کیا ایران اسرائیل پر حملہ کر سکے گا ؟؟

ایران کے پاس عملی آپشنز محدود، جنگ کی صورت میں شدید کمزوریوں کا شکار اگر زمینی حقائق اور عسکری توازن کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو ایران کے پاس فی الحال سوائے سیاسی و سفارتی بیانات یا پراکسی جنگ کے، اسرائیل پر براہِ راست حملے کا کوئی مؤثر یا قابلِ عمل راستہ موجود نہیں ہے۔

فضائی حملے کی محدود صلاحیت

ایران اور اسرائیل کے درمیان فاصلہ تقریباً 1,500 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ اتنے فاصلے پر بغیر ایئر ٹو ایئر ری فیولنگ (Air-to-Air Refueling) کے ایرانی لڑاکا طیارے اسرائیل تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ اور اگر پہنچ بھی جائیں تو واپسی ممکن نہیں۔ دوسری طرف، مشرق وسطیٰ میں ایران کے کسی اتحادی ملک کی طرف سے ری فیولنگ کی اجازت یا راستے کی فراہمی کا کوئی امکان نہیں، کیونکہ خطے کے اکثر ممالک خود اسرائیل یا امریکا کے اتحادی ہیں۔

ڈرون حملوں کی ناکامی

ایران نے متعدد بار اسرائیل پر ڈرون حملوں کی کوشش کی، لیکن اسرائیلی ڈیفنس سسٹمز، بالخصوص آئرن ڈوم (Iron Dome)، ڈیوڈز سلنگ اور امریکی معاونت سے فراہم کردہ THAAD جیسے جدید میزائل ڈیفنس سسٹمز نے ان حملوں کو مؤثر انداز میں ناکام بنایا۔ حالیہ حملے میں ایران کے 300 سے زائد میزائل اور ڈرون فضا میں ہی تباہ کر دیے گئے، جن میں سے بیشتر راستے میں ہی ہدف تک پہنچنے سے پہلے گرائے گئے.

ایرانی فضائیہ کی کمزوری

ایران کے پاس موجود زیادہ تر جنگی طیارے سوویت دور کے سخوئی اور مگ سیریز کے پرانے ماڈلز ہیں، جن کی اپ گریڈیشن محدود اور ٹیکنالوجی فرسودہ ہے۔ ان طیاروں کا موازنہ اسرائیل کی F-35I Adir اسٹیلتھ فائٹر جیسی پانچویں نسل کے جدید طیاروں سے کرنا ممکن ہی نہیں۔ اسرائیلی فضائیہ دنیا کی چند بہترین فورسز میں شمار کی جاتی ہے، جس کے پاس نہ صرف جدید طیارے ہیں بلکہ انٹیلیجنس، الیکٹرانک وارفیئر، اور سائبر وار کی مہارت بھی موجود ہے۔

امریکی حمایت اور عسکری موجودگی

امریکا کے صدر واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ اگر اسرائیل کو ضرورت پیش آئی تو امریکا مکمل طور پر ساتھ دے گا۔ مشرق وسطیٰ میں امریکا کی موجودگی کسی افسانے کی طرح نہیں بلکہ براہ راست زمینی حقیقت ہے۔

مشرق وسطیٰ اور آس پاس میں امریکی عسکری بیسز:

امریکا کے خطے میں 20 سے زائد اہم عسکری اڈے موجود ہیں، جن میں سے چند نمایاں درج ذیل ہیں:

العدید ایئربیس (قطر): مشرق وسطیٰ میں امریکی فضائیہ کا سب سے بڑا اڈہ۔
پرنس سلطان ایئربیس (سعودی عرب): F-15 اور دیگر لڑاکا طیارے موجود۔
الظفرہ ایئربیس (متحدہ عرب امارات): خفیہ آپریشنز اور F-35 طیاروں کی تعیناتی۔
بحرین: 5ویں امریکی نیول فلیٹ کا مرکز۔
کویت: لاجسٹکس اور زمینی افواج کی تعیناتی۔
اردن، شام، عراق: مختلف اسٹیلتھ اور ریڈار بیسز اور فوجی موجودگی۔
ترکی (انجرلک بیس): نیٹو کا ایک اہم اسٹریٹیجک مرکز۔
ایرانی پراکسیز کا زوال

ایران کی خطے میں موجود پراکسیز بھی اب پہلے کی طرح طاقتور نہیں رہیں:

لبنان میں حزب اللہ اسرائیلی حملوں کے جواب میں محدود کارروائیوں سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
شام میں بشار الاسد کی حکومت ختم کر کے اسرائیلی اور امریکی پراکسی حکومت انسٹال کر دی گئی ہے ۔ اسرائیل نے یہاں درجنوں بار ایرانی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
یمن میں حوثی باغیوں کو بھی اسرائیل اور امریکا کی بحری طاقت نے قابو میں رکھا ہوا ہے۔
عراق میں مقتدیٰ الصدر جیسے شیعہ رہنما بھی محتاط بیانات دے رہے ہیں، اور وہاں سے ایران کے حق میں کوئی سنجیدہ کارروائی نظر نہیں آتی۔

ایران آج جس صورتحال کا شکار ہے، وہ حقیقی تنہائی، عسکری محدودیت اور سفارتی کمزوری کی عکاسی کرتی ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور اتحاد (امریکا-اسرائیل-یورپ) کے مقابلے میں ایران کی پوزیشن غیر متوازن ہے۔ جب تک کوئی معجزہ نہ ہو، ایران کے لیے جنگ جیتنا تو دور، اسے مؤثر طور پر لڑنا بھی ممکن نہیں۔”جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ہے”
اقبال کا یہ شعر آج بھی ایران جیسے ممالک کے لیے صادق آتا ہے،
باقی رہی بھڑک بازی، تو وہ جاری ہے… اور شاید جاری رہے گی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے