غزہ برباد ہو چکا ہے ، شاید ہی کوئی گھر سلامت ہو، 50 ہزار کے قریب لوگ شہید کر دیے گئے ہیں۔ ہسپتال باقی ہیں نہ تعلیمی ادارے، غزہ آج بھی محاصرے میں ہے ، اس کے ہر طرف اسرائیل کی عملداری ہے۔ اہل فکر سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا اس تباہی کو فتح کہا جا سکتا ہے؟
اورجواب یہ ہے کہ جی ہاں اس سب کے باوجود اسے فلسطینیوں کی فتح ہی کہا جائے گا۔1948 سے اب تک ، فلسطینیوں کی پہلی فتح۔ ٹائمز آف اسرائیل کے ڈیوڈ ریس کے مطابق اسرائیل کی پہلی شکست۔
یہ جواب نہ جذباتیت پر مبنی ہے اور نہ ہی اس کا مقصد قارئین سے اپنی ’ واہ واہ ‘ کرانا ہے۔ پاپولزم کی لعنت سے اللہ نے محفوظ رکھا ہے اور دعا ہے کہ وہ آئندہ بھی اس سے محفوظ ہی رکھے۔ یہ قیامت صرف غزہ پر نہیں ، ہر اس شخص کے دل پر بیتی ہے جس میں انسانیت کی کوئی رمق موجود ہے ۔ یہ ایسا موضوع ہی نہیں جس پر کوئی اس لیے لکھے کہ اس کی ’’ واہ واہ‘‘ ہو جائے۔
اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیوں کیا ، اس کے اہداف کیا تھے؟ کیا وہ محض اپنے قیدی چھڑوانے آیا تھا؟ جی نہیں۔ وہ ان ہی عزائم کے ساتھ آیا تھا جن عزائم کے ساتھ اس نے 1948 میں فلسطینیوں پر قیامت ڈھائی تھی۔ تب ،وہ ان علاقوں پر حملہ آور ہوا تھا جو علاقے اقوام متحدہ نے فلسطینی ریاست کو دیئے تھے۔ فضائیہ ، آرٹلری اور زمینی دستوں کی مدد سے اس وسیع پیمانے پر قتل عام ہوا کہ صرف ایک ہفتے کے اندر 8 لاکھ کے قریب فلسطینی اپنے ہی علاقوں سے ہجرت کر گئے۔ ان کی زمینوں اور گھروں کو پہلے ملٹری زون قرار دے کر ضبط کر لیا گیا پھر وہاں یہودی بستیاں قائم کر لی گئیں۔ دیر یاسین ، عین کارم ، نطاف ، بیت عنان ، المحالہ ، مخاس ، عرتوف ، عقور ، خربۃ العمور ، الجورہ ، عماش ، ام لیسون ، دیر الشیخ ، کس کس کی بات کریں؟ سینکڑوں گائوں تھے جو ملیا میٹ کر دیئے گئے اور تاثر دیا گیا کہ یہاں کبھی کچھ تھا ہی نہیں۔
اسرائیل یہی فارمولا لے کر غزہ میں حملہ آور ہوا تھا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ شمالی غزہ کو بالکل برباد کرد یا جائے ، یہا ں کے لوگوں کو یہاں سے نکال دیا جائے، انہیں صحرائے سینا اور کانگو بھیج دیا جائے اور اس کامل بربادی کے بعد یہاں اسرائیلی بستیاں آباد کی جائیں۔ اور یہ کوئی خیالی بات نہیں ۔ اسرائیل میں اسے ’’ جرنیلی منصوبہ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کے خالق جنرل آئلینڈ ہیں۔
یاد رہے کہ یہ منصوبہ اکتوبر کے واقعے سے پہلے ہی منظر عام پر آ چکا تھا۔
منصوبہ کیا تھا؟جنرل آئلینڈ کے الفاظ میں اس کا پہلا مرحلہ یہ تھا کہ : ’’ غزہ کو مکمل تباہ کیا جائے، بوڑھی عورتوں تک پر کوئی رحم نہ کیا جائے ، یہی تو ہیں جنہوں نے مزاحمت کاروں کو جنم دیا ہے۔ شمالی غزہ کی مکمل بربادی ، ایسی بربادی جس کے بعد وہاں رہنا کسی کے لیے ممکن نہ رہے۔ ‘‘
نومبر میں ، جنرل آئلینڈ کو (جو اب فوج کا باقاعدہ حصہ نہیں مگر ان کا ریٹائرڈ افسران پر مشتمل تھنک ٹینک اب بھی غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے ، اور اسرائیلی پارلیمان اس کو بلا کر اس سے رہنمائی لیتی ہے) باقاعدہ بریفنگ دی گئی کہ جنرل پلان کے پہلے حصے پر عمل ہو چکا ہے اور 95 فی صد فلسطینی شمالی غزہ خالی کر کے جا چکے ہیں۔ جو باقی بچ گئے ، ان کو ’ دہشت گرد‘ قرار دے کر گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا اور اس حکم پر عمل درآمد کے لیے یہی کافی تھا کہ کوئی شخص شمالی غزہ میں نظر آ جائے۔ عورت ہونا ، بچہ ہونا یا بوڑھا ہونا بے معنی تھا۔حکم بڑا سادہ تھا کہ جو شمالی غزہ میں دیکھا جائے ، مار دیا جائے۔
جنرل پلان کا دوسرا مرحلہ یہ تھا کہ شمالی غزہ کو ’’ کلوزڈ ملٹری زون‘‘ قرار دیا جائے۔ (بالکل ایسے ہی جیسے 1948 میں فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے بے دخل کر کے انہیں کلوزڈ ملٹری زون‘ قرار دیا گیا اور بعد میں وہاں یہودی بستیاں بسا لی گئی یا جنگل اگا لئے گئے تاکہ فلسطینیوں کی یادداشت سے یہ سب محو ہوجائے)۔
اسرائیل کے وزیر زراعت نے کہا ہم ان کے ساتھ وہی کریں گے جو ہم نے ان کے ساتھ 1948 میں کیا تھا۔
جنرل پلان کا تیسرا مرحلہ یہ تھا کہ ان لوگوں کو کہیں ا ور منتقل کر دیا جائے۔ اسرائیل کی وزارت انٹیلی جنس کی جانب سے اس کی سربراہ گیلا گیمیل نے باقاعدہ رپورٹ جاری کر دی کہ انہیں مصر کے صحرائے سینا میں دھکیل دیا جائے۔ افریقہ کے چند ممالک سے مذاکرات ہونے لگے کہ وہ ان فلسطینیوں کو اپنے علاقوں میں آباد کر لیں تا کہ ان سے اسرائیل کی مکمل جان چھوٹ جائے۔
محترمہ کو اتنا یقین تھا کہ وہ فرماتی رہیں کہ جنگ کے خاتمے پر شمالی غزہ کی بچ جانے و الی آبادی کو ہم کانگو بھجوا دیں گے اورا س کے لیے ہماری حکومت کانگو سے بات چیت چل رہی ہے۔
اب ہوا کیا؟ اس سب کے برعکس، اس کے بالکل الٹ۔ غزہ بے بشک برباد ہو گیا ، لیکن غزہ خالی نہیں ہوا۔ غزہ والے نہ صحرائے سینا گئے نہ کانگو گئے۔ وہ اپنے ہی گھروں کے ملبے پر بیٹھے ہیں۔ وہ نہتے تھے اور نہتے ہیں لیکن انہوں نے 1948 کی تاریخ نہیں دہرائی۔ اب کی بار وہ ہجرتی نہیں ہوئے۔ وہ جیے یا مرے ، اپنی ہی زمین پر۔ انہوں نے اپنا آخری مورچہ خالی نہیں کیا۔ جو انہیں کانگو بھیجنے کی باتیں کر رہے تھے ، وہ ان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوئے۔
جو لوگ اسی طرح 1948 میں اپنے علاقوں سے بے دخل کیے گئے تھے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اسرائیل نے انہیں آج تک واپسی کا حق نہیں دیا۔ ساری دنیا اقوال زریں سناتی رہی لیکن انہیں واپسی کا حق نہ دلوا سکی۔
جو حق اقوام متحدہ میں بیٹھے عالمی ٹرانسجینڈرز انہیں نہ دلوا سکے، غزہ والوں نے اپنایہ حق اپنی قربانیوں سے خود لے لیا۔
غزہ کے لوگوں کی اکثریت 1948 کے قتل عام میں ہجرت کرجانے والے مہاجرین کی ہے۔ ان کی کیفیت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ ایک زمانے میں امن کے وقفے کی تلاش میں ہی اپنے گھروں سے نکل کر یہاں تھے۔ اب یہاں سے وہ بھاگ کر کہیں جانے کو تیار نہیں۔ ان کی دنیا اور ان کی دانش ہم جیسوں سے مختلف ہے جو اللہ کے فضل سے عشروں سے اسلام آباد جیسے پر امن شہر میں بیٹھ کر معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔
ہم شاید یہ نہ سمجھ سکیں کہ وہ اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھ کر خوش کیوں ہیں۔ وہ ہزاروں لوگ مروا کر فتح کا نشان کیوں بنا رہے ہیں۔
کل کیا ہو گا ، خدا ہی جانتا ہے ۔ ابتلا اور آزمائش کا نیا دور بھی شروع ہو سکتا ہے۔ لیکن آج وہ اپنے مورچے پر کامیاب ہیں۔ کامران ہیں۔ اسے فتح ہی لکھا جائے گا۔