پہلا دن: پشاور لٹریری فیسٹیول میں بطور والنٹیر شرکت
مورخہ: 3 مئی 2025
مقام: پشاور
زندگی میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو صرف یاد نہیں رہتے، بلکہ دل کے آئینے میں نقش ہو جاتے ہیں۔ 3 مئی 2025 کا دن میرے لیے بھی کچھ ایسا ہی تھا، جب میں نے پشاور لٹریری فیسٹیول میں بطور والنٹیر شرکت کی۔
صبح سویرے جب میں پشاور کے مشہور "نشترحال” مقام پر پہنچا، تو فضا میں علم و ادب کی خوشبو گھلی ہوئی تھی۔ سب سے پہلے قدم مین ہال کی جانب بڑھے، جہاں فنونِ لطیفہ کے دلدادہ افراد نے اپنے بنائے ہوئے نادر و نایاب اسکیچز ترتیب سے دیواروں پر سجا رکھے تھے۔ یہ فن پارے دل کو چھو لینے والے تھے۔ کہیں گھوڑوں کی بے لگام دوڑ تھی، کہیں شیروں کی جلالت۔ لیکن جس اسکیچ نے میرے دل میں گھر کر لیا، وہ اپر دیر کے نواب شاہجہان کے قلعے کا خاکہ تھا—کسی فنکار نے گویا پتھر میں جان ڈال دی ہو۔
یہ منظر میں نے فخر سے اپنے قابلِ احترام اساتذہ ڈاکٹر قدرت اللہ خٹک اور ڈاکٹر اسحاق وردگ صاحبان کو بھی دکھایا، جو خود علم و فن کے دریا ہیں۔
چونکہ میری ذمہ داری تقریب کی تیاری میں مدد کرنا تھی، تو میں اپنے دیگر رضاکار دوستوں اور منتظمین کے ساتھ سرگرمی سے کام میں جُت گیا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، جوش و خروش بڑھتا گیا۔
تقریب کا باقاعدہ آغاز 10 بجے صبح ہوا، سب سے پہلے تلاوتِ کلامِ پاک اور پھر قومی ترانہ پیش کیا گیا۔ ہال میں موجود سب شرکاء یک زبان و یک دل ہو کر احترام میں کھڑے ہو گئے۔ یہ لمحہ دل کو چھو گیا۔
پھر افتتاحی تقریب میں عبدالرحمن سر نے بطور منتظم تقریر کی۔ ان کے بعد ایک منفرد انداز کی پرفارمنس پیش کی گئی: اسفندیار خٹک صاحب نے پٹھانوں کے رقص پر ایک تحقیقی لیکچر دیا اور پھر خوشحال خان خٹک کے کلام پر شاندار رقص پیش کیا—ایک ایسا امتزاج جو علم، ثقافت، اور فن کا حسین امتزاج تھا۔
اس کے بعد ایک دلچسپ پینل ڈسکشن ہوئی، جس کا عنوان تھا:
"New Mind, New Meaning: Youth in Knowledge in the Postmodern Age”
اس نشست میں ناصر جمال خٹک، شبانہ گل، اور عدیل یوسف جیسے ممتاز دانشور شامل تھے۔
میں چونکہ والنٹیر تھا، اس لیے ہال کے اندر اور باہر دونوں جگہوں پر میری مصروفیت رہی، لیکن جب بھی موقع ملا، سیشنز سے لطف اندوز بھی ہوتا رہا۔
ایک اہم لمحہ تب آیا جب ڈاکٹر قدرت اللہ خٹک صاحب نے Creative Writing پر ورکشاپ دی۔ ان کا اندازِ بیان، مواد کی گہرائی، اور سادگی سامعین کے دل کو بھا گئی۔
اس کے بعد مختلف سیشنز ہوئے، جن میں میری مکمل شرکت ممکن نہ ہو سکی، لیکن ان کی بازگشت پورے ماحول میں سنائی دیتی رہی۔
پھر ایک انوکھا منظر نامہ ڈرامائی پرفارمنس کی صورت میں سامنے آیا، جسے عمران افتخار صاحب نے فطرس بخاری کی تحریر "سویرے جو کل آنکھ میری کھلی” پر پیش کیا۔ اس پرفارمنس نے ناظرین کو گویا ایک اور جہان میں پہنچا دیا۔
تقریب کے اختتام سے قبل میں نے بیرونی احاطے میں جا کر اپنے اساتذہ اور دیگر معزز شخصیات کی تصاویر اپنے کیمرے میں محفوظ کیں۔ پھر ایک خاص ملاقات ہوئی افضل عدیل صاحب سے، جو لاہور سے آئے تھے—ایک باوقار، علم دوست شخصیت۔
آخر میں مشاعرہ ہوا، جس میں ڈاکٹر اسحاق ورزک صاحب سمیت دیگر شعراء نے اپنے دلنشین اشعار سے سامعین کے دل موہ لیے۔
یوں یہ علمی و ادبی دن محبت، خلوص اور علم کے رنگوں سے بھرپور رہا، اور اختتام ایک ایسی خوشبو کے ساتھ ہوا جو آج بھی میرے دل و دماغ میں مہک رہی ہے۔)
—
دوسرا دن: فکری و ثقافتی رنگوں سے سجا دن
مورخہ: 4 مئی 2025
مقام: پشاور
(پشاور لیٹریری فیسٹیول کا دوسرا دن ایک بار پھر علم، ادب اور فکری مکالمے کی روشنی سے منور رہا۔ صبح سویرے جب میں نشتر ہال پہنچا تو کچھ افراد ہال کو ترتیب دینے میں مصروف تھے۔ میں نے لمحہ بھر کو سکون لیا، موبائل نکالا اور واٹس ایپ پر دوستوں کے پیغامات دیکھنے لگا۔
اسی دوران شہاب بھائی، جو فیسٹیول کے مرکزی منتظمین میں سے ہیں، ہال میں تشریف لائے اور تمام والنٹیئرز کو جمع کر کے دن بھر کے ایجنڈے سے آگاہ کیا۔ انہوں نے نہایت شفقت سے ہمیں ہماری ذمے داریاں سونپیں۔ میری ڈیوٹی دو باہمت لڑکیوں کے ہمراہ ہال کے اندر ڈیوٹی لگی، جبکہ دیگر رضاکاروں کو بھی ان کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں۔ شہاب بھائی نے گزشتہ دن کی کامیاب سرگرمیوں پر تمام رضاکاروں کا شکریہ ادا کیا اور ان کی محنت کو سراہا۔
تاہم، دن کے آغاز میں ایک تکنیکی رکاوٹ نے ابتدائی سیشن کو متاثر کیا۔ "خیبر پختونخوا کے وسائل و مسائل” پر ہونے والی اہم پینل ڈسکشن مین ہال کی خرابی کے باعث تھیئٹر ہال میں منتقل کی گئی۔ اس مکالمے میں ایم این اے شندانہ گلزار، سید اختر علی شاہ اور شمس مومند نے شرکت کی۔ انہوں نے خیبر پختونخوا کے قدرتی، انسانی اور معاشی وسائل، نیز درپیش چیلنجز پر جامع گفتگو کی۔ سیشن کے اختتام پر حاضرین نے سوالات کیے جن کے مدلل جوابات مقررین نے دیئے۔
اس کے بعد صحافت کے موضوع پر ایک معنی خیز نشست "صحافت: چوتھا ستون یا محض راوی؟” کے عنوان سے منعقد ہوئی، جس میں وسعت اللہ خان، یاسر پیرزادہ، سید عرفان اشرف اور سبوخ سید نے آزادی صحافت، اخلاقی ذمہ داریاں اور میڈیا کے بدلتے رجحانات پر گفتگو کی۔
فیسٹیول کے دوران مختلف ورکشاپس بھی منعقد ہوئیں، جن میں ای-کامرس، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور مصنوعی ذہانت جیسے موضوعات شامل تھے۔ ان سیشنز نے نوجوانوں کو نئے مواقع اور عملی ہنر سے روشناس کرایا۔
اسی دوران ایک اور نشست "ادب اور سیاست: تخلیق کار کہاں کھڑا ہو؟” کے عنوان سے منعقد ہوئی، جس میں ، عدیل افضل، وردہ شہزادی اور عبدالرحمن نے ادب اور سیاست کے مابین تعلق پر بصیرت افروز بات چیت کی۔
پھر "پشاور: ادب، ثقافت اور تاریخ کا اصل نگہبان کون؟” کے عنوان سے ایک اور مکالمہ ہوا، جس میں حنیف خلیل اور ڈاکٹر تاج الدین تاجور نے پشاور کے تہذیبی ورثے پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد یوسف بشیر قریشی کا دلنشین خطاب ہوا، جنہوں نے نوجوانوں سے وجدانی انداز میں گفتگو کی، جس کا محور ادب، خودی، تصوف اور معاشرتی اقدار پر تھا۔
اختتامی لمحات میں محفلِ موسیقی کا انعقاد ہوا، جہاں گل ورین باچا نے پشتو اور اردو کلاسیکی دھنیں پیش کیں۔ اس محفل میں نوجوانوں نے جوش و خروش سے حصہ لیا۔ انہیں لمحات میں پشتو ثقافت کا نمائندہ رقص اتڼ بھی پیش کیا گیا، جس میں کئی شرکاء نے شرکت کی۔
جب یہ خوبصورت دن اختتام کو پہنچا، تو دل میں تشکر کی لہر دوڑ گئی۔ میں نے ان دوستوں سے ملاقات کی جو اسی فیسٹیول میں میرے ہمسفر بنے۔ ہم تینوں ہال سے نکلتے ہوئے اشعار کا تبادلہ کرتے، ایک دوسرے کو داد دیتے، اور دوستی کی گرمی سمیٹتے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔
پشاور لیٹریری فیسٹیول کا یہ دن نہ صرف فکری و ثقافتی لحاظ سے ثمرآور رہا، بلکہ اس نے دلوں کو جوڑنے اور ذہنوں کو روشن کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کیا۔ میں منتظمِ اعلیٰ عبدالرحمن ،شہاب بھائی اور تمام رضاکاروں کا ممنون ہوں جنہوں نے ہمیں اس ادبی کارواں کا حصہ بنایا۔
یہ دن یوں بیتا جیسے کوئی خوشبو دار صفحہ، جو ہمیشہ یاد رہے۔)