پلاسٹک آلودگی: ایک خاموش قاتل

ہم آج جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں، وہ دن بہ دن آلودہ ہوتی جا رہی ہے، اور اس آلودگی میں سب سے بڑا کردار پلاسٹک کا ہے ۔ ایک ایسا خاموش قاتل جو زمین، پانی، ہوا، جانوروں، پودوں اور خود انسانوں کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ پلاسٹک ایک ایسا مواد ہے جو تقریباً 500 سے 1000 سال تک قدرتی ماحول میں باقی رہتا ہے، یعنی اگر آج ہم ایک پلاسٹک بوتل پھینکیں تو وہ آنے والی کئی نسلوں تک زمین میں یا سمندر میں جوں کی توں موجود رہے گی۔ UNEP رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کا یہ دیرپا وجود زمین کے ماحولیاتی نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال عالمی یومِ ماحولیات کا عنوان ہے: “Beat Plastic Pollution” — یعنی پلاسٹک آلودگی کو شکست دو۔

پلاسٹک کی آلودگی اس وقت جنم لیتی ہے جب استعمال شدہ پلاسٹک اشیاء زمین یا سمندر میں پھینکی جاتی ہیں اور وہ ختم ہونے کے بجائے ماحول کا حصہ بن جاتی ہیں۔

نیشنل جیوگرافک کے مطابق ہر سال تقریباً 8 ملین ٹن پلاسٹک سمندر میں چلا جاتا ہے، جس سے لاکھوں آبی جانور ہلاک ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ پلاسٹک کو خوراک سمجھ کر نگل لیتے ہیں۔ پلاسٹک وقت کے ساتھ ٹوٹ کر مائیکرو پلاسٹک میں بدل جاتا ہے جو اب پینے کے پانی، ہوا اور خوراک میں بھی شامل ہو چکا ہے ۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی 80 فیصد سے زائد بوتل بند پانی میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا ہے۔ اس سے انسانی صحت پر بھی سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں، جیسے ہارمونی نظام کی خرابی، بانجھ پن، کینسر اور بچوں کی نشوونما میں رکاوٹ۔ UNEP کی ہیلتھ اینڈ پلاسٹک رپورٹ کے مطابق یہ اثرات انسانی صحت کے لیے خطرناک اشارہ ہیں۔

حال ہی میں مجھے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی یومِ ماحولیات کانفرنس 2025 میں شرکت کا موقع ملا، جہاں جرمن سفارت خانے کے نمائندے نے جرمنی کے مؤثر حکومتی اقدامات کے ذریعے پلاسٹک آلودگی پر قابو پانے کی شاندار مثال پیش کی۔ انہوں نے بتایا کہ جرمنی میں اب گھریلو پانی 100 فیصد صاف اور محفوظ ہے، کیونکہ 1990 کی دہائی سے وہاں ری سائیکلنگ سسٹم اور سخت ماحولیاتی قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ جرمنی نے واحد استعمال والی پلاسٹک اشیاء جیسے اسٹرا، چمچ، اور فوم فوڈ کنٹینرز پر پابندی عائد کر دی ہے اور ان کی جگہ بانس اور کاغذی متبادل کو فروغ دیا گیا ہے۔ پلاسٹک تھیلیوں پر ٹیکس لاگو کیا گیا ہے، اور عوام کو کپڑے یا کاغذ کے تھیلے استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، جرمنی میں "Pfand” کے نام سے ایک ڈپازٹ سسٹم متعارف کرایا گیا ہے، جس کے تحت صارفین پلاسٹک کی بوتل یا کین خریدتے وقت ایک معمولی رقم ادا کرتے ہیں جو انہیں ریورس وینڈنگ مشین کے ذریعے خالی بوتل واپس کرنے پر واپس ملتی ہے۔ جرمن ماحولیاتی ایجنسی کے مطابق اس مؤثر نظام کی بدولت پلاسٹک بوتلوں اور کین کی واپسی کی شرح 97 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ جرمنی میں ماحول دوست طرزِ زندگی کی بنیاد بچپن سے ہی رکھی جاتی ہے، جہاں اسکولوں میں ری سائیکلنگ کی تعلیم دی جاتی ہے اور ہر گلی محلے میں ری سائیکلنگ بِنز موجود ہیں۔ یہ ایک کامیاب ماڈل ہے جس سے پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک سیکھ سکتے ہیں اور اپنے ماحول کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔

لیکن حکومت کے اقدامات کے ساتھ ساتھ ہر فرد کی انفرادی ذمہ داری بھی نہایت اہم ہے۔ ہم سب اگر صرف چند چھوٹے فیصلے اپنی زندگی میں لے آئیں تو بہت بڑا فرق پڑ سکتا ہے۔ مثلاً: خریداری کرتے وقت کپڑے یا کاغذ کے تھیلے ساتھ لے جانا، واحد استعمال والی اشیاء جیسے پلاسٹک گلاس، پلیٹ یا اسٹرا سے گریز کرنا، ری سائیکلنگ کا شعور رکھنا اور دوسروں کو بھی سکھانا، اور ماحول دوست مصنوعات کا استعمال بڑھانا جیسے اقدامات قابلِ عمل ہیں۔ WWF پاکستان کے مطابق یہ روزمرہ کے معمولات اگر درست سمت میں کیے جائیں تو ماحولیاتی تبدیلی پر مثبت اثر ڈال سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سیکھنا ہوگا کہ ہر بار جب ہم ایک پلاسٹک کی چیز زمین پر پھینکتے ہیں تو وہ صرف گندگی نہیں، بلکہ مستقبل کی تباہی کا بیج ہوتا ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم خاموشی توڑیں اور ذمہ داری قبول کریں۔ پلاسٹک آلودگی کے خلاف جدوجہد صرف ماحولیاتی مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی بقاء کا سوال ہے۔ ہمیں ایک ایسا راستہ چننا ہے جو زمین کے ساتھ وفاداری، آنے والی نسلوں سے محبت، اور اپنی ذات سے بیداری کا اظہار ہو۔ ہر قدم، ہر انتخاب، اور ہر آواز فرق ڈال سکتی ہے۔

آئیں، ہم اس یومِ ماحولیات 2025 پر یہ عہد کریں کہ ہم نہ صرف شعور پیدا کریں گے بلکہ اپنے عمل سے وہ تبدیلی لائیں گے جو ایک صاف، محفوظ اور پائیدار مستقبل کی ضمانت بنے۔

ہم وہ نسل بنیں گے جو زمین سے محبت کو صرف نعرہ نہیں، طرزِ زندگی بنائے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے