گجر، مانسہرہ کا قدیم واسی

گجر پانچ ہزار سال کا ایک انتہایٰ قدیم اور سب سے بڑا خانہ بدوش قبیلہ،جسکی جڑیں مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں ملتی ہیں۔۔ایسی ہزاروں جگہیں موجود ہیں جن کے نام میں لفظ گجر سابقے یا لاحقے کی صورت میں موجود ہے۔

۔یہ نام جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء کے کچھ علاقوں پر گجروں کی حکمرانی کے دور میں رکھے گۓ۔۔۔پاکستان کے چاروں صوبوں میں ایسے مقامات بکثرت پاۓ جاتے ہیں،،،،مثلا پنجاب میں۔۔۔توخ گوجری،،گجرات،،گجرانوالہ،،کوٹلہ گجر،گجرپینڈ،گجرپور،،گجر ولی،،بیرا گجران،گجر کلے،،میاں گجر،چوہا گجر،،سندھ گوجرو،،گوجرا بلوچستان میں گوجار،،،گوجر۔۔۔گجر،گوجرو،،گجرزیٰ،،اسلام آباد ڈیرہ گجران وغیرہ

۔۔۔۔ افغانستان میں گجروں کو اجار کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔پاکستان کا نام پاکستان ایک گجر چوہدری رحمت علی نے تجویز کیا ۔۔ اردو کے مشہور شاعر ،ساحرلدھیانوی بھی گجر تھے۔۔۔حافظ سعید لشکر طیبہ والے بھی گجرہیں ۔۔۔اس کے علاوہ مشہورصوفی شاعرمیاں محمد بخش، ،پاکستان کے پانچویں صدر فضل الہی چوہدری بھی گجر تھے اور پاکستان کا سب سے بڑا قبیلہ بھی گجر ہی ہے۔۔۔۔۔

گجروں کی ریاست کا نام کشاں تھا۔۔۔۔محمود غزنوی نے گجروں کو شکست دی اور دس سو اٹھارہ ،اے ڈی۔۔۔انکی ریاست کا خاتمہ ہوگیا۔۔سماجی طور پر پسماندہ۔۔۔۔گجر سنسکرت زبان کا لفظ ہے جسکا مطلب دشمن کو قوت سے نکالنے والے۔۔۔۔دنیا میں قدیم ترین اقوام میں شامل اور افرادی لحاظ سے سب سے بڑی قوم۔ ہے۔۔۔پاکستان بشمول آزاد کشمیر گوجروں کا تناسب اکتالیس فیصد ہے

۔۔۔۔پاکستان،ھندوستان اور افغانستان میں آباد لفظ گوجر کا ماخذ گرجر ہے اور سنسکرت میں اسکے معانی ،بہادر اور جنگجو کے ہیں۔۔۔گوجر کہاں سے آۓ اس بارے میں مختلف واقعات ہیں تاریخ میں۔۔۔کچھ لوگ کہتے ہیں یہ آریانسل ہیں تو کچھ کا خیال ہے کہ یہ علاقہ گرجستان وسط ایشیاء سے آۓ۔۔وسط ایشیاء میں صوبہ گرجستان میں ایک گاؤں دس ہزار سال پرانا ہے۔۔یہ گاؤں دریاۓ ہلمند کے کنارے سیستان جانے والی سڑک پر قایٰم ہے۔۔یہاں کے باشندے گوجر کہلاتے تھے۔۔یہاں سے ان لوگوں نے ہزاروں سال قبل روس چین ،ہندوستان،افغانستان اور تبت ہجرت کرلی تھی

۔۔۔پنجاب میں گجرات اور گجرانوالہ ان ہی لوگوں نے آباد کیۓ۔۔۔۔بعض مورخین کے مطابق،گوجر اصلا کھشتری ہیں،جنکی مادری زبان سنسکرت تھی پھر یہی زبان گوجری ہویٰ اور انکا ابتدایٰ مذہب ویدک تھا۔۔۔۔راجستھان میں ایک گجر سلطنت کا ذکر ملتا ہے جسکا دارلحکومت بھنمال تھا۔۔۔پھر یہ لوگ جہاں آباد ہوۓ اسی نسبت سے علاقوں کے نام بھی منسوب ہوۓ۔۔۔۔۔پرتہار پرپہار ذات کے راجپوت دراصل گجر ہیں۔۔جو وقت کے ساتھ ساتھ خانہ بدوش چرواہے بن گۓ

۔۔۔۔۔ جنوبی ایشیاء میں گجر قوم کے تین ہزار سے زیادہ قبیلے ہیں۔۔۔کے۔پی۔کے کے علاقے میں گجر عموما اپنے نام سے پہلے یعنی سابقے کے طور پر سردار لگاتے ہیں ۔۔ گجروں کی اکثریت مسلمان ہے جبکہ باقی،ہندو اور سکھ ہیں۔۔۔

ماضی کے پکھلی سرکار اور آج کے مانسہرہ کی بھی سب سے قدیم قوم گجر ہی ہے۔۔۔گجر ہزارہ میں سب قوموں سے پہلے آۓ۔۔مسلمانوں کے آنے سے پہلے ہی یہاں آباد ہوچکے تھے۔۔۔مسلمانوں نے اس علاقے کو فتح کرکے انکو اپنی رعایا بنایا۔۔۔سواتیوں نے جلال بابا کی زیر قیادت جب مانسہرہ فتح کیا تو گجروں کو پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف بھگا دیا اور زرخیز زمینں اپنے قبضے میں لےلیں

۔۔۔۔جب سید احمد شہید نے سکھوں کے خلاف اپنی تحریک آزادی کے لیۓ ہزارہ کی زمین کا انتخاب کیا تو اس وقت گجر اپنے اوپر دیگر قبیلوں کے غلبے کی وجہ سے بے اختیار اور کمزور تھے لیکن اسکے باوجود انھوں نے سید کی اپنی استطاعت کے مطابق خدمت کی۔۔۔وہ نہ صرف مجاہدین کو راستے کی رہنمایٰ کرتے بلکہ انھیں دودھ اور مکھن بھی پیش کرتے اور انکے راستوں میں سے برف بھی صاف کرتے

۔۔۔انھوں نے اپنے آپکو ایک اچھا میزبان ثابت کیا۔۔۔۔۔۔اگرچہ ایک روایت یہ بھی ہیکہ یہ گجر ہی تھے جنھوں نے سکھوں کو ڈاڈر کے راستے بالاکوٹ میں سید احمد پر حملہ کرنے کے لیۓ مدد فراہم کی لیکن وہ اس روایت کی سختی سے تردید کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ ایسا کویٰ ثبوت نہیں جس سے گجروں کی غداری ثابت کی جاسکے اور ایک آدمی کی غلطی کو پوری قوم سے منسوب بھی نہیں کیا جاسکتا

۔۔۔۔سکھ دور حکومت میں گجر پہاڑوں کی چوٹیوں،وادیوں اورمیدانوں میں رہتے تھے۔۔لیکن برطانوی راج قایٰم ہونے کے بعد انکے حالات انتہایٰ ابتر ہوگۓ اور بہت سارے گجروں کو انکی زمینوں سے محروم کردیاگیا۔۔۔۔ ۔انھوں نے مقامی خانوں کا مزارہ بن کر رہنا شروع کردیا جن کے ظلم نے انھیں دوسرے درجے کی مخلوق بنادیا جن کے دباؤ کے تحت یہ دن رات انکی خدمت کرتے اور اس طرح گجر ایک کمزور اور دبی ہویٰ قوم بن کر رہ گۓ جن کی زندگی کا مصرف محض خانوں کی خدمت یا بیگار کرنا رہ گیا

۔۔۔۔انیس سو پچاس میں گجروں کی بےرنگ زندگی میں اسوقت تبدیلی کا آغاز ہوا جب عبدالقیوم خان کی زرعی اصلاحات سے انھیں زمینوں کے مالکانہ حقوق ملے مگر جبری مشقت بھٹو دور حکومت تک جاری رہا۔۔۔انیس سو ستر کے الیکشن میں پہلی بار ایک گجر امیدوار سردار عبدالرحمان نے حصہ لیا۔۔۔یہ بھٹو دور تھا جسنے انھیں سیاسی شعور بخشا۔۔انیس سو پچاسی میں مانسہرہ کے سیاسی منظرنامے پر پہلی بار گجر، سردار یوسف کی پی ایف پینتالیس سے جیت کی صورت میں نمودار ہوۓ۔۔۔اور یہیں سےگجروں کے عھد زوال کے خاتمے کی ابتداء اور سیاسی کامیابوں اور ضلع مانسہرہ کے سیاسی غلبے کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سردار یوسف نے جن کے والد کا نام سردار شاہ زمان ہے۔ اپنی سیاست کا آغاز انیس سو اناسی میں ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر کے الیکشن سے کیا۔۔انیس سو پچاسی اور نوے میں وہ صوبایٰ اسمبلی کی نشست سے کامیاب ہوۓ۔۔۔۔انیس سو نوے،،ترانوے اور چھیانوے میں وہ قومی اسمبلی کے نشست سے کامیاب ہوۓ۔۔پرویز مشرف دور میں وہ مانسہرہ کے ڈسٹرکٹ ناظم رہے جبکہ گریجویشن کی پابندی کے سبب قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ نہ لے سکے اور انکی جگہ انکے صاحبزادے سردار شاہجہان یوسف نے انتخاب میں حصہ لیا اور کامیاب قرار پاۓ۔۔۔۔۔۔دوہزار تیرہ کے انتخاب میں سردار یوسف ایک بار پھر قومی اسمبلی کے نشست کے لیۓ مانسہرہ کے حلقہ بیس سے کامیاب ہوۓ اور موجودہ حکومت میں وفاقی وزیر براۓ مذہبی امور ہیں۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے