بیسویں صدی کے اہم ہندوستانی مصنف :منشی پریم چند

پریم چند ایک سچے ہندوستانی تھے۔ ایک عام ہندوستانی کی طرح ان کی خواہشات اور ضروریات محدود تھیں۔ وہ ایک عام دیہاتی کی طرح سادہ کپڑے پہنتے تھے۔ ہندوستانی لباس میں انھیں پسند تھا۔دھوتی کرتا انکا سب سے پسندیدہ لباس تھا۔ اس وقت گاندھی ٹوپی کرتا صافہ ،شیروانی،پاجامہ وغیرہ قومی لباس تھے۔

انھوں نے انگریزی کپڑے پہنے ضرور لیکن بیرونی لباس انھیں پسند نہیں تھا۔ اس میں انھیں انگریزیت کی بو آتی تھی ۔وہ عموماًفرش پر بیٹھ کر ڈیسک پر لکھتے ، کرسی تو بہت بعد میں بیوی کے کہنے پر لائے۔ گائے ان کے پاس ہمیشہ رہی۔ایک عام انسان ہونے کی وجہ سے وہ اتنے عوام پسند ادیب ہوسکے۔

پریم چند نے تقریباً تین سو کہانیاں، پندرہ ناول اور تین ناٹک لکھے۔ دس کتابوں کے ترجمے کئے اور ہزاروں صفحات میں دیگر تصنیفات یاد گار چھوڑیں۔ وہ فن اور خیال دونوں ہی پہلؤوں سے اول درجے کے ادیب تسلیم کئے گئے۔ان میں کبیر اور تلسی کا مشترکہ تہذیبی شعور تھا۔انھوں نے اپنے ادب کے ذریعہ ہر قسم کی تباہی بربادی اور غلامی کے خلاف آواز اٹھائی اور انسانیت پر مبنی سماج کا تصور پیش کیا۔ اس کے لئے انھیں ٹالسٹائے، گورکی، سوامی دیا نند ، وویکا نند اور مہاتما گاندھی جیسے عظیم انسانوں سے ترغیب ملی ۔ اپنی انسانیت پسندی کی وجہ سے وہ ہندوستان کے ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستانی سماج اور اس کی انسانیت کے مصنف ہیں۔ ان کی پیدائش کے سو سال پورے ہونے کے موقع پر(۱۹۸۰ء) میں ہندوستان کے علاوہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی انھیں عزت کے ساتھ یاد کیا گیا اور خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

اتر پردیش کے مشہور شہر بنارس سے اعظم گڑھ جانے والی سڑک پر تقریباً چار میل دور واقع لمہی گاؤں میں ۳۱؍ جولائی ۱۸۸۰ء کو اردو ہندی کے مشہور ادیب پریم چند کی پیدائش ہوئی ۔ والد کا نام منشی عجائب لال شریواستو اور والدہ کا نام آنندی تھا۔ والد نے بیٹے کا نام دھنپت رائے رکھا اور تاؤ نے نواب رائے۔ یہی دھنپت رائے آگے چل کر پریم چند کے نام سے ہندوستان کے مشہور ادیب بنے ۔ ماں کے وہ بڑے لاڈلے تھے کیونکہ تین بیٹیوں کے بعد ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ بچپن میں وہ شرارتی اور کھلنڈرے تھے۔

آٹھ برس کی عمر میں نزدیک کے لال پور گاؤں کے ایک مولوی صاحب کے یہاں اردو فارسی درس سے ان کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ اسی درمیان۱۸۸۸ ء میں انکی والدہ آنندی کا انتقال ہو گیا۔ والد نے دو برس بعد دوسری شادی کر لی ۔ْ انھیں دنوں ان کا تبادلہ گورکھپور ہو گیا۔ پریم چند نے گورکھپور کی راوت پاٹھ شالہ میں انگریزی زبان کی تعلیم شروع کی ا ور مڈل کا امتحان پاس کیا۔ ۱۸۹۶ء میں انھوں نے مشن اسکول کے آٹھویں درجہ میں داخلہ لیا۔ وہ زمانہ ان کے لئے تنگی کا تھا جسے انھوں نے اپنے مضمون ’’جیون سار‘‘ میں لکھا ہے ۔ اسی درمیان ان کے والد کا بھی انتقال ہو جانے سے ان کا ایک سال خراب ہو گیا۔

