جب معاشرتی بندشیں حوصلے سے ہار گئیں : مصباح کی جیت

وادیٔ سرسبز مانسہرہ کے ایک چھوٹے مگر خوبصورت گاؤں "ڈلیاڑی” سے تعلق رکھنے والی بی بی مصباح سعید کی کہانی ہمارے معاشرے کی اُن ان کہی داستانوں میں سے ایک ہے جو شاید کثرتِ تعصبات اور روایتی جمود کے شور میں کہیں دب کر رہ جاتی ہیں۔ مگر مصباح کی جدوجہد، قربانی اور عزم و ہمت کا چراغ اتنا روشن ہے کہ وہ اب نہ صرف اپنی برادری کی بیٹیوں کے لیے، بلکہ پورے علاقے کی خواتین کے لیے ایک مثال بن چکی ہے۔

مصباح ایک سید گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں، جہاں روایتی اقدار کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ وہ ایک پڑھے لکھے مگر قدامت پسند ماحول میں پلی بڑھی۔ اس کے والد پاک فوج سے ریٹائرڈ ہیں اور چاروں بھائی حافظِ قرآن ہیں۔ بظاہر گھرانہ تعلیم یافتہ اور دینی شعور رکھنے والا تھا، مگر معاشرے کے زنگ آلود خیالات اور گرد و نواح کے تنگ نظر ماحول نے اس گھرانے کے لیے بھی اپنی بیٹی کے خوابوں کو اپنانا دشوار بنا دیا۔

مصباح شروع ہی سے نہایت ہونہار رہی ہیں۔ کالج لائف میں وہ نیشنل لیول پر چُک بال اور ہینڈ بال کی کھلاڑی رہ چکی ہیں اور انڈر 21 ایتھلیٹس کی کوچنگ کی خدمات بھی انجام دے چکی ہیں۔ کھیلوں کے ساتھ ساتھ مصباح کو لکھنے کا بھی شوق ہے۔ وہ مختلف موضوعات پر لکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور الفاظ کے ذریعے اپنے خیالات کی خوبصورت ترجمانی کرتی ہیں۔ یہ تمام صلاحیتیں ان کی شخصیت میں اعتماد، توازن اور قائدانہ خوبیوں کی جھلک پیش کرتی ہیں۔

مصباح نے ہزارہ یونیورسٹی سے بی ایس مکمل کیا، اور اپنی محنت، ذہانت اور لگن کی بنیاد پر پولیس فورس میں شمولیت کے لیے درخواست دی۔ یہ فیصلہ نہ صرف خود اس کے لیے بلکہ اس کے خاندان کے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا۔ قسمت نے ساتھ دیا، اور پہلی ہی کوشش میں مصباح کا انتخاب ہو گیا۔ لیکن یہ کامیابی جیسے ہی حقیقت کا روپ دھارنے لگی، مسائل اور مخالفتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی لہر اس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔

مصباح کے خاندان اور برادری میں لوگ سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگے۔ “پولیس کی نوکری؟ اور وہ بھی ایک لڑکی؟” جیسے جملے گاؤں کی گلیوں میں گونجنے لگے۔ لوگوں نے اس کے والد کو طعنے دیے، بھائیوں کو مطعون کیا، حتیٰ کہ اس کے بڑے بھائی، جو خود ایک مسجد کے خطیب ہیں، کو بار بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔

وہاں کے لوگوں کی باتوں کے دباؤ میں آ کر مصباح کے والدین نے وقتی طور پر چاہا کہ وہ یہ نوکری چھوڑ دے۔ اُنہیں یہ خدشہ لاحق ہوا کہ شاید ان کی بیٹی کو معاشرہ قبول نہ کرے، اور ان کے خاندان کی عزت خطرے میں پڑ جائے۔ معاشرتی دباؤ کا عالم یہ تھا کہ مصباح کے والد اور بھائی، جو اس کے سب سے بڑا سہارا تھے، وقتی طور پر پیچھے ہٹ گئے۔

لیکن مصباح نے ہار نہ مانی۔ نوکری کے پہلے دن وہ اکیلی تھی۔ نہ کوئی ساتھ، نہ کوئی سہارا۔ وردی زیب تن کیے، اعتماد اور بے یقینی کے بیچ جھولتی ہوئی وہ اس دن اپنی تقدیر خود لکھنے نکلی۔ اور وہی دن اس کے سفر کا سنگ میل ثابت ہوا۔

مصباح نے پولیس ٹریننگ کے دوران بھی نہایت دلیری اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ گھر سے دور، ایک اجنبی ماحول میں، جہاں اکثر لڑکیاں جذباتی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں، مصباح نے نہ صرف خود کو مضبوط ثابت کیا بلکہ اپنی ساتھی خواتین کو بھی حوصلہ دیا، اُنہیں ساتھ لے کر چلی، اُن کا سہارا بنی۔ ٹریننگ کے ہر مرحلے میں اُس کی قیادت اور جرات نمایاں رہی۔

گرد و نواح کے لوگوں کو مصباح کا اعتماد اور عزم کھٹکنے لگا۔ وہ مسلسل اس انتظار میں تھے کہ کب اُس کے والد اور بھائی دباؤ میں آ کر اُس سے نوکری چھڑوا دیں گے۔ مصباح کی خاموشی اور اداسی کو اس کے چھوٹے بھائیوں نے محسوس کیا۔ وہ جان گئے کہ ان کی بہن اندر ہی اندر ٹوٹ رہی ہے۔ تینوں بھائی اپنے والد اور بڑے بھائی کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے دلیل، محبت اور احساس سے اُنہیں قائل کیا کہ اگر بہن کے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا گیا، تو وہ باقی زندگی ایک بے جان جسم کی مانند زندہ رہے گی۔

یہ وہ لمحہ تھا جب ایک بیٹی کے خوابوں کو باپ کی رضا مندی، اور بھائیوں کی تائید کا سہارا ملا۔ مصباح نے پولیس کی نوکری جاری رکھی، اور آج وہ نہ صرف محکمہ پولیس میں بہترین خدمات انجام دے رہی ہے، بلکہ اپنی برادری کی لڑکیوں کے لیے ایک مشعلِ راہ بن چکی ہے۔

مصباح کا کہنا ہے، “میں گزشتہ تین سال سے پولیس فورس میں کام کر رہی ہوں۔ شروع میں لوگوں نے جو جو باتیں کیں، وہ سب بے بنیاد ثابت ہوئیں۔ حقیقت میں یہ ادارہ خواتین کو بے حد عزت دیتا ہے۔ یہاں مرد افسران اور ساتھی انتہائی پروفیشنل رویہ رکھتے ہیں، اور خواتین کو کام کرنے کے لیے سازگار اور باعزت ماحول میسر ہے۔”

مصباح کی کامیابی صرف اس کی ذاتی جیت نہیں، بلکہ یہ اس سوچ کی فتح ہے جو عورت کو محض چار دیواری میں قید رکھنے کے بجائے، اسے خودمختار اور خودار بننے کی اجازت دیتی ہے۔ ایسے ماحول میں، جہاں آئے روز غیرت کے نام پر بیٹیوں کی لاشیں اُٹھتی ہیں، وہاں مصباح جیسے کردار سماج کے منہ پر طمانچہ ہیں، اور اُن خاندانوں کے لیے ایک دعوتِ فکر ہیں جو صرف "لوگ کیا کہیں گے” کے خوف سے اپنی بیٹیوں کے خوابوں کو دفن کر دیتے ہیں۔

مصباح کے والد اور بھائی قابلِ ستائش ہیں، جنہوں نے وقت کے دباؤ کے آگے جھکنے کی بجائے، سچائی اور بیٹی کے حق میں فیصلہ کیا۔ معاشرتی روایات کی زنجیروں کو توڑ کر ایک نئی مثال قائم کی۔

ہمیں ایسے باپ، بھائی اور خاندان درکار ہیں، جو بیٹیوں کے خوابوں کو اپنا خواب سمجھ کر ان کی تعبیر کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں ایسے لوگ چاہییں جو غیرت کی اصل تعریف کو سمجھیں ۔ وہ غیرت جو عورت کو عزت دے، آزادی دے، حوصلہ دے، نہ کہ اس کے پر کاٹ کر اسے قفس میں قید کرے۔

مصباح سعید کی کہانی ہمارے معاشرتی نظام کے لیے ایک آئینہ ہے، ایک پیغام ہے کہ اگر ہم واقعی ترقی چاہتے ہیں، تو ہمیں اپنی بیٹیوں کو اپنی پہچان بنانے کا حق دینا ہوگا۔ کیونکہ جب ایک بیٹی سنبھلتی ہے، تو پورا معاشرہ سنبھلتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے