عورت فاؤنڈیشن کا سگریٹ اور دیگر تمباکو مصنوعات پر ایکسائز ٹیکس میں نمایاں اضافے کا مطالبہ
تمباکو اور نیکوٹین مصنوعات پر ٹیکس میں اضافہ نہ صرف تمباکو نوشی کی روک تھام میں مؤثر ثابت ہوگا بلکہ عوامی صحت کے بہتری اور قومی مالی وسائل کو مضبوط بنانے میں بھی نمایاں کردار ادا کرے گا۔
اسلام آباد: 25 مارچ 2025 – عورت فاؤنڈیشن کے ایک وفد نے آج وفاقی وزیر برائے قومی صحت خدمات، قواعد و ضوابط اور ہم آہنگی، سید مصطفیٰ کمال سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور آئندہ بجٹ میں تمباکو اور نیکوٹین مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے کا مطالبہ کیا۔
عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر پروگرام، محترمہ ممتاز مغل نے کہا کہ پاکستان تمباکو نوشی کے پھیلاؤ کے لحاظ سے 84 ممالک میں 54ویں نمبر پر ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ تمباکو کی تشہیر نوجوانوں، خاص طور پر کم عمر لڑکیوں کو حد سے زیادہ نشانہ بنا رہی ہے، جو ان کی صحت، تعلیم اور مستقبل کے امکانات پر منفی اثر ڈال رہی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں تقریباً 31.9 ملین بالغ افراد (15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے) یعنی 19.7% بالغ آبادی تمباکو کا استعمال کر رہی ہے۔
ٹیم لیڈر، جناب صفدر رضا نے وضاحت کی کہ ایک معتبر ادارے کی جانب سے کی گئی حالیہ تحقیق میں درج ذیل اہم نکات سامنے آئے ہیں:
31.6 ملین بالغ افراد (15 سال یا اس سے زیادہ عمر کے)، یعنی 19.9% بالغ آبادی تمباکو استعمال کر رہی ہے، جن میں 17.3 ملین افراد تمباکو نوشی کرتے ہیں۔
پاکستان میں ہر سال 160,000 سے زائد اموات تمباکو کے استعمال سے جڑی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں۔
تمباکو نوشی سے متعلقہ بیماریوں اور اموات کی مجموعی اقتصادی لاگت پاکستان کی جی ڈی پی کے 1.6% کے برابر ہے۔
اگر تمباکو ٹیکس میں اضافہ نہ کیا گیا تو 2025-26 تک پاکستان میں مزید 490,000 افراد تمباکو نوشی شروع کر سکتے ہیں۔
مزید برآں، جناب رضا نے کہا کہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فروری 2023 سے تمباکو ٹیکس کی شرح جوں کی توں رہنے کی وجہ سے سگریٹ زیادہ سستی ہو گئی ہیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فی پیکٹ 39 روپے ایکسائز ٹیکس میں اضافہ درج ذیل مثبت نتائج لا سکتا ہے:
2,63,000 افراد تمباکو نوشی چھوڑ دیں گے۔
سگریٹ کے استعمال میں 6.9% کمی آئے گی۔
حکومتی آمدنی میں 67.4 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔
محترمہ ممتاز مغل نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا، "مندرجہ بالا حقائق کے پیش نظر، تمباکو اور نیکوٹین مصنوعات پر نمایاں ٹیکس اضافہ نہ صرف تمباکو نوشی کی حوصلہ شکنی کرے گا بلکہ صحت عامہ کے بہتر نتائج اور قومی مالی وسائل کے استحکام میں بھی معاون ثابت ہوگا۔”