ہیٹ ویو ، دو بچوں کی جان لے گیا ؛ کب جاگے گا ہمارا نظام؟

پاکستان اس وقت شدید ماحولیاتی بحران کی زد میں ہے، مگر شاید ہمیں اس کی شدت کا اندازہ صرف اُسی وقت ہوتا ہے جب کسی کا پیارا ہم سے جدا ہو جاتا ہے ، وہ بھی کوئی معصوم بچہ، جو اپنے خواب لیے اسکول گیا ہو۔

پہلا دل دہلا دینے والا واقعہ پنجاب کے ضلع بہاولنگر، تحصیل ہارون آباد کے علاقے 100 سکس آر میں پیش آیا۔ 13 سالہ طالبہ ملیحہ بنت مجاہد جو آٹھویں جماعت کی طالبہ تھی، اسکول میں شدید گرمی اور حبس کے دوران بے ہوش ہو گئی۔ اطلاعات کے مطابق ملیحہ پہلے سے ایک ہارٹ پیشنٹ تھی اور اس کا دل کا علاج جاری تھا۔ بدقسمتی سے اُسے اسکول میں ہارٹ اٹیک ہوا، اور فوری CPR دینے کے باوجود اُسے بچایا نہ جا سکا۔ اسکول میں بنیادی طبی سہولیات کی عدم دستیابی اور شدید موسمی حالات نے ایک اور قیمتی جان ہم سے چھین لی۔

دوسرا افسوسناک واقعہ قریبی علاقے چک 72 ایم ایل میں پیش آیا، جہاں ایک 15 سالہ طالب علم، عبدالستار کا بیٹا، شدید گرمی کے دوران اسکول میں گیم کھیلتے ہوئے گر پڑا اور موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ بچے کے والد نے کسی قسم کی قانونی کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن اس خاموشی میں ایک دل گرفتہ سوال چھپا ہوا ہے . کیا ہم واقعی اپنی آنے والی نسل کی زندگی اور تحفظ کے لیے سنجیدہ ہیں؟

یہ دو واقعات محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک انتباہ ہیں۔یہ صرف خبریں نہیں، یہ چیخیں ہیں ، ایک احتجاج اُس نظام کے خلاف، جس کے نزدیک انسانی جان کی قیمت شاید سب سے کم ہے۔ اسکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان، ماحولیاتی خطرات کو سنجیدگی سے نہ لینا، اور حکومت و اداروں کی مجرمانہ خاموشی اب ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہے۔

کیا یہ واقعہ صرف ایک سانحہ ہے یا ریاستی و انتظامی غفلت کا کھلا جرم؟

محکمہ موسمیات نے کئی دنوں پہلے ہی ہیٹ ویو کی وارننگ جاری کی تھی۔ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے متعدد علاقوں میں درجہ حرارت 48 ڈگری تک جا پہنچا تھا۔ اس کے باوجود اسکول کھلے رکھنا، بجلی کی غیر موجودگی میں بچوں کو حبس زدہ کمروں میں بٹھانا، اور طبی سہولتوں سے عاری ماحول میں ان سے مکمل حاضری کی توقع رکھنا ، کیا یہ دانستہ غفلت نہیں؟

یہ ننھی بچی صرف ایک طالبہ نہیں تھی۔ وہ ایک خواب تھی، ایک امید تھی، ایک مستقبل تھی ، جسے ہمارے لاپرواہ سسٹم نے نگل لیا۔ ایک ایسا معاشرہ جو تعلیمی نظام کو صرف امتحانات، مارکس اور رول کال تک محدود کر چکا ہے، وہاں انسانی جان کی اہمیت شاید سرکاری فائلوں میں کہیں گم ہو چکی ہے۔

ماحولیاتی تبدیلی ، محض عالمی نعرہ یا قومی مسئلہ؟

ہم اکثر "کلائمٹ چینج” کو ایک عالمی نعرہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، حالانکہ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں . باوجود اس کے کہ ہم کاربن کے اخراج میں معمولی حصہ رکھتے ہیں۔

پانی کی قلت

جنگلات کی کٹائی

درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ

ہیٹ ویوز اور قحط

یہ سب حقیقتیں اب خبروں سے نکل کر ہمارے گھروں، اسکولوں، اور ہسپتالوں تک پہنچ چکی ہیں۔

حل کیا ہے؟

1. تعلیمی اداروں کے لیے ماحولیاتی ہنگامی پالیسی:

اسکولوں کو موسم کے لحاظ سے فوری ردعمل دینے کی پالیسی اپنانا ہو گی۔ شدید گرمی میں تعطیلات، یا کم از کم وقت کی تبدیلی لازمی ہونی چاہیے۔

2. اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی:

پنکھے، واٹر کولر، جنریٹرز اور فرسٹ ایڈ کے انتظامات صرف فائلوں میں نہیں، زمین پر بھی نظر آنے چاہییں۔

3. محکمہ تعلیم اور موسمیات کے درمیان رابطہ:

ایک فعال نظام بنایا جائے جہاں ہیٹ ویو الرٹس کے بعد فوری تعلیمی اقدامات کیے جائیں۔

4. آگاہی اور احتیاط:

والدین، اساتذہ، اور طلبہ کو یہ سکھایا جائے کہ شدید گرمی کے دوران کون سی احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔

5. حکومتی سطح پر ماحولیاتی پالیسیوں کا نفاذ:

طویل المدتی اقدامات جیسے درختوں کی شجرکاری، شہروں میں گرین زونز، اور کاربن اخراج کم کرنے کی قومی مہمات فوری نافذ کی جائیں۔

کیا ہم سنجیدہ ہیں؟

یہ کالم ایک تنقید نہیں، ایک التجا ہے۔
کیا ہمیں مزید بچوں کی لاشیں چاہییں تب جا کر ہم جاگیں گے؟
کیا ہیٹ ویو صرف گرمی کا نام ہے یا یہ اب ایک قاتل بن چکی ہے؟
کیا ہم ان بچوں کے لیے صرف سوشل میڈیا پر چند سطریں لکھ کر خاموش ہو جائیں گے، یا اس واقعے کو تبدیلی کا آغاز بنائیں گے؟

ماحولیاتی تبدیلیاں اب محض موسم کا تغیر نہیں بلکہ ایک خاموش قاتل بن چکی ہیں۔ اگر ہم نے اس خاموشی کو توڑا نہیں، تو شاید ہر گرمی کا موسم ہم سے کوئی اور بچہ چھین لے گا، اور ہم صرف ایک اور تعزیتی بیان لکھتے رہ جائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے