کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں ایک عرصے سے یہ غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے کہ ان کی حیثیت محض مشاورتی ہے اور ان پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے۔ یہ غلط فہمی انٹر نیشنل لا سے ناواقفیت کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں نہ صرف قابل عمل ہیں بلکہ ان کو نافذ کرنا بھی اتنا ہی لازمی اور ضروری ہے جتنا اقوام متحدہ کی کسی بھی اور قرارداد کو ۔
باب 6 اور باب7 کی بحث خلط مبحث کے سوا کچھ نہیں۔ یہ بالکل غلط موقف ہے کہ کشمیر کی قراردادیں چونکہ باب 6 کے تحت پاس کی گئیں اس لیے وہ غیر اہم ہیں اور نافذ العمل نہیں ، سچ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد باب 6 کے تحت آئے یا باب 7 کے تحت ، اس کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بھارت سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت گیا تھا اور سلامتی کونسل نے اسی چارٹر کی روشنی میں اس مسئلے پر قراردادیں پاس کیں۔ سوال اب یہ ہے کہ ان قراردادوں کی حیثیت کیا ہے۔ اس کا جواب اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 میں دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ آرٹیکل 25 باب چھ کا حصہ نہیں۔ یہ پانچویں باب میں درج ہے جو سلامتی کونسل کے ڈھانچے اور عمومی دائرہ کار سے متعلق ہے۔
اس آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی حیثیت کیا ہو گی ا ور ان کے بارے میں ممالک کا رویہ کیا ہو گا۔
یعنی یہ آرٹیکل کہہ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک متفق ہیں کہ وہ سلامتی کونسل کے فیصلوں کو قبول کریں گے اور ان چارٹر کی روشنی میں ان پر عمل کریں گے۔
اس میں کہیں نہیں لکھا کہ باب 6 کی قراردادوں پر عمل کرنا ضروری نہیں ہو گا اور صرف باب 7 کی قراردادیں قابل عمل ہوں گی اور صرف انہی کو نافذ کیا جائے گا۔
آرٹیکل 25 یہ وضاحت کر رہا ہے کہ اس چارٹر کے تحت سلامتی کونسل جو بھی فیصلہ کرے گی اسے قبول کرنا ہی کافی نہیں اس پر عمل کرنا بھی لازم ہے۔
اب باب 6 بھی اسی چارٹر کا حصہ ہے اور پاس کی گئی قراردادیں اسی سلامتی کونسل کی ہیں جو اسی چارٹر کے تحت کارروائی کر رہی تھی تو ان قراردادوں کو آرٹیکل 25 میں دی گئی وضاحت کے بعد ’’نان بائنڈنگ‘‘ کیسے کہا جا سکتا ہے۔
انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کی سابق صدر بیرونس ہیگنز کا موقف بھی یہی ہے کہ چونکہ آرٹیکل 25 نہ باب 6 کا حصہ ہے نہ باب7 کا۔ اس لیے اس میں کہی گئی بات کو محض باب 7 تک محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کا اطلاق باب چھ پر بھی ہو گا۔
امریکہ کے انٹر نیشنل لاء کے پروفیسر سٹیفن زیونس اپنی کتاب Interational Law , The UN and the Middle Eastern Conflict میں اس بحث کو یوں سمیٹتے ہیں کہ ایسا ہر گز نہیں کہ باب 6 کی قراداد محض مشاورتی نوعیت کی ہے اور ’بائنڈنگ‘ نہیں ہے۔ باب چھ کی قرارداد بھی اتنی ہی بائنڈنگ ہے جتنی باب سات کی۔ باب چھ کی قرارداد کو کیسے نافذ کرنا ہے صرف اس کا فیصلہ کرنا باقی ہوتاہے۔ لیکن وہ ہوتی اتنی ہی متبر ہے جتنی باب سات کی قرارداد۔ ۔
یہ سوال بطروس غالی کے زمانے میں بھی اٹھا۔ بطروس غالی جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے تو انہوں نے یہی سوال اقوام متحدہ کے لیگل ایڈوائزر کے سامنے رکھا۔ انہیں جو جواب ملا اس کے اختتام پر یہ سطر لکھی تھی اور اہم بات یہ کہ ساری سطر ہی ’کیپیٹل لیٹرز‘ میں لکھی تھی جو معاملے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ آپ بھی پڑھ لیجیے،کیا لکھا تھا:
NO SECURITY COUNCIL RESOLUTION CAN BE DESCRIBED AS UNENFORCEABLE.
یاد رہے کہ یہ کسی دانشور کا موقف نہیں تھا کہ کسی کی ذاتی رائے قرار دے کر نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے سوال پر اقوام متحدہ لے لیگل ایڈوائزر کا جواب تھا۔
اسی طرح نیمیبیا کیس میں عالمی عدالت انصاف کا اکثریتی فیصلہ بھی یہی تھا کہ سلامتی کونسل کی تمام قراردادیں ’بائنڈنگ‘ ہوتی ہیں۔
اس ساری بحث میں اقوام متحدہ کے چارٹر کا پہلا باب بہت اہم ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصول بیان کرتا ہے۔ اس کے دو ہی آرٹیکل ہیں۔ ذرا دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 2 کیا کہہ رہا ہے؟
آرٹیکل 2 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تمام رکن ممالک اس چارٹرکے تحت عائد Obligations کو پورا کرنے کے پابند ہوں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چارٹر کے تحت عائد Obligations سے کیا مراد ہے؟
اقوام متحدہ کی Collective measures committee نے اس کی وضاحت یہ کی ہے کہ چارٹر کے تحت عائد Obligations یعنی فرائض اور ذمہ داریوں میں نہ صرف سلامتی کونسل کی تمام قراردادیں آتی ہیں بلکہ جنرل سمبلی کی قراردادیں بھی ان میں شامل ہیں۔ ان سب پر عمل کرنا تمام رکن ممالک کی Obligations میں آتا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عالمی قوتوں کے غیر منصفانہ رویے نے اقوام متحدہ کو عملا عضو معطل بنا دیا ہے ۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خود ساختہ مایوس کن تعبیر پیش ہونا شروع ہو جائے۔
قانونی پوزیشن کی تفہیم بہت ضروری ہے ۔ اس کے لیے میں تسلسل سے یہ مطالبہ کر رہا ہوں کہ نصاب میں ، اور بالخصوص لاء کے نصاب میں دو مضامین کا اضافہ لازمی ہے۔ ایک یہ کشمیر کے بارے میں انٹرنیشنل لا کیا کہتا ہے اور دوسرا یہ کہ فلسطین کے معاملے میں بین الاقوامی قانون کہاں کھڑا ہے۔
اس بنیادی مقدمے کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ جب تک آپ کی نئی نسل ان دو دیرینہ معاملات کو انٹر نیشنل لا کی روشنی میں اچھی طرح نہیں سمجھے گی ، وہ کسی بھی خلط مبحث کا آسان شکار بنتی رہے گی۔فکری یکسوئی کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو اپنا مقدمہ اور اس کے قانون دلائل معلوم ہونے چاہیں۔
اس کے بعد پھر انسانی وجود اس سوال کی آنچ پر سلگتا ہے کہ جب ہمارا مقدمہ قانونی ہے تو اقوام متحدہ انصاف کیوں نہیں دے رہی ۔
یہی آنچ ، کسی وقت ، آگے چل کر زاد راہ بھی بن سکتی ہے۔