75 برس کا آڈٹ کیسے کیا جائے

سن 47 ء میں جب ہم نے ملک بنایا تو سوچا کہ اب اِس کا کوئی مقصد بھی ہونا چاہئے ، شاید پاکستان کے بانیوں کے ذہن میںمیگنا کارٹااور امریکی اعلانِ آزادی جیسی دستاویز ہوں گی جس کی وجہ سے انہوں نے سوچا ہوگا کہ ہماری بھی کوئی نہ کوئی قرارداد ہونی چاہئے جس میں ملک بنانے کا مقصد صراحت کے ساتھ لکھ دیا جائےتاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔قدرت کے کام دیکھیں ،آج 75برس گزرنے کے بعد بھی کسی نہ کسی موقع پر اس سند کی ضرورت پڑجاتی ہے ۔جس طرح بڑی کمپنیاں اچھی شہرت کی حامل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرموں سے اپنا سالانہ آڈٹ کرواتی ہیں تاکہ اِس بات کا اطمینان کیا جاسکے کہ اُن کے مالی اور کاروبار ی امور میں بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں نہ ہوں ،اسی طرح ریاستوں کا آڈٹ بھی ہونا چاہئے تاکہ پتا چلایا جا سکے کہ جس مقصد کے لئےریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تھا وہ پورا ہوا یا نہیں ۔بظاہر یہ آڈٹ کرنا خاصا مشکل کام ہے تاہم اگرکوئی فرم اِس کام کا بیڑا اٹھا لے تو گزشتہ 75 برسوں کے گوشواروں کی پڑتال کرکے بتایا جاسکتا ہے کہ ہماری ریاست کا Profit and Loss Account (حساب سود و زیاں)بد ترین خسارے تک کیوں کر پہنچا!یہ آڈٹ تو شاید کبھی نہ ہوپائے، فدوی البتہ اُن باتوں کی نشاندہی کرنا اپنا فرض سمجھتاہے جن کے سبب آج ہم اِس حال کو پہنچے ہیں کہ کہنا پڑتا ہے’’منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید….ناامیدی اُس کی دیکھا چاہئے۔‘‘

قرارداد مقاصد سے ہی شروع کرلیتے ہیں ۔قائد اعظم نے گیارہ اگست کو آئین ساز اسمبلی کے سامنے تقریر کرتے ہوئےجب کہا تھا کہ ’’آپ آزاد ہیں،آپ اپنے مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں، آپ اس ریاستِ پاکستان میں اپنی مساجد یا کسی اور عبادت گاہ میں جانے کے لئے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا عقیدے سے ہو ،ریاست کے کاروبار سے اُس کاکوئی تعلق نہیں ہے‘‘تو اِس کا مطلب سوائے اِس کے اور کچھ نہیں تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگی۔جن لوگوں کواِس لفظ سے تکلیف پہنچتی ہے وہ اپنی پسند کی کوئی لغت اٹھائیں اور اُس میں سیکولر کا لفظ تلاش کرکے معنی دیکھیں اور پھر اسے قائد کی تقریر کے ساتھ ملا کر پڑھیں ، اللہ نے چاہا تو تکلیف دور ہوجائے گی۔بانی پاکستان جس قسم کی ریاست چاہتے تھے انہوں نے اُس کا تصور دے دیامگر یہ تصور اُن کی وفات کے ساتھ ہی فوت ہوگیا اور ٹھیک دو سال بعد اسی آئین ساز اسمبلی نے ایک قرارداد منظورکی جس کی مخالفت تمام غیر مسلم ممبران نےکی مگراُن ممبران کی تجاویز کو رد کردیا گیا اور قرارداد کو منظور کرکے آئین میں دیباچے کے طورپر شامل کردیاگیا۔آئین ساز اسمبلی چاہتی تو قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریرکے متن کو آئین کے دیباچے کا حصہ بناسکتی تھی مگراُس نے ایسا نہیں کیا اور قراردادِ مقاصد کو آئین کا حصہ بنا کر یہ واضح پیغام دیا کہ ریاست اپنے شہریوں کے مذہب اور عقیدے کے معاملات میں منہ مارتی رہے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔یہ ہماری پہلی بنیادی غلطی تھی۔

ہمارا خواب ایک فلاحی ریاست بنانے کا تھا جہاں ریاست ہر شہری کی بنیادی ضرورتیں پوری کرتی ہے ،ایسی ریاست میں تمام شہریوں کو یکساں مواقع حاصل ہوتے ہیں ، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی اور سوشل سیکورٹی کے نظام کے تحت عام شہری کو تعلیم، صحت اور روزگار کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے ۔ بدقسمتی سے ہم فلاحی ریاست نہیں بنا سکے ،اِس کی بجائے ہم ایک سیکورٹی اسٹیٹ بن گئے ، گویا ایسی ریاست جو اپنے شہریوں کواِس خوف میں مبتلا رکھے کہ اُس کے وجود کو خطرہ ہے اور یہ خطرہ اُن دشمنوں سے ہے جو روز ِاول سے اِس ریاست کوختم کرنا چاہتےہیں لہٰذا قومی سلامتی اور مفاد کا تقاضا ہے کہ اِس خطرے سے نمٹنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں کیونکہ ملک ہوگا تو عوام ہوں گےاور عوام ہوں گے تو انہیں حقوق بھی مل جائیں گے۔اِس پالیسی کو ایک جملے میں بیان کریں تو کہا جائے گا کہ’ ’ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے ۔‘‘قدرت کے کام دیکھیں، واقعی آج گھاس کھانے کا وقت آ گیا ہے۔

آگے چلتے ہیں ۔1972میں بھارت نے ملک میں ڈیوٹی فری کمپیوٹرز درآمد کرنے کی اجازت دی مگر اِس شرط کے ساتھ کہ درآمد کنندگان ایک محدود وقت میں امپورٹ سے دُگنی مالیت کے سافٹ وئیر اور آئی ٹی خدمات برآمد کرکے ملک میں زرمبادلہ لائیں گے ۔ اسّی کی دہائی میں ہندوستان کی سرکار نے سافٹ وئیر ایکسپورٹ کونسل بنائی اور آئی ٹی کے شعبے کے لئے ضروری اشیا کی درآمد کے قوانین میں نرمی کرکے سافٹ وئیر ایکسپورٹ کی حوصلہ افزائی کرنا شروع کی۔1988اور 1990میں بھارت میں سافٹ وئیر ٹیکنالوجی پارک بنائے گئے ، بھارت کے اسٹیٹ بینک نے بھی آئی ٹی سیکٹر کی ترقی میں مدد کی اور حکومت نے آئی ٹی کے شعبے میں ٹیکسوں کی چھوٹ دی ۔ اِن تمام اقدامات نے پھل دینا شروع کیا، آج دنیا کی ہر بڑی آئی ٹی کمپنی کا سی ای او ہندوستانی ہے ۔

بنگلور کو بھارت کی سلیکون ویلی کہاجاتاہے جس کا بھارت کی آئی ٹی ایکسپورٹ میں چالیس فیصد حصہ ہے ، بھارت کی کُل آئی ٹی ایکسپورٹ اِس وقت تقریباً ڈیڑھ سو ارب ڈالر کے قریب ہے ،جس وقت بھارت میں آئی ٹی کے شعبے کی ترقی کے لئے یہ کام کئے جا رہے تھے اُس وقت ہم افغانستان میں جنگ لڑ رہے تھے، اپنے ملک میں جہادی تیار کر رہے تھے اور فرقہ واریت کی فیکٹریاں لگا رہے تھے۔ ہمیں بھی اِن اقدامات کا پھل مل گیا، جیسی انڈسٹری ہم نے ملک میں لگائی ویسی مصنوعات تیار ہوگئیں۔

گزشتہ 75برس کا آڈٹ ایک ہزار الفاظ میں کرنا ممکن نہیں مگر اِس بات کی نشاندہی ضرور کی جا سکتی ہے کہ جو کام ہم نے اِن سات دہائیوں میں کئے اُن کا نتیجہ کیا نکلا… ہم نے اسلحے کے انبار لگا کر دیکھ لئے، آبادی بڑھا کر دیکھ لی، مذہب کا استعمال کرکے دیکھ لیا،فحاشی عریانی کو ہوّا بنا کر دیکھ لیا، آمریت کا مزا چکھ کر دیکھ لیا….نتیجہ صفر بٹا صفر۔عقل کا تقاضا یہ ہے کہ اِن تمام باتوں سے رجوع کیا جائے اور وہ پالیسیاں اپنائی جائیں جو دیگر کامیاب ممالک نے نارمل انداز میں اپنا رکھی ہیں۔ ہم نے اگر اب بھی یہ پالیسیاں تبدیل نہ کیں تو نتیجہ بھی تبدیل نہیں ہوگا، وہ صفر ہی رہے گا، یہی قانون ِ قدرت ہے۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے