آج کچھ دوستوں کے ساتھ نشت ہوئی جن میں سب کا تعارف ہوا سب نے اپنی تین تین خوبیاں بتائیں۔ بہت اچھی ڈسکشن رہی ، میں نے بھی کچھ پوائنٹس نوٹ کیے ۔ زندگی چالیس کراس کر چکی ہے اور میری زندگی میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئیں۔۔۔ اب میرے نزدیک زندگی کیا ہے اور پختہ عمر تک پہنچنے تک ہم کیا سے کیا ہو جاتے ہیں ،کون ساتھ دیتا ہے کون چھوڑ جاتا ہے اور ہم زندگی کی حقیقت تک کیسے پہنچتے ہیں۔
پختگی عمر کے ساتھ نہیں، سوچ کے ساتھ آتی ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جب انسان اندر سے مضبوط ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جب وہ دوسروں کی بھیڑ سے نکل کر خود کو پہچاننے لگتا ہے۔ جب تنہائی خوفناک نہیں لگتی بلکہ سکون دینے لگتی ہے۔
پختگی تب آتی ہے جب ہمیں یہ سمجھ آ جاتی ہے کہ دولت بُری نہیں، بلکہ تنگدستی زندگی کو مشکل بناتی ہے۔ ہم یہ مان لیتے ہیں کہ اپنی کامیابی کے ہم خود ذمہ دار ہیں،اگر ہم ناکام ہوئے تو خود کی کوتاہی، اگر کامیاب ہوئے تو اپنے عزم اور محنت کی وجہ سے۔
وقت کے ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھ آ جاتا ہے کہ خاموشی میں بہت طاقت ہے۔ جب دنیا آپ کے بارے میں کم جانتی ہے، تو آپ کی زندگی زیادہ پُرسکون رہتی ہے۔ پھر دوسروں کی رائے آپ کے لیے فیصلہ کن نہیں رہتی۔ آپ جانتے ہیں کہ آپ کون ہیں، اور یہی کافی ہوتا ہے۔
"زندگی نے ایک بات سکھائی ہے کہ کسی سے جذباتی وابستگی حد سے بڑھ جائے تو وہ انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کرنے لگتی ہے، جیسے دیمک لکڑی کو چاٹتی ہے۔ تعلق بناؤ، محبت کرو، خلوص رکھو مگر ایک حد ضرور قائم رکھو۔ حدیں تعلقات کو ختم نہیں کرتیں، بلکہ انہیں بچاتی ہیں۔ جو رشتہ حد سے آزاد ہو جائے، وہ یا تو ہمیں اپنی ذات بھلا دیتا ہے یا پھر ہمیں اس کا بوجھ بن جاتا ہے۔ اس لیے سیکھو کہ دل دینا ہے، مگر خود کو کھونا نہیں۔”
زندگی کے ایک مقام پر پہنچ کر انسان فضول اور وقتی تعلقات سے تھک جاتا ہے۔ اب وہ اپنی توانائی دوسروں کو خوش کرنے کے بجائے خود کو بہتر بنانے میں لگاتا ہے۔ وہ جان لیتا ہے کہ ہر ناکامی ایک سبق ہے، نہ کہ شرمندگی۔
یہ بھی ایک بڑی سمجھداری ہوتی ہے جب آپ ان چیزوں کے لیے پریشان ہونا چھوڑ دیتے ہیں جو آپ کے اختیار میں نہیں۔ جب آپ جان لیتے ہیں کہ صرف نوکری کرتے رہنا مالی آزادی کی ضمانت نہیں دیتا۔ اصل آزادی اس وقت آتی ہے جب آپ اپنی قابلیت اور قدر پہچان کر اس کے مطابق کمانا سیکھتے ہیں۔
تعلیمی ڈگریاں اور اچھے نمبر اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن اصل کامیابی انسان کے رویے، تعلقات اور عملی صلاحیتوں سے ناپی جاتی ہے۔ زندگی صرف کلاس روم میں نہیں، تجربے اور سیکھنے کے عمل میں پروان چڑھتی ہے۔
جب ہفتے کے آخر میں پارٹیاں کرنے کے بجائے آپ خود کو بہتر بنانے پر وقت صرف کرنے لگیں، تب زندگی کی خوبصورتی آپ پر آشکار ہوتی ہے۔ آپ جان جاتے ہیں کہ اصل سکون کہاں ہے۔
اور وقت کا سب سے تلخ مگر قیمتی سبق یہ ہوتا ہے کہ آخر میں صرف چند لوگ ہی آپ کے ساتھ رہیں گے۔ آپ کا خاندان اور کچھ مخلص دوست۔ لیکن وقت کے کسی موڑ پر وہ بھی ساتھ چھوڑ سکتے ہیں… اور تب آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جو ہر حال میں، ہر لمحہ، ہر قدم پر ساتھ ہے… وہ صرف اللہ ہے۔