روحانیت کے حقیقی مظاہر اور ایک معروف و منفرد صوفی سے ملاقات کا احوال

روحانیت کو اکثر و بیشتر مراقبے، عبادت اور ریاضت تک محدود سمجھا جاتا ہے، لیکن اسلام میں روحانیت کا جو تصور اور دائرہ کار ہے وہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ حقیقی روحانیت صرف مسجد، خانقاہ یا چند معمولات تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہمارے روزمرہ کے رویوں، اخلاقیات اور معاشرتی تعلقات میں بھی ہر دم جلوہ گر ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں روحانیت کا مکمل تصور درج ذیل پہلوؤں پر محیط ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حقیقی روحانیت کے مظاہر کون سے ہیں اور اس کے اثرات و ثمرات سے ایک فرد اور معاشرہ کیسے مستفید ہوگا۔ اس کے علاؤہ ملک کے معروف اور منفرد صوفی اور ادیب احمد جاوید سے کچھ عرصہ قبل ملاقات ہوئی تھی کچھ اس کے احوال بھی ملاحظہ کریں امید ہے یہ پیشکش دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی۔

1. نرم کلام:

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
اور بندوں سے نرمی سے بات کیا کرو” (القرآن، سورۃ البقرہ: 83)

زندگی میں حقیقی روحانیت کا آغاز زبان کی نرمی اور شائستگی سے ہوتا ہے۔ تلخ کلامی، گالی گلوچ، شور شرابہ اور جارحانہ اندازِ گفتگو روحانی پستی کی علامت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ دوسروں سے خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے بات کرتے، حتیٰ کہ مخالفین کو بھی نرمی اور خیر خواہی سے سمجھاتے۔

2. مدد کا جذبہ:

روحانیت کا ایک بنیادی تقاضا یہ ہے کہ انسان دوسروں کے کام آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"تم میں سے بہترین انسان وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچائے۔” (صحیح البخاری)

ضرورت مندوں کی نصرت، ہمسایوں کی مدد، مسکینوں کی دستگیری، بیماروں کی عیادت اور بے کسوں کی حمایت۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب روحانی ترقی کے ٹھوس ذرائع ہیں۔ روحانیت کا مقصد انسانوں سے دور ہونا ہرگز نہیں بلکہ خدا کے لیے ان کے کام آنا ہے۔

3. شخصیت کی شائستگی:

روحانیت صرف دل اور نفس کی صفائی نہیں، بلکہ ظاہری وضع قطع اور شخصیت کی شائستگی بھی ہے۔ نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ صاف ستھرے، خوشبو لگائے اور باوقار لباس پہنتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"بے شک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔”(صحیح مسلم)

ایک مہذب شخصیت میں تواضع، نظم و ضبط، وقار اور اعلیٰ اخلاق شامل ہوتے ہیں۔

4. صحت مندانہ رویے:

روحانیت کے حامل افراد اپنے صحت مندانہ رویوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ سلام میں پہل کرنا، ملاقات میں مسکراہٹیں بکھیرنا، معاملات میں شفاف رہنا، اپنے ہاتھ اور زبان کو اذیت دینے سے روکنا، مجلس میں ادب سے بیٹھنا، دوسروں کی بات غور سے سننا۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب روحانیت کی لطیف و نفیس علامات ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے۔” (صحیح البخاری)

5. اچھے اخلاق:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا بنیادی مقصد ہی اچھے اخلاق کی تکمیل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مکمل مؤمن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔” (سنن الترمذی)

سچ بولنا، مہربان رہنا، امانت دار ہونا، غصہ پی جانا، معاف کر دینا، کوتاہیوں کو نظر انداز کرنا یہ سب اعلیٰ روحانی صفات ہیں۔

6. لچکدار مزاج:

روحانیت کے حامل لوگ ہٹ دھرم نہیں ہوتے۔ وہ اختلافات میں نرمی اور معاملات میں لچک کے لیے ضروری گنجائش چھوڑتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اور جو لوگ غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اللہ ایسے نیکوکاروں سے محبت کرتا ہے۔” (آل عمران: 134)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کو سب سے بہتر عمل قرار دیا اور تنازعات میں میانہ روی اختیار کی۔ تنازعات کے دوران توجہ انصاف کے حصول پر ہونی چاہیے نہ کہ کسی کو لازماً ضرر اور نقصان پہنچانا منشاء میں شامل ہو جائے۔ یاد رکھیں جو کوئی بھی، کسی کو نقصان کے لیے نشانے پر لیتا ہے وہ خود بھی کہیں نہ کہیں سے نشانے پر آ جاتا ہے۔

7. قابلِ قبول طرزِ عمل:

روحانیت کا حتمی مقصد یہ ہے کہ انسان کا ہر عمل دوسروں کی خیر خواہی پر مبنی ہو اور یہ کہ مجموعی طرزِ عمل قابلِ قبول ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کسی کی خوشنودی حاصل کی جائے، بلکہ یہ ہے کہ ہمارا رویہ ایسا ہو جو کہ شرعی اور اخلاقی اصولوں کے مطابق ہو اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے والا ہو۔

اسلام کی نظر میں روحانیت کا مطلب صرف ذکر و اذکار نہیں، بلکہ ایک متوازن، خیر خواہانہ، خدمت و محبت والی اور شائستہ زندگی کا حصول ہے۔ جب ہم اپنے کلام، اخلاق، رویوں اور معاشرتی تعلقات کو روحانی اقدار سے آراستہ کریں گے تو نہ صرف سکون و اطمینان سے سیراب ہوں گے بلکہ رفتہ رفتہ حقیقی روحانیت ہمارے وجود میں رچ بس جائے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

اب آئیے محترم احمد جاوید سے ملاقات کی طرف:

انسانی اصلاح کا کام ہر دور میں سب سے مطلوب، سب سے ضروری، سب سے مشکل اور سب سے پیچیدہ کام رہا ہے۔ زندگی کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ بندہ اپنی اصلاح خدائی وسائل کی روشنی میں یقینی بنائے۔ اسی مقصد کے لیے اللہ نے دنیا میں پیغمبروں، کتابوں اور ہدایت کے مختلف سلسلے جاری کیے تھے جیسے اب بھی دوسری شکلوں میں جاری و ساری ہیں یعنی اصلاح کے حصول میں اب مددگار عمل علماء، صلحاء، صدیقین، دانشمند اور دانا و بینا شخصیات کی قربت ہے۔ اسی قربت میں رہ کر بندہ وہ روشنی اور خوشبو پا سکتا ہے کہ جس کو قلب و نظر منور کرنے اور اخلاق و کردار سنوارنے کے کام لائی جا سکتی ہیں۔ اسی ضرورت اور حرارت کے تحت ہم موقع بہ موقع مختلف بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان سے کچھ نہ کچھ بہتر سیکھیں اور یقین کریں ایسی ہر کوشش میں ہم کامیاب ہوتے ہیں۔

محترم احمد جاوید اپنے کلام، تخیلات، ادبیت اور روحانیت کے اعتبار سے ملک کے ممتاز بزرگوں میں ایک ہیں۔ آپ کے گرد ایک خاص قسم کی ٹھنڈک، سکون، خاموشی، ٹھہراؤ اور وقار کا ہالہ سا کھینچا گیا ہے ان کے پاس بیٹھ کر فوراً محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی اللہ والے کے پاس آگیا ہوں۔ ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ متکلم کا دل ایمان اور اطمینان سے لبریز ہے۔ وہ ڈراتا نہیں ہے بلکہ مانوس کراتا ہے خدا سے، دین سے اور روحانیت سے۔ احمد جاوید معروف صوفی، منفرد ادیب، ممتاز سکالر اور ہمہ جہت مصلح ہیں۔ اس کے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ اور علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے بہترین شارح ہیں۔

کچھ عرصہ قبل محترم احمد جاوید سے ہدایت خان (سعودی عرب میں پاکستانی کمیونٹی کی معروف سماجی شخصیت) کی قیادت میں وفد سمیت ملاقات کی۔ وفد میں ہمارے علاؤہ سید اعجاز جان، سید محمد احمد جان اور مراد علی شامل تھے۔ آپ سے گھنٹے بھر کی نشست ایک روشنی کی مانند ثابت ہوئی اور ایسا اطمینان نصیب ہوا جس نے قلب و روح کو خوب آسودہ کیا۔ محترم احمد جاوید نے ہماری بہترین مہمان نوازی کی، فراخ دلی وقت دیا اور ہم میں سے ہر ایک خصوصی توجہ سے نوازا۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر، علم اور عمل میں بے تحاشہ برکتیں شامل فرمائے اور ان کے ذریعے سے مخلوق خدا کو فراوانی سے خیر پہنچائے۔ اصلاح ذات و سماج کے حوالے سے آپ کی نصحیتیں نہایت موثر محسوس ہوئی آئیے ملاحظہ کریں:

فرمایا

"وہ بندہ اللہ سے تعلق بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے جو انسانوں سے اپنا تعلق درست کرنے میں کامیاب ہو”۔

فرمایا

"علم اور ذہانت قدرتی امور ہیں لیکن کردار ارادی اور اختیاری چیز ہے، اس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے”۔

فرمایا

"بہت سارے بظاہر مذہبی شناخت کے لوگ اچھے دوست، بیٹے اور تعلق دار ثابت نہیں ہوتے”۔

فرمایا

"کوئی اپنی اصلاح کرنا چاہے تو آسان ترین فارمولا یہ ہے کہ ایک فرد اپنے وقت کا جائزہ لیں کہ وہ کن کاموں اور چیزوں میں صرف ہو رہا ہے؟”

فرمایا

ادب کسی بھی نظریے کو درکار احساسات فراہم کر دیتا ہے ۔کیوں کہ احساسات ہمارے ذہن کو درکار ہیں اپنے تصور حیات میں ثابت قدم رہنے کے لیے۔ ادب نہ صرف احساسات میں رفعت پیدا کرتا ہے بلکہ ان کی رینج بھی بڑھا دیتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے