جسٹس منیر ، قرارداد مقاصد اور اقلیتیں

[pullquote]شکریہ وجاہت مسعود صاحب . حصہ اول پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے [/pullquote]

شکریہ وجاہت مسعود صاحب

شکریہ وجاہت مسعود صاحب – حصہ دوم

جسٹس منیر وجاہت مسعود صاحب سمیت لبرلز کا حوالہ ہے جی ہاں وہی جسٹس منیر جس نے پاکستان میں پہلی دفعہ جمہوریت پر فاتحہ پڑھی تھی، اور اس خدمت کے صلے میں ایوب خان کے وزیر قانون قرار پائے تھے۔ افسوس کہ جمہور اور جمہوریت کے بارے میں بات کرتے اور دلیل دیتے ہوئے وجاہت صاحب اور ان کے قبیلے کے پاس جمہوریت کے اولین قاتل کے سوا کوئی معتبر حوالہ نہیں ہے۔ جسٹس منیر کے مکروہ کردار اور تاریخ اور خود قائداعظم کی شخصیت کو مسخ کرنے کے حوالے سے مزید جاننا ہو تو سلینہ کریم کی کتاب ”سیکولر جناح اینڈ پاکستان” کا مطالعہ کافی رہے گا۔ لبرلز تاریخ سمیت ہر چیز کو مسخ کرنے میں یدطولی رکھتے ہیں، جسٹس منیر نے یہ کارنامہ مگر قائداعظم کے باب میں انجام دیا اور اپنی کتاب ”جناح ٹو ضیا” میں ایک خود ساختہ تقریر قائداعظم سے منسوب کر ڈالی۔ جو بابائے قوم کے ساتھ یہ سنگین مذاق کر سکتے ہوں وہ اور کیا کیا نہ کریں گے۔ سلینہ کریم نے اپنی مذکورہ کتاب میں اس جھوٹ کا پردہ بھی چاک کر دیا ہے۔

انھی جسٹس منیر کی ایک دو نمبری پروفیسر خورشید احمد صاحب کی زبانی سنیے اور سر دھنیے

”جنرل ایوب خاں نے 1962ء کے دستور میں پاکستان کے نام کے ساتھ لگا ’اسلامی‘ کا لفظ نکالا اور قراردادِ مقاصد میں بھی ترمیم کرڈالی تھی، لیکن انھی کے نظام کے تحت وجود میں آنے والی اسمبلی نے ایوب صاحب اور ان کے وزیرقانون ریٹائرڈ جسٹس محمد منیر کی ساری تگ و دو کے باوجود، اسلام کو بحیثیت ’پاکستان آئیڈیالوجی‘ کتابِ قانون پر رقم کیا۔ اس کے حق میں خود ذوالفقار علی بھٹو نے زوردار تقریر کی۔ اس بحث کے دوران میں سب سے بُرا حال جسٹس منیر کا تھا، جنھوں نے پہلے مخالفت کی اور پھر کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں، اسمبلی یہ اضافہ کرلے۔ مگر ان کی بد دیانتی کا حال یہ رہا کہ خود یہ سب بھگتنے کے باوجود اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں وہی رٹ لگائی کہ ’پاکستان آئیڈیالوجی‘ کی اصطلاح جنرل ضیاء الحق کی اختراع تھی۔ علمی بددیانتی اور حقائق کو مسخ کرنا اس طبقے کا شیوہ ہے۔” (ترجمان القرآن – نصیحت اور انتباہ- اپریل 2016)

قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر اور قرارداد مقاصد پر تنقید کے تناظر میں وجاہت صاحب کا سارا زور اقلیتوں کو برابر کے شہری قرار دلوانے پر ہے اور ان کے خیال میں قرارداد مقاصد اس کی نفی کرتی ہے۔ اس حوالے سے بنیادی سوال یہ ہے کہ قرارداد مقاصد میں کہیں اقلیتوں کو دوسرے نمبر کا شہری قرار دیا گیا ہے یا ان کے حقوق کا انکار کیا گیا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرارداد مقاصد میں قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کے تتبع میں یہ کہا گیا ہے کہ

* اس امر کا قرارواقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں، اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے، عمل کرنے اور اپنی تقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔
* بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں مساوات، حیثیت و مواقع کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارخیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔
* اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔
اور قرارداد مقاصد کے مطابق ہی یہ سب کسی مذہبی پیشوا کے ذریعے سے نہیں ہونا بلکہ اس میں صاف لکھا ہے کہ ” مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔” صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ قرارداد مقاصد اقلیتوں کے حقوق اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی نفی نہیں کرتی بلکہ حقیقت مں اس کی ضامن ہے۔

ایک اور سوال البتہ ذہن میں آتا ہے کہ کیا قرارداد مقاصد اقلیتوں کو سماجی ترقی کرنے سے روکتی ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد جوگندر ناتھ منڈل سے وزارت قانون واپس نہیں لی گئی تھی، سر ظفراللہ خان کو وزارت خارجہ سے نہیں ہٹایا گیا، اس نے جسٹس کارنیلیس کو چیف جسٹس بننے سے نہیں روکا، سیسل چوہدری نے قرارداد مقاصد کے ہوتے ہوئے ملکی دفاع کا فریضہ انجام دیا اور ستارہ جرات حاصل کیا۔ قرارداد مقاصد آئین کا مستقل حصہ ضیا دور میں بنی مگر اس نے اس کے بعد بھی رانا بھگوان داس کو ترقی سے نہیں روکا اور وہ قائم مقام چیف جسٹس ہوئے، اس نے محمد یوسف، انیل دلپت اور دانش کنیریا کو کرکٹ میں کروڑوں لوگوں کے سامنے پاکستان کی نمائندگی کرنے پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔ آج قرارداد مقاصد کے ہوتے ہوئے اسمبلیوں میں اقلیتوں کی مخصوص نشستیں ہیں اور وہ وفاقی و صوبائی وزارتوں پر براجمان ہیں۔ قرارداد مقاصد کے ہوتے ہوئے ان کے بہترین تعلیمی ادارے اور ہسپتال یہاں تک کہ مشنری ادارے کام کر رہے ہیں، ایف سی کالج جیسے کئی اداروں کو قرارداد مقاصد کے ہوتے ہوئے اقلیتوں کو واپس کر دیا گیا۔ یہاں قرارداد مقاصد کے باوجود اے نیئر ، بنجمن سسٹرز اور شبنم نے اپنا نام بنایا، شبنم کو تو آج بھی فلم انڈسٹری کے سنہرے دور کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ قرارداد مقاصد نے جمشید نسروانجی کو کراچی کا ماسٹر پلان بنانے سے نہیں روکا، یہ آواری کو بڑی ہوٹل چین بنانے میں آڑے نہیں آئی، اس نے اردشیرکائوس جی کے نامور صحافی بننے میں روڑے نہیں اٹکائے۔ اس نے آغاخانیوں کے ہسپتالوں، کالجوں یونیورسٹیوں اور تجارتی ایمپائر کو مسمار نہیں کیا۔ اور حد تو یہ ہے کہ قراداد مقاصد نے سب سے مبغوض طبقے قادیانیوں کے بھی بطور شہری نمایاں عہدوں تک پہنچنے میں کوئی دیوار کھڑی نہیں کی۔ یہ بس چند حوالے ہیں ورنہ اس پر تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

ایک اور سوال ذہن میں آتا ہے کہ قرارداد مقاصد یا ریاست کی اسلامی شناخت کیا اقلیتوں کے لیے نقصان دہ ہے یا اس سے ان کے حقوق پر زد پڑتی ہے؟ اس پر کسی مسلمان یا قرارداد مقاصد کے خالقین میں سے کسی کے خیالات نقل کرنے کرنے کے بجائے آئیے متحدہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس جسٹس کارنیلیس سے رجوع کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ جسٹس کارنیلیس کا شمار پاکستان کے معتبر ترین چیف جسٹس میں ہوتا ہے، جب سیکولرز اور لبرلز کے روحانی مرشد جسٹس منیر نظریہ ضرورت گھڑ رہتے تھے، اسی بنچ میں ہوتے ہوئے جسٹس کارنیلیس نے اختلافی نوٹ لکھا اور اسے قانون کے منافی قرار دیا۔ ایوب دور میں بھی انھوں نے آمریت کے خلاف کئی فیصلے دیے۔ اس لیے آج بھی ان کا نام بڑے فخر کے ساتھ ایک بڑے اور اصول پسند قانون دان کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ میں نے خود اعتزاز احسن سمیت کئی قانون دانوں کا ان کا نام انتہائی احترام سے لیتے سنا ہے۔ انھی جسٹس کارنیلیس کے چیف جسٹس بننے کے بعد الطاف حسن قریشی صاحب نے انٹرویو کیا جو ان کی کتاب ” ملاقاتیں کیا کیا” میں شامل ہے۔ اس کا مطالعہ کر لیں تو سیکولر لابی کے پروپیگنڈے کے تاروپود بکھر جاتے ہیں۔

چند سوالات اور ان کے جواب ملاحظہ کیجیے

سوال – ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی کس طرح قائم کر سکتے ہیں؟
جسٹس کارنیلیس : ہمارے دل میں اسی قانون کا احترام پیدا ہو سکتا ہے، جو ہمارے احساسات کے مطابق ہو، اگر ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہھر ہمیں اس نظام قانون کو نافذ کرنا ہوگا جسے عامۃ الناس پسند کرتے ہیں اور نظام قانون اسلامی قانون ہے۔ اہل پاکستان اپنے دلوں میں اسلامی شریعت کے لیے بےپناہ محبت اور شدید پیاس رکھتے ہیں۔ اور یہ پیاس ہر لحظہ بڑھتی رہے گی۔ میرا یقین ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ سے اس ملک کی قانونی زندگی میں ایک خوشگوار انقلاب جنم لےگا۔
سوال – کیا اس عہد میں اسلامی قانون نافذ کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس کارنیلیس – کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ آج تو یہ کام اور بھی آسان ہے۔ عدالتیں موجود ہیں، اور ان کا نظام موجود ہے۔ لوگ قانونی ضابطوں کے عادی ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی قانون اس طرح مدون کیا جائے کہ اسے سمجھنا اور اس کے مطابق فیصلے کرنا آسان ہو جائے۔ قانون کے ماہرین اور اہل علم و فضل یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیں تو اسلامی فقہ کے ذخائر ، قاضیوں کے عدالتی فیصلوں اور قانون نظائر سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی قانون کو مربوط اور قابل فہم صورت میں جمع کیا جا سکتا ہے۔ اگر انگریزی قانون کی لائبریریاں آباد ہو سکتی ہیں تو آخر اسلامی قانون پر اس نوع کا تحقیقی کام کیوں نہیں ہو سکتا۔
سوال – ہماری عدالتوں میں سالہا سال سے انگریزی قانون رائج ہے، کیا اسلامی قانون رائج کرنے سے ایک ذہنی خلا نہیں پیدا ہو جائے گا؟
جسٹس کارنیلیس – کوئی خلا پیدا نہیں ہوگا۔ دراصل بات سمجھ لینے والی ہے کہ اسلامی قانون کسی دور میں بھی زندگی سے کٹا نہیں رہا، اس قانون کی ایک تاریخ اس کا ایک پس منظر، اس قانون کی طاقت سے بڑی بڑی سلطنتیں چلتی رہی ہیں اور ماضی قریب میں بھی یہ قانون عدالتوں میں رائج رہا ہے۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی قانون تسلسل سے تما کڑیاں اپنے اندر رکھتا ہے، اگر آپ اسلامی قانون کو جدید طرز پر مدون کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اس کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرنے میں کوئی ذہنی خلا پیدا نہیں ہوگا۔ جب اسلامی قانون کی کتابیں وکلا بھی پڑھیں گے اور جج صاحبان بھی تو پھر یہی قانون ہماری قانونی فضا میں رچ بس جائے گا۔
سوال – آپ نے فرمایا پاکستان میں اسلامی قانون نافذ ہونا چاہیے، اسلامی قانون کے نفاذ سے اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کو نقصان تو نہیں پہنچے گا؟
جسٹس کارنیلیس – میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اسلام اقلیتوں کے جان، مال اور حقوق کے تحفظ اور شخصیت کی نشو و نما کی ضمانت دیتا ہے۔
سوال – بنیادی حقوق کا تصور اسلامی مزاج سے کوئی مطابقت رکھتا ہے؟َ
جسٹس کارنیلیس – میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کا مزاج بنیادی حقوق کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ وہ احترام آدمیت کا سبق دیتا ہے۔ (ملاقاتیں کیا کیا – صفحہ 191- 195)

لیجیے قرارداد مقاصد تو ایک طرف رہی، اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والا سب سے نامور شخص یہاں اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کر رہا ہے اور اسے قوم کے احساسات کے مطابق بتا رہا ہے۔

اصل مسئلہ قرارداد مقاصد کا نہیں بلکہ پاکستانی ریاست کی دستوری اسلامی شناخت کا ہے، قرارداد مقاصد کی آر میں سیکولر لابی اس پر حملہ آور ہے اور اس کا المیہ یہ ہے کہ وہ لفظا بھی اس شناخت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیونکہ عملا تو آج تک پاکستان سیکولر لابی کے زیر تسلط رہا ہے اور وہ اس میں اسلام کے عملی نفاذ کے سوا سب کچھ کرتی رہی ہے۔ قرارداد مقاصد ہو یا آئین پاکستان ، اس میں بنیادی طور پر بات وہی کہی گئی ہے جو قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر کے حوالے سے سیکولر لابی کہتی ہے اور دونوں میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اقتدار و اختیار بذریعہ جمہور ہی استعمال کیا جائے گا مگر بس ایک قدغن رکھی گئی ہے کہ اس میں قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق ہو اور حلال و حرام کا خیال رکھا جائے اور یہ مسلمانوں کے بنیادی عقیدے کے مطابق ہے۔ اگر اس سے بھی انکار ہے تو دائرہ اسلام میں رہنا بس تکلف ہی رہ جاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قرارداد مقاصد اقلیتوں کی شخصی و مذہبی آزادی اور سماجی ترقی میں کوئی قدغن نہیں لگاتی، اس کی کوئی مثال لفظا و عملا پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس حوالے سے تمام اعتراضات بے اصل اور بےبنیاد ہیں۔

ایک بات جس کی اس تناظر میں بہت گردان کی جاتی ہے کہ کوئی غیرمسلم صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس پر قدغن قرارداد مقاصد نہیں بلکہ آئین پاکستان لگاتا ہے اور اسے کسی مولوی نے نہیں بلکہ سیکولر لابی کے محبوب اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا اور منظور کروایا تھا۔ تو بنیادی پر یہ اعتراض ایک سیکولر پر بنتا ہے ، مولوی یا قرارداد مقاصد پر نہیں۔ اسی سلسلے کی دوسری بات یہ ہے کہ خود جمہوری اصولوں کے مطابق ایک اقلیتی نمائندہ کیسے سربراہ ریاست بن سکتا ہے؟ دستوری طور پر پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، تو دستوری سوال ہے کہ اسلامی ریاست کی سربراہی کوئی غیرمسلم کیسے کرےگا؟ اگر دستوری طور پر یہ بحث ختم ہوگئی ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے، تو کیا یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایک ایسے شخص پر ایسی ذمہ داری ڈالی جائے جسے نہ اس کا ضمیر مانتا ہو اور نہ ہی اس کے اندر ایسا کرنے کی صلاحیت ہو؟

تو بنیادی طور پر آپ کا ہدف اسلامی شناخت ہے نہ کہ قرارداد مقاصد؟ ویسے مناسب ہوتا کہ یہ بات کرتے ہوئے وجاہت صاحب اور ان کا قبیلہ امریکہ و برطانیہ و مغرب سے کوئی دلیل بھی پیش کرتا، کیا وہاں کوئی مسلمان سربراہ ریاست بن سکتا ہے؟ سربراہ ریاست کیا بننا ، وہاں تو مسلمانوں کو نکالنے کی بات ہو رہی ہے اور امریکہ کے صدارتی امیدوار اسے بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ کیا نہیں کر رہے؟

جب سیکولر ریاست کے حوالے سے وجاہت صاحب اور ان کے قبیلے کی طرف سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ اسے فرد کے مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تو عملا اس کی مثال پیش کرنے سے وہ قاصر ہوتے ہیں۔ چلیے ہم فرانس اور مغرب کی بات نہیں کرتے، سوویت یونین کے زیرتسلط مسلم ریاستوں میں مسلم شناخت کے خاتمے کی بھی بات نہیں کرتے کہ وہ تو غیر مسلم تھے۔ مسلم معاشرے میں سیکولرازم کے حوالے سے فی زمانہ کمال اتاترک کو بطور آئیڈیل اور بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہے، اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں کا سیکولر طبقہ اس سے خاص قسم کا روحانی تعلق محسوس کرتا ہے۔ ریاست کو سیکولر بنانے کے ساتھ ہی مذہب اور فرد کے خاص شخصی نوعیت کے معاملات کا جو حشر انھوں نے کیا ، وہ کیا کسی سے مخفی ہے؟ ممکن ہے وجاہت صاحب اور ان کے قبیلے کو اس کی خبر نہ ہوئی ہو مگر دنیا تو جانتی ہے تو کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ کمال اتاترک کے ترکی کی طرح پاکستان میں بھی قرآن، اذان، حجاب، عربی رسم الخط سمیت ہر اسلامی شناخت پر پابندی لگا دی جائے۔ یہ سیکولرزم کا لازمی و منطقی نتیجہ ہے جو ترکی میں ظاہر ہوا، بنیاد اگر مذہب سے نفرت اور حقارت ہو تو اس کے مظاہر کو کیوں کر برداشت کیا جائے گا۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مذہب اور اہل مذہب کے معاملے میں جو نفرت و حقارت پاکستان کے اس گنے چنے محدود قبیلے میں پائی جاتی ہے، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ جیسے ان میں بھی ایک چھوٹا کمال اتاترک موجود ہے، بس غلبہ پانے کی دیر ہے کہ وہ یہاں بھی سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دے گا۔

اگر اس بابت جواب یہ ہے کہ یہ ریاستیں حقیقی سیکولرزم کی نمایندگی نہیں کر رہیں، حقیقی سیکولرزم کچھ اور ہے ۔ تو پھر آج کی اسلامی ریاستوں کی مثالیں دینا چھوڑ کر "حقیقی سیکولرزم” کے مقابلے میں "حقیقی اسلام” کو سامنے رکھیں۔

وجاہت صاحب نے اپنے تازہ آرٹیکلز میں مولانا عثمانی صاحب کے بارے میں اپنے بےبنیاد اعتراضات پر تو کوئی کلام نہیں کیا البتہ قائداعظم کی 11 اگست کی تقریر پر خوب زور صرف کیا ہے۔ ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کیا قائداعظم نے پوری زندگی میں ایک ہی تقریر کی تھی؟ ایک لحظے کو ہم مان لیتے ہیں کہ 11 اگست کو قائداعظم کی تقریر کی وہی تشریح ہے جو وجاہت صاحب کر رہے ہیں اور اس تقریر کے ذریعے قائداعظم نے تحریک پاکستان میں اپنے خیالات اور تقاریر سے رجوع کر لیا تھا مگر 11 اگست کے بعد کیا وہ خاموش رہے تھے یا کچھ بولا تھا؟ اگر بولا تھا تو وہ 11 اگست کا تسلسل تھا یا تحریک پاکستان میں ان کی تقاریر، خیالات اور وعدوں کا؟ اگر قائداعظم کی بالخصوص 1940 سے ان کی وفات تک کی تمام تقاریر اور خیالات کو سامنے رکھا جائے گا تو ان کی 11 اگست کی تقریر کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اصلا وہ برصغیر میں ہونے والے خون خرابے اور انتقال آبادی کے خطرے کے پیش نظر اقلیتوں کو ایک جواب تھا کہ آپ یہاں رہیں ، پاکستان میں آپ کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی اور ریاست کو آپ کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ بعینہ یہی بات قرار داد مقاصد میں بھی کہی گئی ہے مگر ذرا رکیے کیا یہ اصول صرف قائد اعظم نے بیان کیا یا اسلام اور تاریخ میں اس کے شواہد ملتے ہیں۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ ریاست مدینہ میں آنحضور ﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام یہودیوں کے ہاں نوکری کرتے اور ان سے قرض لیتے ہیں، کیا یہ اس بات کی شہادت نہیں کہ خود ریاست مدینہ میں اقلیتوں کو مذہبی و سماجی تحفظ حاصل تھا، اور جب قائداعظم کہتے تھے کہ ہم نے 13 سو سال قبل جمہوریت کا سبق پڑھ لیا تھا تو یقینا ان کے سامنے مسلمانوں کا یہ تعامل موجود تھا۔

ایک عجیب تضاد یہ ہے کہ وجاہت صاحب اور ان کا قبیلہ قائداعظم کے دستورساز اسمبلی سے خطاب کو تو اہمیت دیتا ہے مگر خود دستور ساز اسمبلی کو نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دستور سازی بلاشرکت غیرے قائداعظم کا اختیار تھا یا اسے دستور ساز اسمبلی نے کرنا تھا، اس سے بھی بنیادی بات یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے حرف آخر قائداعظم ہیں یا حضور سرورکائنات ﷺ ، اگرچہ ہمارے خیال میں خود قائداعظم قرآن و سنت اور نبی کریم ﷺ کو اپنا ہادی و رہنما مانتے تھے، جا بجا ان کی تقاریر میں اس کا حوالہ ملتا ہے۔ پھر جب قائداعظم نے خود کہا کہ نئے ملک کی دستوری حیثیت متعین کرنا میرا نہیں، بلکہ دستور ساز اسمبلی کا کام ہے تو دستور ساز اسمبلی نے وہی کیا اور ملک کی دستوری حیثیت متعین کر دی۔ اس میں قابل اعتراض بات کیا ہے؟ کیا یہ دستور ساز اسمبلی کا حق نہیں تھا؟ اور کیا یہ جمہوریت اور سیکولرزم کے عین مطابق نہیں کہ جمہور کی رائے کے مطابق دستور اور قانون سازی کی جائے؟

کیا کبھی قائداعظم کو زبردستی سیکولر بنانے والوں نے یہ سوچا کیا ہے کہ ان کی ساری بے معنی کوشش سے قائداعظم ایک بے اصول ، موقع پرست اور جھوٹے سیاستدان کے طور پر سامنے آتے ہیں اور ان کی شبیہ یہ بنتی ہے کہ انھوں نے تحریک پاکستان میں جھوٹے وعدے کیے اور اپنی سیاسی کامیابی کےلیے اسلام کو بطور نعرہ استعمال کیا اور مطلب نکلنے پر پتلی گلی سے نکل کر سیکولرزم پر ایمان لے آئے۔ یہ قائداعظم جیسی عظیم ہستی پر ایک بہتان عظیم کے سوا کیا ہے جنھوں نے اپنی کسی تقریر میں ایک دفعہ بھی سیکولر کا لفظ استعمال کیا نہ سیکولرزم کا ایک دفعہ حوالہ دیا؟ ہاں مگر جس طبقے کے جسٹس منیر فکری سرخیل اور حوالہ ہوں ، اس سے بہتان کیا ، کسی بھی چیز کی توقع کی جا سکتی ہے، جسٹس منیر نے تقریر گھڑ کر اسے قائداعظم سے منسوب کر دیا تو ان کے روحانی شاگرد جھوٹ اور پروپیگنڈے کے میدان میں کیا کیا کارنامے سرانجام نہیں دیں گے.

[pullquote]وجاہت مسعود صاحب کا کالم پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے .[/pullquote]

شبیر احمد عثمانی،،خواب اور وصیت کے درمیان

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے