پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چارسدہ کے نوجوانوں کے لئے ایک روزہ سیشن کا انعقاد کیا گیا ۔سیشن کا موضوع تھا، ” جمہوری اداروں میں خواتین کی شمولیت” سیشن کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ عابد جان ترناو نے شرکاء کا تعارف کرایا ۔ پینلسٹس میں پیمان ایلومنائی ٹرسٹ کی ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر شیبا ہدایت ، جماعت اسلامی ڈسٹرکٹ چارسدہ کے ڈاکٹر عبدالرحمن اور معروف موٹیویشنل سپیکر ڈاکٹر شیراز شامل تھے ۔ تعارف کے بعد عابد جان نے پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے کام اور اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی ۔ اس کے بعد سیشن کے موضوع کے حوالے سے تعارفی گفتگو کی ۔ اس کے بعد پینل ڈسکشن شروع ہوئی ۔
ڈاکٹر عبدالرحمن نے کہا کہ خواتین ہماری آبادی کا نصف ہیں، اس کے باوجود یہ ایک المیہ ہے کہ وہ اپنے جمہوری حقوق سے محروم ہیں۔ خاص کر پختون معاشرے میں خواتین کو اور بھی اس حق سے محروم رکھا جاتا ہے ۔فیصلہ سازی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا ۔ انتخابات جیسے اہم موقع پر بھی ان کو رائے دہی درست طریقہ سے استعمال نہیں کرنی دی جاتی ۔
اول تو خواتین کو سرے سے ووٹ پول کرنے بھیجا ہی نہیں جاتا ۔ بالفرض والمحال اگر یہ ووٹ دینے پولنگ سٹیشن چلی بھی جائیں تو جاتے ہوئے انہیں کہا جاتا ہے، فلاں بندے کو ووٹ دو ، فلاں نشان پہ مہر لگاؤ ۔ انہیں اپنی حق رائے دہی استعمال نہیں کرنے دیا جاتا۔ اسی طرح پورے پختونخوا میں خواتین کے لئے جنرل نشستوں پر انتخابات لڑنا تقریباً ناممکن امر ہے ۔ 2024 کے انتخابات میں پورے صوبے سے تین خواتین نے جنرل نشستوں پر انتخاب لڑا ،اور اس میں سے صرف ایک خاتون منتخب ہوکر اسمبلی پہنچ گئی ۔ انہوں نے کہا اس سوچ کو ختم کرنا ہوگا ۔ خواتین کو با اختیار بنا نا ہوگا ۔ انہیں اپنے فیصلے خود کرنے دینے ہونگے تبھی جاکر وہ اپنے مسائل درست انداز سے ایڈریس کرسکیں گے ۔
ڈاکٹر شیراز نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہمارے پختون معاشرے میں خاتون (ماں) ہی گھر کی سربراہ ہوتی ہے ۔ اور ماں کی گود ہی ایک بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے لہذا یہ ماؤں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ شروع ہی سے اپنے بچوں کی اس نہج پر پرورش کریں ۔ انہیں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایجوکیٹ کریں ۔ ان کی تربیت کریں اور ان کو سکھائیں۔ دوسرا انہوں نے خواتین پر زور دیا کہ وہ جمہوری عمل کا حصہ ضرور بنیں ۔ اس سلسلے میں اپنے گھروالوں کو قائل کریں اور اپنے لئے سپیس پیدا کریں۔ جمہوری اداروں اور جمہوری عمل میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت ہی ان کے لئے ترقی کی راہیں کھول سکتی ہے اور وہ اپنی آواز بہتر طریقے سے اعلیٰ ایوانوں میں پہنچا سکتی ہیں ۔
شیبا ہدایت نے اپنی گفتگو میں کہا کہ وہ پچھلے 15 سال سے خواتین کے حقوق کے لیے جد وجہد کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے بلا مبالغہ ہزاروں خواتین کو تربیت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ پوٹینشل موجود ہے ۔ وہ سیکھنے کے عمل میں بھی تیز ہوتی ہیں اور عملی کام میں بھی ۔ انہوں نے حاضرین سے ووٹ کے بارے میں پوچھا اور بطورِ خاص سابقہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پوچھا کہ کس کس نے خود خواتین کو ووٹ پول کیا ہے اور کس نے اپنے گھرانے کے افراد کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے نکالا تھا ۔ کچھ افراد نے ہاتھ کھڑے کردئیے۔ اس کے بعد مس شیبا نے انہیں جمہوری عمل میں خواتین کی شمولیت کی اہمیت سمجھائی اور کہا کہ یہ کتنا ضروری ہے ۔ بہت سے ایسے افعال و معاملات ہیں جن کو صرف خواتین ہی ایڈریس کرسکتی ہیں۔ اس لئے ان کو اپنی آواز خود ہی بلند کرنی چاہئے ۔ خواتین با اختیار ہونگی تو معاشرہ با اختیار ہوگا ۔
پینل ڈسکشن کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوا ،جس میں حاضرین نے کافی دلچسپی لی اور کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور سوالات بھی پوچھے ۔ ایک نے سوال پوچھا کہ قومی اور صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستیں کتنی ہیں اور ان کی کیا افادیت ہے ۔ جس کا جواب عابد جان نے دیا اور کہا کہ جنرل مشرف جب صدر تھے تو انہوں نے ایک ترمیم پاس کی اور قومی اور صوبائی اسمبلی میں خواتین کا کوٹہ 33 فیصد کردیا ۔ قومی اسمبلی کی کل 342 نشستیں ہیں، جن میں 266 نشستوں پر انتخابات ہوتے ہیں جبکہ باقی مخصوص نشستیں ہیں، جن پر ہر پارٹی کی طرف سے خواتین منتخب ہوتی ہیں اپنی اپنی حاصل کردہ نشستوں کی بنیاد پر ۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کا معاملہ بھی ہے۔
ایک اور طالبہ نے سوال کیا کہ وہ بطور خاتون معاشرے کے لئے کیا کرسکتی ہے، جس کا جواب دیتے ہوئے شیبا ہدایت نے کہا کہ سب سے پہلے اسے بہترین تعلیم حاصل کرنی چاہیئے اور اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ انہیں خود ووٹ کی اہمیت سمجھنی چاہیئے اس کے بعد اپنے حلقہ احباب میں اس بابت آگاہی پیدا کرنی چاہیے ۔
ایک اور نوجوان کا کہنا تھا ،ان کی شروع سے خواہش تھی اس قسم کے آگاہی پروگرامات میں شرکت کرنے کی لیکن چارسدہ میں اس قسم کے پروگراموں کا انعقاد نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ان نوجوانوں کے لئے اس قدر مفید سیشن کا اہتمام کیا اور امید ظاہر کی کہ مستقبل میں بھی انہیں اس قسم کے سیشنز دیکھنے کو ملیں گے.