غزہ کی صورتحال کم و بیش پچاس سال سے پیچیدہ ہے لیکن حالیہ ایک سال میں یہ دنیا کی خوفناک اور بد ترین زون کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جہاں ہر طرف بلڈنگوں کا ملبہ ان کے نیچے دبی ہوئی سینکڑوں لاشیں ، ہسپتالوں میں تڑپ کر جان دیتے ہوئے بچے ، گلیوں میں بچوں کو پکارتی ہوئی مائیں ، اور عصاء کی ٹیک پہ چلتے ہوئے بزرگ دھاڑیں مار مار کر اپنے پیاروں کو خون کے آنسو رو رہے ہیں، امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران عرب ممالک سے بڑے دفاعی و ٹیکنالوجی معاہدے کیے ہیں، سعودی ولی عہد نے شام پہ پابندیاں ختم کروانے میں کردار ادا کرتے ہوئے اسے اپنی ایک اہم اور سفارتی کامیابی قرار دی ہے۔ قطر اور متحدہ عرب امارات میں بھی بڑے بڑے معاہدے اور دعوے سامنے آئے ہیں، لیکن اس پوری گہما گہمی میں غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اعلان یا اقدامات نہیں کیے گئے.
امید یہ کی جا رہی تھی کہ ٹرمپ کو عرب حکمران فی الفور جنگ بندی اور غزہ میں امدادی سامان کی فوری ترسیل پہ آمادہ کرتے ہوئے اسرائیلی ظلم و ستم رکوانے میں کامیاب ہو جائیں گے، لیکن افسوس ایسا کچھ نہ ہو سکا اور عین اسی وقت جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب ، قطر اور متحدہ عرب امارات میں بڑے بڑے تحائف وصول کر رہے تھے، عین اسی وقت اسرائیل امریکہ کی طرف سے دئیے گئے بموں سے غزہ کے معصوم بچوں ، خواتین اور بزرگوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔ حالیہ خبریں انتہائی تشویشناک ہیں، اطلاعات کے مطابق 13 اور 14 مئی کو اسرائیلی بمباری سے 80 سے زائد افراد شہید ہو گئے، اسرائیلی فوج کی شدید بمباری کے نتیجے میں غزہ میں 80 فلسطینی مزید شہید ہو گئے۔ محکمہ شہری دفاع کے مطابق صرف شمالی غزہ میں 59 افراد شہید ہوئے ہیں۔ ان تباہی کے مناظر میں جبالیہ کے علاقے میں ملبے کا ڈھیر، بکھرے ہوئے گھر، اور زخمی بچوں کو دیکھا گیا ہے، جو اپنے خاندان کے افراد اور سامان کی تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ ایک خاتون نو ماہ کے شہید بچے کی لاش کے پاس رو رہی تھیں اور سوال کر رہی تھیں: ”اس نے کیا قصور کیا تھا؟“
انڈونیشین اسپتال کے ایمرجنسی ڈاکٹر محمد عواد نے بتایا کہ زخمیوں کے لیے نہ بیڈز ہیں، نہ دوائیں اور نہ سرجری کی سہولیات۔ انہوں نے کہا: ”شہیدوں کی میتیں اسپتال کی راہداریوں میں پڑی ہیں کیونکہ مردہ خانہ مکمل بھر چکا ہے۔ صورتحال ہر لحاظ سے تباہ کن ہے۔“ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ذاتی مفادات کی خاطر جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ: ”ہم ہر قیمت پر جنگ بندی چاہتے ہیں۔“ جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے فوری جنگ بندی، تمام قیدیوں کی رہائی اور امدادی رسائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اٹلی کی وزیراعظم جورجیا میلونی نے غزہ کی صورتحال کو ”مزید سنگین اور ناقابلِ جواز“ قرار دیا۔ انسانی حقوق کی تنظیم میڈیسنز سان فرنٹیئرز نے بھی کہا ہے کہ اسرائیل امداد کو جبری نقل مکانی اور آبادی کی جانچ پڑتال سے مشروط کر رہا ہے، جو فلسطینیوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ معصوم بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور عام شہریوں کی شہادتیں انسانیت کی تاریخ میں ایک بدنما داغ کے طور پہ لکھی جائیں گی۔ اسرائیل کے وزیرِاعظم نیتن یاہو نے ظلم، بربریت اور نسل کشی کی ایسی داستان رقم کی ہے جو کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ اس کی قیادت میں غزہ کو ایک منظم منصوبے کے تحت ملبے کا ڈھیر بنایا جا رہا ہے، جس پر عالمی برادری کی روایتی مزمت اور آگے بڑھ کر عملی طور پر ظلم کو نہ روکنا ایک سوالیہ نشان ہے۔
عرب ممالک، خصوصاً وہ جو فلسطینی عوام کے قریب سمجھے جاتے ہیں، انہیں اب محض بیانات سے آگے بڑھ کر مؤثر اور عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عرب لیگ کو چاہیئے کہ وہ فوری ہنگامی اجلاس طلب کرے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے مشترکہ پالیسی تشکیل دے۔ اپنے تمام معاہدوں پر جنگ بندی کو ترجیح دیں۔ غزہ میں فی الفور جنگ بندی کی جائے اور انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اگر عرب دنیا نے اس موقع پر مؤثر کردار ادا نہ کیا تو تاریخ انہیں مظلوم مسلمانوں کے خون کا خاموش تماشائی تصور کرے گی۔
اسی طرح اقوامِ متحدہ اور امریکہ پر یہ اخلاقی، قانونی اور انسانی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس قتلِ عام کو بند کرانے کے لیے فی الفور اقدامات کریں۔ اگر وہ صرف مذمتی بیانات تک محدود رہے تو وہ خود انسانی تاریخ کے مجرم قرار دیے جائیں گے۔ پاکستان نے ان ایام میں قابلِ تعریف جرات مندانہ موقف اپنایا ہے۔ وزیرِ خارجہ، اقوامِ متحدہ میں مستقل مندوب اور اعلیٰ حکام نے مسلسل عالمی پلیٹ فارمز پر اسرائیلی مظالم کی مذمت کی ہے اور نیتن یاہو کو عالمی سطح پر جنگی مجرم قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ ہم ہر اقدام کے لیے تیار ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غزہ کے پڑوسی ممالک اگر پاکستان کو فضائی ، زمینی، بحری مدد فراہم کریں تو پاکستان اتنی طاقت رکھتا ہے کہ فلسطینی بھائیوں کی مدد کو پہنچ سکتا ہے، خصوصاً غذائی قلت میں پاکستان اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ امدادی سامان پہنچا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے اگر غزہ کے پڑوسی ہی اغیار کے ساتھ ہاتھ ملائے بیٹھے ہوں تو کس سے شکوہ کریں اور کس سے مدد کی اُمید باقی رکھی جائے۔
ان حالات میں دنیا کی خاموشی مجرمانہ غفلت تصور کی جائے گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ عالمی ضمیر جاگے، بااثر ممالک اور ادارے مصلحتوں سے بالاتر ہو کر مظلوموں کا ساتھ دیں۔ غزہ میں قتل عام رکوانا صرف فلسطین کی بقا نہیں بلکہ انسانیت کی بقا کی جنگ ہے۔ اگر آج ظالم کے ہاتھ نہ روکے گئے تو کل یہ ظلم کسی اور کے دروازے پر ہوگا۔ اس لیے عالمی برادری، عرب ممالک اور تمام انصاف پسند اقوام کو اب متحد ہو کر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہو گی، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