موجودہ صدی کی تیز رفتار زندگی، بڑھتے ہوئے سماجی دباؤ، اور ذہنی تناؤ نے ڈپریشن کو ایک عالمی وبا کی صورت دے دی ہے۔ یہ مرض محض ذہنی پریشانی تک محدود ہوتا ہے بلکہ جسمانی صحت پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ڈپریشن کا شکار خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں دوگنا زیادہ پائی گئی ہے، اور اس رجحان کو صرف سماجی عوامل سے منسلک کرنا ناکافی ہوگا۔ اگرچہ معاشرتی توقعات، ذمہ داریوں کا بوجھ، اور جذباتی حساسیت اس میں کردار ادا کرتے ہیں، مگر حالیہ سائنسی تحقیق نے اس مسئلے کو ایک بالکل نئے زاویے سے دیکھنے کی بنیاد فراہم کی ہے۔
ماہرینِ نفسیات اور جینیاتی سائنس دانوں نے اس مسئلے پر گہرائی سے تحقیق کی ہے، جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین میں جینیاتی طور پر ڈپریشن کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ محض اندازہ یا مشاہدہ ہے یہ سائنسی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے کہ خواتین میں کچھ مخصوص جینز ایسے پائے گئے ہیں جو ڈپریشن سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ یہ دریافت اس امر کی وضاحت کرتی ہے کہ محض ذہنی دباؤ یا ماحولیاتی اثرات ہوتے ہے بلکہ اندرونی، یعنی جینیاتی ساخت بھی اس مرض کے پھیلاؤ میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ اس سے قبل یہ سمجھا جاتا تھا کہ خواتین صرف جذباتی نوعیت کی بنا پر زیادہ متاثر ہوتی ہیں، لیکن اب اس سادہ تشریح کو مزید پیچیدہ عوامل نے آ گھیرا ہے۔
جرنل نیچر کمیونیکیشن میں شائع ہونے والی ایک بین الاقوامی تحقیق نے اس مسئلے کو سائنسی بنیادوں پر جانچنے کی کوشش کی۔ آسٹریلیا کے QIMR Berghofer میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی قیادت میں کی گئی اس تحقیق میں دنیا کے مختلف ممالک سے اعداد و شمار حاصل کیے گئے۔ تحقیق کے دوران خواتین اور مردوں دونوں کے ڈی این اے کا جائزہ لیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کن جینیاتی عوامل کی بنا پر ڈپریشن کا خطرہ بڑھتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر، خواتین میں ایسے 16 جینیاتی ورژنز پائے گئے جو اس بیماری سے منسلک ہیں، جبکہ مردوں میں صرف 8 ورژنز کی شناخت ہو سکی۔
اس تحقیق سے یہ واضح ہوا کہ خواتین میں مخصوص جینیاتی خصوصیات نہ صرف ڈپریشن کے امکانات بڑھاتی ہیں یہ اس مرض کی شدت اور دورانیہ پر بھی اثر ڈالتی ہیں۔ اس دریافت نے اس عمومی تاثر کو مضبوط بنیاد فراہم کی کہ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں ڈپریشن کا سامنا زیادہ شدت سے ہوتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ اگرچہ مرد اور خواتین دونوں جینیاتی طور پر اس مرض سے متاثر ہو سکتے ہیں، مگر خواتین میں موجود مخصوص جینیاتی ورژنز اس بیماری کو مزید پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نفسیاتی اور حیاتیاتی سائنس ایک دوسرے سے جُڑتی ہیں۔
تحقیق میں شامل سائنسدانوں نے تسلیم کیا کہ ڈپریشن کی علامات ہر فرد میں مختلف ہو سکتی ہیں، اور اس میں صنفی فرق بھی نمایاں ہے۔ مردوں میں اکثر غصہ، چڑچڑاہٹ یا خود کو الگ تھلگ کرنے کا رجحان دیکھنے میں آتا ہے، جبکہ خواتین میں اداسی، بے بسی اور ندامت جیسی کیفیات غالب ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خواتین زیادہ تر اپنی حالت سے آگاہی رکھتی ہیں اور مدد لینے کے لیے ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات سے رجوع کرتی ہیں، جب کہ مرد عمومی طور پر خاموشی اختیار کرتے ہیں، جس سے اعداد و شمار میں بھی فرق پیدا ہوتا ہے۔ یوں یہ کہنا کہ خواتین کو زیادہ ڈپریشن ہوتا ہے، جزوی طور پر ان کے اظہار کے طریقوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔
عالمی سطح پر ہونے والی اس تحقیق میں آسٹریلیا، نیدرلینڈز، امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔ ان پانچ بڑے مطالعات میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد خواتین اور چونسٹھ ہزار سے زیادہ مرد ایسے تھے جنہیں ڈپریشن کا سامنا تھا۔ ساتھ ہی، ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد افراد ایسے بھی شامل تھے جو ذہنی صحت کے حوالے سے مستحکم تھے۔ اس طرح کا وسیع ڈیٹا بیس تحقیق کی صحت کو مضبوط بناتا ہے اور نتائج کو مزید قابلِ اعتماد بناتا ہے۔ اس میں جینیاتی، عمرانی، اور جسمانی عوامل کا باہم تجزیہ کیا گیا تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ مسئلہ نہ صرف ذہن کا ہوتا ہے بلکہ یہ ایک ہمہ جہتی طبی چیلنج ہے۔
ایک اور اہم پہلو جو اس تحقیق سے سامنے آیا، وہ خواتین میں ڈپریشن اور میٹابولک تبدیلیوں کے درمیان تعلق ہے۔ سائنسدانوں نے واضح کیا کہ خواتین کے جسم میں موجود مخصوص جینیاتی ساخت ڈپریشن کو بڑھاوا دے سکتی ہے، خاص طور پر جب جسمانی وزن، ہارمونی تبدیلیوں یا دیگر میٹابولک عوامل میں اتار چڑھاؤ آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو حیض، حمل، زچگی یا حیض بند ہونے جیسے ادوار میں ڈپریشن کا زیادہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔ یہ تمام حیاتیاتی عوامل اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ڈپریشن ایک محض نفسیاتی ہوتا ہے یہ جسمانی سطح پر بھی محسوس ہونے والا مرض ہے۔
اگرچہ تحقیق کی افادیت غیر معمولی ہے، مگر ماہرین نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ان کے نتائج مکمل نہیں ہے بلکہ یہ تو جزوی ہیں، کیونکہ سماجی، معاشرتی اور ثقافتی اثرات کو مکمل طور پر کسی بھی صورت الگ نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر مردوں میں علاج کی طرف رجحان کم ہونے کے سبب ان کے کیسز رپورٹ نہیں ہو پاتے، جو کہ اعداد و شمار میں واضح فرق کا باعث بنتا ہے۔ مزید برآں، خواتین میں جسمانی اظہار، جذباتی شدت، اور ذہنی تناؤ کے خلاف مزاحمت کے انداز بھی مختلف ہیں، جس کی بدولت وہ زیادہ آسانی سے ذہنی امراض کی زد میں آ سکتی ہیں۔
ڈپریشن کی پیچیدگی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے محض اداسی یا تناؤ سے تعبیر نہ کیا جائے۔ یہ ایک ایسا عارضہ ہے جو انسان کے خیالات، جذبات، طرزِ عمل، اور یہاں تک کہ جسمانی افعال کو متاثر کرتا ہے۔ خواتین میں اس کا اثر عموماً روزمرہ زندگی، پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور ذاتی تعلقات پر گہرائی سے پڑتا ہے۔ وہ اکثر اپنے اندر کی بے چینی کو چھپا کر مسکرانے کی کوشش کرتی ہیں، جس سے مرض اندر ہی اندر جڑیں پکڑتا رہتا ہے۔ یہی اندرونی کشمکش اکثر شدید ڈپریشن کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
ماہرینِ نفسیات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خواتین کے لیے علیحدہ ذہنی صحت پروگرامز تشکیل دیے جائیں، جن میں ان کی مخصوص نفسیاتی اور جسمانی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے۔ محض ادویات یا مشاورت کافی نہیں ہوتا ایسے حالت میں ایک ہمہ گیر حکمتِ عملی کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں خاندانی، سماجی اور معاشی پہلوؤں کو شامل کیا جائے۔ ڈپریشن کا بروقت علاج کرنے سے نہ صرف فرد کے لیے بہتر ہے بلکہ یہ پورے خاندان اور معاشرے کے لیے سکون کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خواتین کی صحت پر توجہ دینا دراصل ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھنا ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن میں اس بات کو مانتی ہو کہ ڈپریشن ایک انتہائی سنجیدہ مرض ہے جسے معمولی یا وقتی پریشانی سمجھ کر نظر انداز کرنا نہایت خطرناک ہو سکتا ہے۔ اگرچہ مرد اور خواتین دونوں اس سے متاثر ہوتے ہیں، مگر خواتین کے لیے یہ بیماری زیادہ تیزی سے ابھرتی ہے، زیادہ شدید ہوتی ہے، اور طویل عرصے تک رہ سکتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ نا کہ صرف بیرونی حالات ہے یہ اندرونی، یعنی جینیاتی اور حیاتیاتی عوامل بھی ہیں۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ اس مرض کو سنجیدگی سے لیا جائے، اور خاص طور پر خواتین کی ذہنی صحت کو اولین ترجیح دی جائے۔