنے والے مولانا عبدالحق عرف میاں مٹھو کو بلا کر اجلاس کی صدارت کروائی جاتی ہے جتنے مذہب تبدیلی کے سرٹفیکٹس دگارہ بھرچونڈی شریف کے گدی نیشن میاں مٹھو نے جاری کئے ہیں انتے کسی اور نے جاری نہیں کئے ہیں اس کے باوجود اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے مذہب تبدیلی کے حوالے سے جب کوئی مشاورتی اجلاس بلایا جاتاہے تو صدارت میاں مٹھو سے کروائی جاتی ہے پھر کیسے یقین کر لیا جائے کہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل جو کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے
[pullquote]جبری مذہب تبدیلی کے سدباب میں رکاوٹیں [/pullquote]
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء اور ممبر قومی اسمبلی نوید عامر جیواکا کہنا ہے کہ جبری مذہب تبدیلی کی بڑی وجہ کم عمری کی شادی ہے‘ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس کو روکنے کے لئے صوبہ سندھ میں چائلڈ ریسٹرین ایکٹ متعارف کروایا ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں‘اس قانون کی وجہ سے اقلیتی کیمونٹی سے تعلق رکھنے والی کچھ بچیوں کی مذہب تبدیلی کے عمل کو روکا گیا ہے ان میں کراچی کی آرزو راجہ بھی شامل ہے جس اس کے ہمسائے نے شادی کے نام پر اغوا کیا تھا چائلڈ ریسٹرین ایکٹ کے باعث عدالت نے نہ صرف آرزو راجہ کی شادی کو غلط قرار دیا بلکہ آرزو راجہ کو والدین کے حوالے بھی کیا گیا تھا ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے پارلیمنٹ سے اس حوالے سے قانون سازی نہیں کروائی جا سکی ہے‘ پارلیمانی کمیٹی میں جب اس حوالے سے مسودہ قانون پیش کیا گیا تو وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے اس قانون پر بحث کی مخالفت کی گئی تھی جس کی بنیاد یہ تھی کہ مذہب تبدیلی کے لئے کم از کم عمر کی حد مقرر کرنا اور قانونی طریقہ کار تشکیل دینا درست نہیں ہے جبکہ پارلیمانی کمیٹی نے بھی اقلیتی ارکان پارلیمان کے دلائل نہیں سنے تھے جس کی وجہ سے اس ضمن میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہوپائی ہے۔
[pullquote]جبری مذہب تبدیلی کے سدباب کے لئے ناگزیر اقدامات[/pullquote]
سنٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ جبری مذہب تبدیلی ایک سنگین مسلہ ہے اس کی وجہ سے پاکستان کی اقلیتں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں اگر اس عمل کو روکا نہ گیا تو اس کی وجہ مذہبی تعصبات کوہوا ملنے اور معاشرتی انتشار کے امکانات ہے حکومت کو اس کے سدباب کے لئے سنجیدگی سے سوچنا چاہئے اور جبری مذہب تبدیلی کا عمل روکنے کے لئے موثر قانون سازی کرنا چاہئے نیز اس قبیح فعل میں ملوث افراد کو سخت ترین سزا دی جانی چاہئے علاوہ ازیں اقلیتوں کو جبری اور غیر ارادی مذہب تبدیلی کے عمل سے بچانے کے لئے تعلیمی لحاظ سے اقدامات کئے جانے چاہئے تاکہ اس حوالے سے رائے عامہ ہموار کی جاسکے اور شہریوں کو آگہی حاصل ہو سکے۔
[pullquote]جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے حکومت کا موقف [/pullquote]
جبری مذہب تیدیلی کے حوالے سے اگرچہ اقلیتی نمائندگان اسمبلیوں میں بھی آواز اٹھاتے رہتے ہیں مگر اس حکومت اس موقف کو من وعن تسلیم کرنے سے انکاری ہے‘سابق حکومت میں بطور مشیر فرائض سرانجام دینے والے مولانا طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ جبری مذہب تبدیلی کے ساتھ جن واقعات کو جوڑا جاتا ہے ان میں سے بیشتر پسند کی شادی سے جڑے ہوتے ہیں اس لئے ہر واقعہ کو جبری مذہبی تبدیلی کے ذمرے میں نہیں لایا جا سکتا ہے‘ وزارت مذہبی امور کا بھی اس حوالے سے یہی موقف ہے جبری مذہب تبدیلی کے حوالے سے وزارت مذہبی امور کی جانب سے باضابطہ بحث کا آغاز کیا گیاہے اس ضمن میں وزارت مذہبی امور کی جانب سے 31جنوری 2023کو ”تبدیلی مذہب‘مسائل‘ مباحث و حقیت‘‘ کے عنوان سے سیمنار کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور مفتی عبدالشکور نے کہا کہ اسلام جبری مذہب تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا‘رضاکارانہ اور جبری مذہب تبدیلی کے فرق کو واضح کیا جانا چاہئے تاکہ جبری مذہب تبدیلی کے نام پر ماضی میں جو پروپیگنڈہ کیا جاتارہا ہے اس کا قلع قمع کیا جا سکے۔