۱۸۹۹ء میں انھوں نے انٹرنس کا امتحان دوئم درجہ میں پاس کیا مگر بہت کوششوں کے باوجود بنارس ہندو کالج میں داخلہ نہ لے سکے کیونکہ حساب میں کمزوری اور بیماری نے پریشانی پیدا کر دی تھی۔ تب کوئنس کالج بنارس کے پرنسپل کی سفارش پر ۲ جولائی ۱۹۰۰ء کو انھیں بہرائچ کے سرکاری اسکول میں ۲۰ روپے ماہانہ پر ٹیچر کی جگہ مل گئی۔ ۱۹۰۴ء میں انھوں نے گورنمنٹ سینٹرل ٹریننگ کالج الہٰ باد سے جونیر انگلش ٹیچرسر ٹیفکیٹ کا امتحان دیا اور اول درجے سے امتحان پاس کیا۔ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد وہ کچھ عرصہ الہ ٰباد میں رہے ۔۱۹۰۵ء میں بطور سرکاری ٹیچر ان کا تبادلہ کانپور ہو گیا۔

جون ۱۹۰۹ ء میں وہ سب ڈپٹی انسپکٹرمدارس ہو کر کانپور سے مہوبہ ضلع ہمیر پور گئے۔ جولائی ۱۹۱۴ء میں بستی پہونچے پھر وہاں سے اگست ۱۹۱۶ء میں گورکھپور پہنچے۔ یہاں وہ نارمل ٹریننگ اسکول میں ان نوجوانوں کو پڑھاتے تھے جو بعد میں ٹیچر بنتے تھے۔ وہ ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ بھی تھے لہٰذا اسکول کے احاطہ میں رہنے کے لئے انھیں ایک کمرہ مل گیا۔ کمرہ کے سامنے نیم کا درخت تھا جس کے نیچے بیٹھ کر وہ لکھتے پڑھتے تھے۔ اب اس جگہ پتھر کا ایک چبوترہ بنوا دیا گیا ہے اور کمرہ پر ’’پریم چند سدن ‘‘ نام کی تختی بھی لگا دی گئی ہے۔قریب ہی ایک خوبصورت پارک ان کے نام سے بن گیا ہے۔

گورکھپور میں ہی انھیں ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ انکی پہلی شائع شدہ تخلیق’’اولیور کرام ویل‘‘ اردو میں ہے جو بنارس کے ہفتہ وار اخبار’’آوازۂ خلق‘‘ میں مئی ۱۹۰۳ء سے قسط وار شائع ہوئی۔ اور ان کا پہلا ناول ’’اسرار معابد‘‘ بھی اسی ہفتہ وار اردو اخبار میں اکتوبر ۱۹۰۳ء سے سلسلہ وار چھپنا شروع ہوا جس میں انھوں نے مندر کے پجاریوں کی بد کرداری، دھوکہ بازی اور جھوٹ بولنے کی قلعی کھول کر رکھ دی۔

پپریم چند درجہ نہم میں تھے جب ان کے والد نے اپنے سسر کے کہنے پر بستی ضلع کے ایک گاؤں کے معمولی زمیندار کی بد صورت اور جاہل لڑکی سے ان کی شادی کر دی، و ہ کئی برس تک اس کے ساتھ نباہ کرتے رہے مگر ایک دن ساس سے جھگڑا ہونے پر وہ ضد کر کے اپنے میکے چلی گئی اور پھر پریم چند اسے بلانے گئے اور نہ وہ خود آئی۔ تقریباً ۲۶ برس کی عمر میں انھوں نے مارچ ۱۹۰۶ء میں دیوی پرساد کی بال ودھوا بیٹی شیو رانی سے دوسری شادی کر لی۔

پریم چند نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اردو زبان سے ہی کیا لیکن ان میں ہندی کے پڑھنے والوں تک پہنچنے کی خواہش شروع ہی سے رہی۔ شائد اسی وجہ سے انھوں نے اردو ناول’’ہم خرما و ہم ثواب‘‘ کا ہندی ترجمہ ’’پریما‘‘ کے عنوان سے ۱۹۰۷ء میں شائع کرایا۔ آریہ سماج کے بانی سوامی دیا نند اور سوامی وویکا نند کے خیالات سے متاثر ہو کر بھی انھوں نے ناولوں اور افسانوں کی تخلیق کی ۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ ۱۹۰۸ء میں کانپور سے شائع ہوا۔

انگریزی غلامی کے دور میں حب الوطنی پر لکھے گئے افسانوں کا یہ پہلا مجموعہ تھا۔ باغیانہ ادب لکھنے کی بنا پر انگریزکلکٹر نے کتاب کی باقی ماندہ سات سو جلدیں منگا کر بطور سر زنش جلوا دیں۔ انگریز کلکٹر کی طرف سے سنسر شپ عائد کئے جانے پر پریم چند نے نام بدل کر اپنی تخلیقات جاری رکھیں۔ ان کا ایک مشہور افسانہ’’رانی سارندھا‘‘ تو بغیر مصنف کے نام سے ہی ’’زمانہ ‘‘ کے اگست ستمبر ۱۹۱۵ء کے شمارے میں شائع ہوا۔ تب ان کے خاص دوست ’’زمانہ‘‘ کے ایڈیٹر منشی دیا نرائن نگم نے انھیں پریم چند نام رکھنے کی تجویز پیش کی۔

ان کا پہلا افسانہ ’’بڑے گھر کی بیٹی‘‘ پریم چند کے نام سے ’’زمانہ‘‘ کے دسمبر ۱۹۱۰ء کے شمارے میں چھپا۔ اردو میں پریم چند کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’پریم پچیسی‘‘(حصہ اول) ۱۹۱۵ء میں شائع ہوا۔ دوسرا حصہ ۱۹۱۸ء میں چھپا۔اس میں پریم چند کی مشہور کہانیاں مثلاً ’’نمک کا دداروغہ‘‘ بے غرض محسن‘‘ خون سفید‘‘ اور’’ صرف ایک آواز‘‘ شامل ہیں۔ یہ کہانیاں گاؤں کی سیدھی سادی زندگی سے تعلق رکھتی ہیںٍ۔

۱۹۲۰ء میں ان کی کہانیوں کا نیا مجموعہ’’پریم بتیسی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کی بعض کہانیوں نے بڑی شہرت حاصل کی،مثلاً ’’بوڑھی کاکی‘‘ اور ’’حج اکبر‘‘ پھر ان کے چالیس افسانوں کا مجموعہ ’’پریم چالیسی‘‘۱۹۳۰ء میں لاہور سے شائع ہوا۔اس میں ان کی مشہور کہانیاں ’’قزاقی‘‘ اور ’’ پوس کی رات‘‘ بھی شامل ہیں۔

اردو میں تقریباًبارہ تیرہ برس تک لکھنے کے بعد انھوں نے ہندی میں خاص طور پر لکھنے کا فیصلہ کیا اور ان کا پہلا ہندی افسانہ’’ سوت‘‘ ہندی کے ماہانہ رسالے’’سرسوتی‘‘ کے دسمبر ۱۹۱۰ء کے شمارے میں چھپا۔ اس کے بعد ہندی اخبارات و رسائل میں ان کے افسانوں کا مطالبہ روز بروز بڑھنے لگا۔ ان کا پہلا ہندی افسانو ی مجموعہ سات افسانوں پر مشتمل’’سپت سروج‘‘ گورکھپور سے جون ۱۹۱۷ء میں شائع ہوا۔’’ سیوا سدن‘‘ ان کاپہلا کامیاب ناول ہے جس کی تخلیق بنیادی طورسے اردوزبان میں ’’بازارِ حسن‘‘ کے عنوان سے ہوئی تھی،اس میں پریم چند نے طوائف بننے کے اسباب، حالات اور اس کے معاشرتی رد عمل کوکامیابی اور فن کاری کے ساتھ پیش کیا اور معاشرے کو ان کے حل کے لئے متوجہ کیا۔

۱۹۱۶ء میں پریم چند نے انٹر اور ۱۹۱۹ ء میں بی اے سکنڈ ڈیویژن میں پاس کیا۔ بی اے میں انکے مضامین تھے انگریزی ادب، فارسی اور تاریخ۔ اپنی علالت اور روز مرہ کی پریشانیوں کے باعث وہ ایم اے نہ کر سکے، انھیں دنوں لاہور کے مشہور اردو ادیب امتیاز علی تاج سے ان کا تعارف ہوا جو دوستی میں بدل گیا۔ اور آخری عمر تک قائم رہا۔ تاج اردو رسالہ ’’کہکشاں‘‘ کے مدیر اور دارالاشاعت انجمن کے مالک بھی تھے۔ تاج نے ان کے کئی افسانے اور کہانیاں کہکشاں میں شائع کیں اور ’’ زمانہ‘‘ سے زیادہ معاوضہ دیا۔ ان کے اردو ناول’’بازار حسن‘‘ گوشۂ عافیت‘‘ چوگانِ ہستی‘‘ وغیر ہ بھی دارا لاشاعت لاہور سے شائع ہوئے۔

پریم چند کی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ دوسری بیوی سے کئی اولادیں ہوئیں جن میں ایک بیٹی اور دو بیٹے ہی زندہ بچے۔ شیو رانی دیوی نے بھی کافی کہانیاں لکھیں اور جنگ آزادی میں جیل گئیں۔ مہاتما گاندھی کے تئیں پریم چند کی عقیدت تا عمر قائم رہی۔ سرکاری نوکری سے استعفیٰ دینے کے بعد پریم چند کو تلاش معاش کے لئے مختلف جگہوں پر بھٹکنا پڑا۔ مختلف طرح کے کام کرنے پڑے۔

آمدنی کا ایک طے شدہ اور مستقل ذریعہ پیدا کرنے کے لئے انھوں نے ایک پرنٹنگ پریس بھی کھولا لیکن کاروباری سوجھ بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے پریس میں نقصان ہونے لگا۔تبھی لکھنؤ کے دلارے لال بھارگو نے اپنے دارالاشاعت’’گنگا پستک مالا دفتر‘‘ میں بطور ادبی مشیر رکھ لیا۔ لکھنؤ جاتے ہی پریم چند نے اپنی مشہورکہانی ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘لکھی جو لکھنؤ سے شائع ہونے والے ہندی کے مشہور رسالے’’مادھوری‘‘ کے اکتوبر ۱۹۲۴ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔ اس میں تاریخی واقعات کے ذریعہ عوام کے دل میں حب وطن کا جذبہ اور غیر ملکی غلامی سے نجات پانے کی خواہش پیدا کی۔

انھوں نے اپنی زندگی اور ادب دونوں میں ہندؤوں اور مسلمانوں کو قریب لانے کے لئے کام کیا۔ اس کے لئے اردو زبان میں ہندؤوں کی زندگی سے متعلق اور ہندی میں مسلمانوں کی زندگی اور تاریخ سے متعلق افسانے، ڈرامے اور ناول لکھ کر ایک دوسرے کو قریب لانے کی کوشش کی۔۱۹۲۴ء میں شائع شدہ ان کا ڈرامہ ’’کربلا‘‘ بہت مشہور ہوا جس میں انھوں نے حضرت امام حسین کی قربانی کی لا فانی کہانی پیش کی۔انھوں نے ہندی کی سنسکرت سے وابستگی اور اردو پر فارسی کے غلبے کی مخالفت کرتے ہوئے قومی ثقافت کے فروغ کے لئے ہندوستانی زبان کی حمایت کی ۔

پریم چند کا قول تھا کہ دونوں مذاہب اور ان کے ماننے والوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔لیکن مٹھی بھر تعلیم یافتہ لوگوں نے اپنے عہدوں اور ممبریوں کے لئے ساری لڑائی کھڑی کی ہوئی ہے۔ غریبی، نا خواندگی ،بیماری اور بیکاری ہندو مسلم کا فرق نہیں کرتی۔ انھوں نے دھرم پر چلنے والے ایک اندھے بھکاری کو اپنے کامیاب ناول ’’چوگان ہستی‘‘ کا ہیرو بنایا۔ بعد میں اس کا ہندی ترجمہ ہوا۔

پریم چند دلارے لال بھارگو کے اشاعتی ادارے میں بھی بہت دنوں تک کام نہ کر سکے،انھوں نے ۳۰ اگست ۱۹۲۵ء کو نوکری چھوڑ دی اور دوسرے دن ہی مع خاندان کے بنارس نکل پڑے۔ وہاں کچھ وقت سرسوتی کی دیکھ بھال اور لکھنے لکھانے میں گذارالیکن نو ل کشور پریس لکھنؤ کے منتظم وشنو نرائن بھارگو کے مدعو کرنے پر ان کے رسالے’’مادھوری‘‘ کے نائب مدیر کا عہدہ سنبھال لیا۔ لیکن ۱۹۳۱ء میں وشنو نرائن کا انتقال ہو جانے پر پریم چند کے مخالفین نے انھیں اسی سال اکتوبر میں نوکری سے ہٹوا دیا۔۱۹۲۸ ء اور ۱۹۲۹ء میں پریم چند نے اپنی کہانیوں کے تین مجموعے ’’خاک پروانہ‘‘ خواب وخیال‘‘ اور فردوس خیال ‘‘ شائع کرائے۔

۱۹۲۸ء میں ان کے ادب کو پسند کرنے والوں نے ہندوستان کی دیگر زبانوں اور بیرونی زبانوں کے پڑھنے والوں تک ان کے ادب کو پہونچانے کا کام خاص طور پر شروع کیا۔ ادھر جاپان میں رہنے والے ہندوستانی کیشو رام سبر وال نے ان کی کہانیوں کا جاپانی زبان میں ترجمہ کرنے کا کام شروع کیا اور جاپان کے مشہور رسالے ’’کیزو‘‘میں ۱۹۲۸ء میں شائع کیا۔اسی سال جرمنی کی برلن یونیورسٹی کے ہندی پروفیسر تارا چند رائے نے بھی ان کی کہانیوں اور ناولوں کا جرمنی میں ترجمہ کرنے کے لئے رابطہ قائم کیا۔

پریم چند کی بیوی شیو رانی بھی اپنے خاوند کی طرح کانگریس پارٹی کی رکن تھیں اور جنگ آزادی کی مہم میں عملی طور سے حصہ لیتی تھیں۔ لکھنؤ میں جب ’مہیلاآشرم‘‘ کی بنیاد پڑی تو وہ اس کی مجلس عاملہ کی رکن منتخب ہوئیں۔ ان کا سوراجیہ کے لئے عملی جوش کافی دنوں بر قرار رہا۔ پریم چند شروع سے ہی مطالعے کے عادی تھے وہ انگریزی ، اردو، فارسی اور ہندی زبانیں جانتے تھے، گؤ دان ان کا شاہکار ناول ہے۔

فلم بنانے والوں نے انھیں کہانی ، مکالمے لکھنے کے لئے مدعو کیا جسے انھوں نے قبول کر لیا۔اور مئی ۱۹۳۴ء میں بمبئی پہونچ گئے۔ ان کی پہلی کہانی پر ’’مل کا مزدور‘‘ فلم بنی جو لاہور میں دکھائی گئی کیونکہ بمبئی میں اسے دکھانے کی اجازت نہ ملی۔ یہ فلم کمپنی مالی نقصانات کی وجہ سے چند ماہ بعد بند ہو گئی تو پریم چند اپریل ۱۹۳۵ء میں بمبئی چھوڑ کر بنارس روانہ ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد انہ لکھنے کے کام میں چاہے دولت نہ ہو لیکن سکون ضرور ملتا ہے۔

۱۹ مارچ۱۹۳۵ء کے ایک خط میں حسام الدین غوری کو لکھتے ہیں۔’’ سنیما میں کسی اصلاح کی توقع کرنا بیکار ہے۔ یہ صنعت بھی اسی طرح سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہے جیسے شراب فروشی۔ انھیں اس سے بحث نہیں کہ پبلک کے مذاق پر کیا اثر پڑے گا۔ انھیں تو اپنے پیسے سے مطلب۔ سنیما کے ذریعہ مغرب کی ساری بے ہودگیاں ہمارے معاشرے میں میں داخل کی جا رہی ہیں اور ہم بے بس ہیں۔۔ میں نے خوب سوچ لیا ہے۔ اس دائرے سے نکل جانا ہی مناسب ہے‘‘.

پریم چند کو زندگی کی مشکلات سے جنگ کرتے وقت اپنی جسمانی بیماریوں سے بھی جنگ کرنا پڑی۔ ۸؍اکتوبر ۱۹۳۶ء کو صبح تقریباً دس بجے اس عظیم مصنف کی روح فانی جسم چھوڑ کر پرواز کر گئی۔

منشی پریم چند کے مطالعے اور حالات کے جائزے سے یہ بات پورے طور پر ثابت ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز اردو سے کیا ۔اردو کے ادیب اور افسانہ نگار کی حیثیت سے شہرت پائی۔ عالمی ادب میں وہ اردو کے ادیب کی حیثیت سے متعارف ہیں اور اردو کے اس قد آور ادیب کو اگر ہندی میں میں بھی ایک بلند مقام حاصل ہے تو یہ ایک ایسا خراج تحسین ہے جو ہندی کے کسی ساہتیہ کار کوحاصل نہیں ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے