یہ بجٹ تو ہماری کمر توڑ دے گا

The-Product-Rates-Of-Budget-2015-16-In-Pakistan89429698_201565155518

تحریر :شعیب نظامی

آئی بی سی اردو ،اسلام آباد

مسلم لیگ ن کا تیسرا بجٹ پیش ہوچکا، پہلے دو بجٹ میں عوام کو کوئی خاطر خواہ ریلیف نہیں ملا اور اس توقع تھی کہ تیسرے سال یہ روایت تبدیل ہوگی، ماہرین معاشیات کا کہنا بھی یہی تھا کہ پہلے دو سال میں معیشت کی اصلاح کرکے باقی تین سال میں عوام کو ریلیف دیں تاکہ 2018 میں جب الیکشن ہوں تو عوام، اپنی منتخب جماعتوں کی کارکردگی کا بہتر جائزہ لے سکیں۔ مجھے 2008 میں ویلیو ایڈشن ٹیکس کی ایک کانفرنس بھی یاد ہے جس کی ماہرین کی یہ رائے تکہ اگر وی اے ٹی میں ناکامی ہوئی ا ور اگر پارلے منٹ ویلیو ایڈیشن ٹیکس کی مخالفت کی تو ریفام جنرل سیلز ٹیکس لگا کر مقصد حاصل کرلیا جائے اور پارلے منٹ نے اس ریفارم جنرل سیلز ٹیکس کی حمایت اس لیے تھی کہ اس میں ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کے لیے ہر سال سیلز ٹیکس میں ایک فیصد کمی ہونا تھی اور سات سال میں یہ 17 فی صد سے کرکے 10 فی صد پر لایا جانا تھا، موجودہ حکومت دو سال میں 66 فی صد ٹیکس کی چھوٹ ختم کرچکی ہے اور اب وزیر اعظم، صدر، ججز، جرنیل اور بعض اعلی عہدیداروں کے لیے ٹیکس کی چھوٹ رہ گئی ہے جسے ختم کرنا ناممکن ہے۔ اب جب 66 فی صد ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئیں تو سیلز ٹیکس 17 فی صد سے کم کیوں نہیں کیا گیا، عوام سے 2009 میں سیلز ٹیکس کم کرنے کا جو وعدہ کیا گیا اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔ اس سال بجٹ تقریر میں وزیر خزانہ پھر یہ وعدہ گول کر گئے۔ حکومت غریب دوست بجٹ کا دعوے کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 102 ارب روپے رکھے گئے ہیں، جبکہ یہ رقم نیشنل انکم سپورٹ کے لیے ہے، جس میں وزیر اعظم کے اپنے اعلان کردہ یوتھ پروگرام، لیپ ٹاپ اسکیم بھی شامل ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے غریبوں کی دال روٹی بھی نہیں چلتی، غربت میں کمی کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں۔ 132 ارب روپے کی ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی ہیں 22 ارب روپے کا سپر ٹیکس جنگ کے اخراجات کے لیے لگایا ہے ۔ تقریبا ڈیڑھ سو ارب روپے کا نیا ٹیکس ملک میں مہنگائی نہیں تو اور کیا لائے گا، اس سال سبسڈی کے لیے 240 ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں جو آیندہ بجٹ میں 138 ارب روپے مختص کی جا رہی ہے۔ سو ارب روپے کی سبسڈی کم کرنے کا نقصان غریب عوام کو ہونا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی پیداواری لاگت دو روپے تک کم ہوئی اور اس کا فائدہ عوام کو پہنچنا چاہیے تھا لیکن نیپرا کو یہ کمی کرنے کے روک دیا گیا ہے ۔ جلی کی قیمت میں کمی سے عوام کو 100 ارب کا فائدہ ہونا تھا جو عوام کو منتقل نہیں کیا گیا۔ پٹرول او ڈیزل پر سیلز ٹیکس میں کوئی کمی نہیں کی گئی، ڈیزل پر بدستور سیلز ٹیکس 32 فی صد ہے یہ ٹرانسپورٹ مہنگی ہونے کا باعث ہے اور سامان کی ترسیلی لاگت کم نہیں ہونے دیتا۔ سستی بجلی سے کارخانے اور فیکٹریاں سستا سامان پیدا کرسکتی ہے۔ ایس ایم ای بینک کے لیے رواں مالی سال 50 کروڑ اور گزشتہ سال ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کی رقم فراہم کرنے کی منظوری پارلے منٹ نے دی لیکن کوئی رقم نہیں لگائی گئی اور حسب بنک کی بچانے کے لیے بنکاری اسلامی میں 5 ارب روپے کی بنک گارنٹی اور 15 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔ جسے پارلے منٹ سرمایہ کاری کے لیے منظور کرے اسے ایک ٹکہ بھی نہیں ملا اور اسی ایس ایم ای بینک سے پاکستان میں خوش حالی کا انقلاب آنا ہے، ایندہ چند ہفتوں میں ڈبے میں پیک دودھ، دہی پینرر اور دیگر اشیا کی قیتمیں سب کے سامنے آجائیں گی، یوں لگتا ہے کہ یہ بجٹ کسی سیاسی حکومت نے نہیں بلکہ ملک کی بیورو کریسی نے بنایا ہے، کیونکہ مہنگائی، کو کنٹرول کرنے، اصلاحات کرنے، ٹیکس چوروں کو پکڑنے اور معیشت کو دستاویز بنانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آتے، نان فائلر پر صفر اعشاریہ چھ فی صد ٹیکس سے اگر سب اچھا ہوجائے تو دنیا بھر میں ایسا ہی ہو۔ اسٹاک مارکیٹ میں اور مرکنٹائل ایکس چینج میں ٹیکس لگانے اور ٹیکس بڑھانے سے بھی صرف ان امیروں پر ٹیکس عائد ہوا تو قانونی طریقے سے کاروبار کرتے ہیں جو اربوں کا کاروبار غیر دستاویز ہوئے بغیر چل رہا ہے وہ چلتا رہے گا۔ اگر خیبر پختون خوا میں جنگ سے متاثرہ علاقوں کے لیے پیکج کا اعلان ہے تو فاٹا اور وزیرستان میں جنگ کے متاثرہ علاقوں کے لیے پیکج کیوں نہیں۔ آئی ڈی پیز اور ٹی ڈی پیز کے لیے اسی ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ بن رہا تو اس پر ان علاقوں کی عمائدین اور قبائل کی کتنی مشاورت ہے۔ تین سال سے یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے رمضان پیکج کی رقم تین ارب روپے ہی رکھی جاتی ہے اور اس میں اضافہ نہیں ہوتا۔ تاہم شکر ہے کہ حکومت نے بیت المال کے لیے رقم دو ارب روپے سے بڑھا کر چار ارب روپے کی ہے لیکن اس رقم کو بیس ارب روپے تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ میں پاکستان کے لیبر فورس سروے پر یہ تحریر ختم کر رہا ہوں جس کے مطابق ملک کے پڑھے لکھے 67 فیصد اور ان پڑھ 32 فیصد لوگ جن کی عمر 15 سے 35 سال کے درمیان ہے بے روزگار ہیں، یعنی المیہ یہ ہے کہ ملک کا خواندہ طبقہ کے لیے نوکریاں نہیں ہیں اور ان پڑھ بچارہے ریڑھی لگا کر یا چھوٹا کا کھوکھہ کھول کر دال دالیہ چلاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے