قربانی صرف ایک مذہبی رسم نہیں بلکہ ایک روحانی تربیت، اطاعت کا عملی مظاہرہ، اور خلوص و ایثار کی بلند ترین علامت ہے۔ یہ عمل ہمیں صرف گوشت تقسیم کرنے یا جانور ذبح کرنے کے لئے نہیں سکھایا گیا بلکہ اس کے پیچھے ایک گہرا پیغام ہے، جو انسان کی نیت، دل کی کیفیت، اور اللہ سے تعلق کے حقیقی امتحان پر مبنی ہے۔
قربانی کا مفہوم صرف ظاہری عمل تک محدود نہیں بلکہ اس میں وہ جذبات پنہاں ہیں جو بندے کو اللہ کے قریب کرتے ہیں۔ "قربانی” عربی زبان کے لفظ "قُرب” سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے "قریب ہونا”۔ جب بندہ اپنی محبوب شے اللہ کی رضا کے لیے قربان کرتا ہے، تو وہ درحقیقت ربِّ کائنات کے قرب کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے۔
جب 10 ذوالحجہ کا سورج طلوع ہوتا ہے تو دنیا بھر کے مسلمان حضرت ابراہیمؑ کی سنت کی پیروی میں جانور قربان کرتے ہیں۔ یہ عمل ہمیں اس عظیم باپ اور بیٹے کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے اللہ کے حکم پر لبیک کہا۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
"اللہ کو نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون، بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے” (سورہ الحج: 37)
یعنی اصل قربانی تمہاری نیت، تقویٰ، اور خلوص ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"قربانی کے دن کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں، اور وہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کھروں سمیت پیش ہوگا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ کے ہاں قبول ہو جاتا ہے۔” (مشکوٰۃ)
یہ ایک ایمان افروز حقیقت ہے، مگر سوال یہ ہے: کیا واقعی ہماری قربانی اللہ کے ہاں قبول ہو رہی ہے؟
قربانی تو کر دی جاتی ہے، جانور بھی ذبح ہو جاتا ہے، گوشت بھی بانٹ دیا جاتا ہے، لیکن کیا وہ خلوص، وہ تقویٰ، وہ احساس ہمارے دل میں موجود ہے جو اس عمل کو "قرب” کا درجہ دے؟ قرآن پاک میں حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، جنہوں نے قربانی پیش کی، مگر قبول صرف اُس کی ہوئی جو پرہیزگار تھا۔ قرآن کہتا ہے:
"اللہ صرف متقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے” (المائدہ: 27)
یہی اصول آج بھی قائم ہے۔ صرف عمل نہیں، بلکہ عمل میں تقویٰ اور نیت کا خالص ہونا ضروری ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی زندگی سراپا اطاعت تھی۔ وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں:
"اے اللہ! مجھے اور میری اولاد کو اپنا فرمانبردار بنا”
اسی اطاعت کی عملی جھلک ہمارے محترم استاد ابو حفص طاہر کلیم صاحب کی وہ نصیحت ہے جو وہ ہر سال قربانی کے موقع پر ہمیں یاد دلاتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
"جانور کے گلے پر چھری چلانے سے پہلے اپنی ضد، انا اور خود غرضی پر چھری چلا دیں۔ ان شاءاللہ قربانی بھی قبول ہو جائے گی اور آپ صحیح معنوں میں سنتِ ابراہیمی پر عمل پیرا بھی ہو جائیں گے۔”
یہ جملہ گویا پوری روحانیت کی بنیاد ہے۔ اگر ہم صرف جانور نہیں بلکہ اپنے نفس، حسد، کینہ، تکبر، اور ریاکاری کو بھی ذبح کر دیں، تبھی قربانی قبول ہوگی۔ حضرت ابراہیمؑ نے صرف بیٹے کو قربان نہیں کیا، بلکہ اپنی جذباتی وابستگی، دنیاوی محبت، اور والدانہ شفقت کو اللہ کی رضا پر قربان کیا۔
آج ہمیں بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم خود کو اللہ کے سامنے جھکانے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم قربانی کو بھی فخر، نمود، اور سوشل میڈیا کی زینت بنانے میں مصروف ہیں؟ جانور کی نسل، قیمت، اور وزن کے چرچے، تصویریں، اور ویڈیوز… یہ سب کیا اللہ کے لیے ہے یا مخلوق کے دکھاوے کے لیے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تمہارے جسموں اور شکلوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دلوں اور نیتوں کو دیکھتا ہے” (صحیح مسلم)
اخلاص ہی عبادت کی جان ہے۔ اگر نیت خراب ہو جائے تو بڑے سے بڑا عمل بھی بے کار ہو جاتا ہے۔ میر تقی میر نے کہا تھا:
"اخلاص دل سے چاہیے سجدہ نماز میں
بے فائدہ ہے یوں وقت کھویئے”
قربانی کا ایک اور پہلو "احساس” ہے۔ یہ عمل ہمیں ایثار اور ہمدردی کا سبق دیتا ہے۔ گوشت صرف اپنے فریزر تک محدود نہ رکھا جائے، بلکہ غرباء، مساکین اور ناداروں تک پہنچایا جائے۔ کسی کے چولہے کو گرم کرنا، کسی بچے کے چہرے پر خوشی لانا، یہی تو قربانی کی اصل روح ہے۔
یاد رکھیے، قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں۔ یہ ایک تربیت ہے، ایک امتحان ہے، ایک مشق ہے جس کے ذریعے ہم سیکھتے ہیں کہ اللہ کی رضا کے لیے ہمیں کیا کچھ قربان کرنا ہے — اپنی نیند، اپنی ضد، اپنا وقت، اپنی دولت، اپنی خواہشات، حتیٰ کہ اپنی "میں”۔
اگر ہم اخلاص، تقویٰ، اور احساس کے ساتھ عمل کریں، رسول اللہ ﷺ کی سنت کو زندگی میں شامل کریں، اور اپنی اولاد کو بھی اس راہ پر ڈالیں تو ان شاء اللہ ہماری قربانی ضرور قبول ہوگی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں وہ قربانی کرنے کی توفیق دے جو محض جانور کی نہیں بلکہ دل، نیت، اور نفس کی ہو۔ وہ ہمیں اپنے مقرب بندوں میں شامل کرے، ہماری قربانی کو بخشش کا ذریعہ بنائے، اور ہمیں اس دین پر ثابت قدم رکھے۔
آمین یا رب العالمین۔