17 زندگیاں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں ذمے دار کون ؟؟

پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے جسے قدرت نے پہاڑوں، دریاؤں، وادیوں، جھیلوں اور جنگلات جیسے بے شمار فطری تحفوں سے نوازا ہے۔ ان حسین مناظر نے ہمیشہ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارا انفرااسٹرکچر، حفاظتی اقدامات، اور عوامی شعور اس سطح پر نہیں پہنچ سکے جس کی سیاحتی ترقی کے لیے ضرورت ہے۔ ہر سال درجنوں نہیں، سینکڑوں قیمتی جانیں ان ”قدرتی حسن“ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہو جاتی ہیں، اور کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ ایسا ہی ایک المیہ حالیہ دنوں میں دریائے سوات کے مقام پر پیش آیا، جس نے پورے ملک کو غم زدہ کر دیا۔

دریائے سوات میں جو دل دہلا دینے والا سانحہ پیش آیا، اس میں ایک ہی خاندان کے 16 افراد دریا کے تیز ریلے کی نذر ہو گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ لوگ دریا کے خشک نظر آنے والے مقام پر ناشتہ کرنے کے لیے اترے تھے، اور جب اچانک ایک تیز ریلہ آیا تو وہ محفوظ مقام کی تلاش میں ایک ٹیلے پر جا کھڑے ہوئے۔ پانی کی رفتار تیز تھی، اور کنارے تک پہنچنے کا کوئی محفوظ راستہ باقی نہ رہا۔ اگر بروقت ریسکیو، مناسب وسائل، یا پانی سے نمٹنے کی مہارت میسر ہوتی تو یہ ہلاکتیں شاہد نہ ہوتیں۔ ڈسکہ میں تین بیٹے، بیٹیوں اور اپنے نواسے نواسیوں ، پوتے پوتیوں کی خبر سن کر آنسو بہانے والے با ریش بزرگ بھی آج اپنے سب بچوں کو گلے لگا رہے ہوتے، لیکن افسوس کہ وہ سب سیلابی ریلے کی نظر ہو گئے، اس سانحہ میں موت کی نظر ہو جانے والے کچھ سوالات بھی چھوڑ گئے ہیں، کہ آخر سانحہ سوات کا ذمے دار کون ہے؟ بے رحم موجوں کے بیچ مدد کو پکارتے سیاحوں کو بچایا کیوں نہیں جاسکا؟ امدادی ٹیمیں دیر سے کیوں پہنچیں؟ پہنچنے کے بعد بھی ریسکیو اہلکار ناکام کیوں ہوگئے؟

کیا عملے کے پاس ریسکیو کا سامان موجود تھا؟ عینی شاہدین اور جاں بحق ہونے والوں کے گھر والوں کے سوالوں کے جواب کون دے گا؟ جیسا کہ اوپر بھی ذکر کیا ہے کہ غم سے نڈھال لواحقین کا کہنا ہے ریسکیو ادارے ڈیڑھ گھنٹے بعد آئے ان کے پیارے ٹِیلے پر پھنسے رہے، ان کی آنکھوں کے سامنے بپھرا ریلا لوگوں کو بہا لے گیا۔

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ دریائے سوات، کنہار، چترال، ناران، کاغان اور یہاں تک کے پورے ملک میں کسی نہ کسی دریا، ڈیم ، جھیل، حتیٰ کہ کراچی کے ساحلوں پر بھی ہر سال ایسے دل سوز واقعات رونما ہوتے ہیں جن کی روک تھام ممکن تھی، اگر ہمارے پاس بروقت امدادی نظام، ٹورازم سیفٹی پالیسی، اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہوتا۔

اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی طرف نظر دوڑائیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں سیاحت کو صرف ”دلچسپی“ نہیں بلکہ ایک ذمے داری سمجھا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر:

سوئٹزرلینڈ کے پہاڑی علاقوں میں ہر چند قدم پر الرٹ بورڈز، سیفٹی بیریئرز، ایمرجنسی کال پوائنٹس، اور GPS-enabled گائیڈ موجود ہوتے ہیں۔ جاپان میں سیاحتی علاقوں میں زلزلے، طوفان یا سیلاب کی صورت میں آٹومیٹک وارننگ سسٹمز کام کرتے ہیں، جنہیں موبائل فون پر براہِ راست الرٹ کیا جاتا ہے۔ ترکی کے مشہور دریاؤں اور جھیلوں کے کنارے باقاعدہ لائف گارڈز تعینات کیے جاتے ہیں۔ بغیر لائف جیکٹ کے کسی کو کشتی میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ملائیشیا اور سنگاپور میں حکومت اور ٹورازم اتھارٹیز نے ایک ضابطہ اخلاق متعارف کروایا ہے، جس کی پابندی ہر سیاح پر لازم ہے، خلاف ورزی کی صورت میں جرمانے اور بلیک لسٹ کرنے جیسے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ یہ تمام اقدامات اس وجہ سے مؤثر ہیں کہ وہاں حکومت، ادارے، اور عوام تینوں اپنی ذمے داریاں سمجھتے ہیں۔
جبکہ ہمارے یہاں پاکستان میں سیاحتی مقامات کی خوبصورتی تو عالمی معیار کی ہے، مگر بدقسمتی سے یہاں انفرااسٹرکچر اور سیفٹی سسٹمز کا فقدان ہے۔ بیشتر مقامات پر: کوئی وارننگ سسٹم موجود نہیں۔ ریسکیو ٹیمیں محدود وسائل رکھتی ہیں اور وقت پر نہیں پہنچ پاتیں، سیاحتی ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے نہ مناسب عملہ ہوتا ہے، نہ کوئی مربوط حکمتِ عملی۔

سانحہ دریائے سوات کے بعد بھی جو غفلت سامنے آئی، وہ یہی دکھاتی ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ادارے مکمل تیاری کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ریسکیو ادارے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے پہنچے، اور ان کے پاس مناسب سامان بھی موجود نہ تھا۔ لوگوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو پانی میں بہتے دیکھا، مگر کچھ نہ کر سکے۔

خیبرپختونخوا حکومت نے ڈپٹی کمشنر سوات اور دیگر افسران کو معطل کر دیا، اور انکوائری کمیٹی بھی بنا دی گئی، مگر سوال یہ ہے کہ کیا صرف معطلی اور کمیٹی اس المیے کا حل ہیں؟ ہر واقعے کے بعد یہی چند اقدامات کیے جاتے ہیں، پھر سب کچھ بھلا دیا جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور ادارے اپنی ذمے داری بر وقت ادا کریں، نہ کہ کسی حادثے کا انتظار کرتے رہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اکثر اوقات جب مقامی انتظامیہ سیاحوں کو کسی خطرناک مقام کی طرف جانے سے روکتی ہے تو انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

دریاؤں میں، بغیر لائف جیکٹ کے کشتیوں کی سیر کی جاتی ہے، خراب موسم میں بلند مقامات پر چڑھائی کی جاتی ہے، اور پھر خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو جائے تو سب سسٹم کو کوستے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام خود بھی حفاظتی تدابیر کو سمجھیں اور اپنائیں، سیاحتی مقامات پر مقامی گائیڈز کی بات کو سنجیدہ لیا جائے، بچوں اور بزرگوں کو خاص طور پر دریا، جھیل اور پہاڑی مقامات پر احتیاط کا درس دیا جائے، خاندانوں کو چاہیے کہ دریا میں جاتے وقت ساتھ ٹیوب، لائف جیکٹس، رسی، اور ہنگامی فون نمبرز ضرور رکھیں۔

اگر کسی حادثے کے وقت کوئی شخص تیرنا جانتا ہو تو وہ دوسروں کی جان بھی بچا سکتا ہے۔ مگر ضروری ہے کہ خوف کی بجائے ہوش سے کام لیا جائے۔ اسی طرح ابتدائی طبی امداد اور ہنگامی صورتحال میں ردِ عمل کی تربیت بھی ہر شہری کے لیے لازم ہونی چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں قومی سطح پر بھی ایک مربوط سیاحت پالیسی ترتیب دینے کی فوری ضرورت ہے، جو درج ذیل نکات پر مشتمل ہو:

1: سیاحتی مقامات کی نقشہ بندی اور وہاں موجود خطرات کی فہرست سازی۔
2: وارننگ سسٹمز، بیریئرز اور لائف گارڈز کی تعیناتی۔
3: ریسکیو ٹیموں کی تربیت اور سامان کی فراہمی۔
4: سیاحوں کی رجسٹریشن اور ایمرجنسی رابطہ سسٹم۔
5: حفاظتی شعور اجاگر کرنے کے لیے میڈیا مہمات۔
6: مقامی کمیونٹی کو رضاکارانہ ریسکیو ٹیموں میں شامل کرنا۔

ترقی یافتہ قومیں حادثات سے سبق سیکھ کر اپنی اصلاح کرتی ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اس سانحہ سے سبق سیکھیں، سانحہ دریائے سوات نے ہمیں یہ یاد دہانی کرائی ہے کہ قدرتی حسن کے سائے میں خطرات بھی چھپے ہوتے ہیں، اور صرف نیچر سے محبت کے لیے بغیر کسی حفاظتی اقدامات کے نہیں بلکہ حفاظت اور ذمے داری بھی لازم ہے۔ یقیناً یہ اموات محض ایک حادثہ نہیں، بلکہ قومی سطح کی ناکامی ہے۔ اس میں حکومت، ضلعی انتظامیہ، ریسکیو ادارے، اور ہم سب شامل ہیں۔

ہم دعا گو ہیں کہ اس سانحے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی اللّٰہ تعالیٰ مغفرت فرمائے، ان کے لواحقین کو صبر جمیل اور اس پہ اجر عظیم عطا فرمائے، اور خدا تعالیٰ ہمارے ملک کو اس طرح کے واقعات سے محفوظ رکھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیشہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔
آمین۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے