سمندر کی لہروں سے لڑنے والی بہادر حلیمہ کی کہانی

حلیمہ کے چہرے پر محنت کا پسینہ تھا اور آنکھوں میں طوفانوں سے لڑنے کی چمک تھی۔ وہ روز صبح فجر کے وقت اپنی کشتی لے کر کراچی کے سمندر کی خطرناک لہروں میں اپنے روزگار کی تلاش میں نکلتی تھی اور دوپہر کو اپنے بچوں کے لیے تھوڑا بہت رزق لے کر واپس لوٹتی۔ حلیمہ کا شوہر بیماری کے باعث کام کرنے سے قاصر تھا، مگرحلیمہ نے ہار نہیں مانی۔ اپنے خاندان کو پالنے کی ذمہ داری اس نے اپنے کندھوں پر اٹھائی، اس کے رشتے داروں نے اسے بہت سمجھایا کہ وہ اس کو سپورٹ کریں گے ،لیکن یہ بات حلیمہ کی خودداری پر ضرب تھی ،اس نے اپنے شوہر کی کشتی کو استعمال کرتے ہوئے اپنے جوان بھانجے کو ساتھ ملایااور مردوں کے شانہ بشانہ سمندر کی موجوں بھر پور مقابلہ کیا۔

زبیدہ جو حلیمہ کی اکلوتی بیٹی تھی، ماں نے اسے دس جماعتیں پڑھا کرشادی کر دی تھی ، اب اس کی ماں دنیا میں نہیں ہےلیکن اپنی ماں کی کہانی سناتے ہوئے اس کی آنکھیں فخر سے چمک رہی تھیں ، اس کا کہنا تھاکہ اس کی ماں اس چھوٹے سے ماہی گیر گاؤں "کاکا پیر ” کی سب سے دلیر خاتون تھی۔ لوگوں نے اسے نہ صرف ماہی گیری کرتے دیکھا بلکہ گاؤں کی خواتین کو ہمیشہ سپورٹ کرتے ہوئے دیکھا، ماہی گیری کے بعد وہ روایتی سلائی کڑھائی محلے کی بچیوں کو سکھاتی تھی ۔وہ اپنے علاقے کے لیے ایک مثال تھی ۔حلیمہ سے پہلے گاؤں کی کسی اور عورت نے ماہی گیری نہیں کی تھی ۔ حلیمہ سے متاثر ہو کر ایک اور خاتون، جیوھوبھی مچھلی کے شکار میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے لگی۔ سمندر میں شکار کرنا آسان نہیں، خاص طور پر عورتوں کے لیے، مگر حلیمہ اور جیوھو جیسی خواتین نے یہ ثابت کر دیا کہ سمندر کی لہریں ان کے حوصلے پست نہیں کرسکتیں۔

سمندر میں طوفانوں کا سامنا کرنا تو ایک عام بات ہے، ایک دن حلیمہ کی کشتی خراب ہو گئی اور وہ اور اس کا بھانجاسمندر کی گہرائی میں پھنس گئے۔ مغرب ہو گئی تو گاؤں والوں کو ان کی غیر موجودگی کا احساس ہونے لگا۔ جلد ہی ریسکیو ٹیم تشکیل دی گئی اور گاؤں کے لوگ انہیں بچانے کے لیے نکل پڑے۔ یہ واقعہ حلیمہ کے لیے محض ایک چیلنجنگ دن تھا، مگر گاؤں والوں کے لیے اس کی جرات و ہمت کی ایک اور داستان تھی ۔

کاکا پیر جیسے گاؤں میں زندگی آسان نہیں۔ یہاں کی خواتین ماہی گیری کے علاوہ اپنے گھروں کو بھی سنبھالتی ہیں۔ انھیں مشکلات کا سامنا ہر قدم پر کرنا پڑتاہے۔ زبیدہ خاتون بتاتی ہیں کہ گاؤں میں نہ بجلی ہے، نہ گیس ہےاور پینے کا میٹھا پانی بھی نایاب ہے۔ ایک ٹینکر پانی کے لیے انہیں ہزار روپے دینے پڑتے ہیں، جو ان کی روزمرہ کی کمائی کا بڑا حصہ ہے بلکہ شاید بعض لوگوں کی ایک دن کی کمائی ہزار روپے بنتی ہی نہ ہو۔

سب سے بڑا چیلنج ان کے لیے وہ مہینے ہوتے ہیں جب سمندر میں طغیانی کے باعث مچھلی کا شکار بند ہو جاتا ہے۔ مئی سے لے کر اگست تک ان کا روزگار مکمل طور پر رک جاتا ہے۔ ان فارغ مہینوں میں یہ خواتین خیمے بناتی ہیں جو سیاحوں کو کرائے پر دیئے جاتے ہیں، جس سے کچھ آمدنی ہو جاتی ہے، لیکن یہ سلسلہ بھی ہر اتوار کو ہوتا ہے، یوں ان مہینوں میں اتوار کا انتظار ان کی زندگی کا معمول بن جاتا ہے۔

محنت اور تقدیر پر ان ماہی گیروں کو بہت بھروسہ ہے

ان ماہی گیر خواتین کی محنت کا صلہ انہیں بہت کم ملتا ہے۔ مچھلیاں پکڑنے کا کام دن بھر کا ہوتا ہے، اور ان کی زیادہ سے زیادہ کمائی ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ہم ریسٹورنٹ جاتے ہیں تو یہی مچھلی سب سے مہنگی ڈش بن جاتی ہے، مگر ان لوگوں کو جو یہ مزیدار مچھلیاں ہم تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں، انھیں ان کی محنت کا صلہ بہت کم ملتا ہے۔

سکون اور تسلیم کا فلسفہ کوئی ان لوگوں سے سیکھے

بارشوں کے ذمانے میں بھی انھیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. ان کے گھروں میں پانی بھر جاتا ہے لیکن پھر بھی ان خواتین کے چہروں پر زندگی کی مشکلات کے باوجود ایک عجیب سا سکون ہے۔ زبیدہ خاتون ہمیں بتاتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ رزق اللہ کی طرف سے آتا ہے اور جو ملتا ہے، اس پر شکر کرنا چاہیے۔ زبیدہ کے اندر ایک ادبی روح بھی ہے ، باتوں کے دوران انھوں نے ایک شعر سنایا، جس نے ان کی زندگی کے فلسفے کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کر دیا:
ساحل کے سکون سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے!

یہ کہانی حلیمہ اور جیوھو کی نہیں، بلکہ ان تمام ماہی گیر خواتین کی ہے جو سمندر کی بے رحم لہروں کے ساتھ زندگی کی جنگ لڑتی ہیں۔ ان کی محنت، ہمت اور صبر ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ زندگی کی مشکلات چاہے جتنی بھی بڑی کیوں نہ ہوں، اگر انسان کے دل میں عزم اور حوصلہ ہو تو وہ ہر طوفان کا سامنا کر سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے