کل تک ایم اے انگلش میں شیک سپیئر پڑھایا جاتا تھا آج کل پرائیویٹ سکولوں کے تعلیمی نصاب میں تیسری اور چوتھی جماعت کے نصاب میں اس سے ملتا جلتا ٹیکس پڑھایا جاتا ھے.
نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ بچہ ذھنی طور پر مفلوج ھوجاتا ھے…. بچوں کے چار سال سے لے کر دس سال کی عمر تک کچھ ہارمونز کی نشونما ہوتی ھے…. یہ وہ ھارمونز ھیں جو ایک انسان میں سوچنے کی اور خود سے کچھ نیا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ھیں… موجودہ پرائیویٹ سکولوں کا نصاب ان ہارمونز کو بری طرح متاثر کرتا ھے.
.
میں ایسے کئی دوستوں کو جانتا ھوں جو ھماری طرح کسی سرکاری سکول اور کالج میں پڑھ کر نہیں آئے بلکہ وہ باقاعدہ پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل ھیں… اپنے شعبے میں بلا کے ماهر بھی ھیں، مگر جب تحقیق اور پیدواری کام کرنے کی بات آتی ھے تو انہیں کچھ نہیں سوجتا. پھر وہ ھم جیسوں جن کی سکول میں سارا سارا دن ناک بہتی تھی سے دریافت کرتے رھتے ھیں…
بنیادی وجہ یہ ھے کہ بچپن میں ایک تو ظلم عظیم یہ کر دیا جاتا ھے کہ چار سال کے بچے کو داخل کروا دیا جاتا ھے، حالانکہ اس کی یہ عمر فطرت کو سمجھنے کی ھے، چیزوں کو پہچاننے کی ھے….
کہتے ھیں کہ اگر امریکہ میں آپ آج کسی بچے کو سکول میں داخل کروانے لے کر جاتے ھیں اور اس کی عمر سات سال کی حد تک پہنچنے میں ابھی ایک دن باقی ھے تو وہ معذرت کرتے ھیں اور کہتے ھیں کہ بچے کو کل لے کر آئیں، اب اس بات میں کتنی صداقت ھے یہ تو کوئی امریکہ میں رھنے والا ھی بتا سکتا ھے ھم تو جن جن سے ملے ھیں انہی کی زبانی بتا رھیں ھیں لیکن اگر ایسا واقعی ھے تو میں اس سے مکمل متفق ھوں.
یہاں تو حالت یہ ھے کہ سات سال کے بچے کے منہ پر سکول ٹیچر کو مونچھیں نظر آنا شروع ھوجاتی ھیں.
قصہ مختصر یہ کہ ٹرک کی بتی کے پیچھے لگنے کی ضرورت نہیں اور دوسروں کی دیکھا دیکھی آپ بھی ممکنہ حد تک پرائیویٹ سکولوں میں بچوں کو بھیجنے سے گریز کریں…. آپ کا بچہ کل کو کسی قابل بنتا ھے یا نہیں ان کی بلا سے انہوں نے جو نوٹ چھاپنے ھیں انہیں صرف اسی سے غرض ھے…
یہاں میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں جو میں فیس بک پر پڑھا
اسکول ميں چھٹی ہوئی، بچے اپنے ہینڈکیری طرز کے ڈبل ویلر اسکول بیگ سڑک پہ لیے گھروں کو روانہ ہوئےایسے میں میری نظر ایک خوبصورت سے لاغر اور معصوم سے بچے پہ پڑی۔
وہ کمزور اور نحیف بدن سات سالہ بچہ ہانپتے ہوئے اپنا "علمی تھیلا” بمشکل گھسیٹتے ہوئے لے جا رہا تھا۔ اچانک بیگ کا ایک ویل خراب ہونے پر وہ بچہ پریشان ہوگیا۔ پھر کچھ ہی دیر میں وہ پائوں کی مدد سے بستے کو دھکیلنے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔
ایک سرد آہ میرے رگ و پے میں سرایت کر گئی۔
بھلے وقتوں کے "جاہل لوگ”محض دو کتابوں کو سینے سے لگائے باادب طریقے سے مکتب کی راہ لیتے تو یہ سلیقہ علم سے ان کی محبت کا خوبصورت اظہار ہوا کرتا تھا۔
پھر کپڑے کے تھیلے بنے تو "بستا” بچوں کے گلے میں کسی پنڈولم کی مانند جھُولنے لگا۔ وقت کا پہیہ گھُومتا رہا۔ رفتہ رفتہ علم کا "بوجھ” کتابوں کی صورت میں بڑھنے لگا۔ اب اسکول بیگز کا سارا بوجھ بچوں کی پیٹھ پہ لاد دیا گیا۔
مطلب کتابیں سینے سے سفر کرتی ہوئی اب پُشت تک پہنچ گئیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ موجودہ دور کے نازک اندام بچے کتابوں کے اس بڑھتے ہوئے بوجھ کو اُٹھانے سے قاصر ہوتے گئے، نتیجتا” ہینڈ کیری کا سہارا لینا پڑا۔
اب کتابیں پائوں میں ٹھوکریں کھاتی ہوئی انسان کے پیچھے کسی جانور یا گدھا گاڑی کی مانند چلی آتی ہیں۔ حقیقی علم کی برکت اس قوم سے شاید اسی لیے اُٹھتی چلی جا رہی ہے۔
"ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں”
ہمارے آباء کتاب کو سینے سے لگا کر دنیا بھر میں سُرخرو تھے۔جب کہ ہم اپنی کتابوں سے روا رکھے سلوک کے طفیل اُنہی کی طرح زمانے کی ٹھوکریں کھا رہے ہيں ۔