گلگت بلتستان کے مسائل اور حکمران

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام گوناگون مشکلات اور طرح طرح کے بے شمار مسائل کا شکار ہیں, جن سے نجات پانے کی آرزو اور تمنا ہر ایک عرصہ دراز سے اپنے دل میں لئے اپنی زندگی کے لمحات گزار رہا ہے، لیکن کرپٹ حکمرانوں کی غفلت اور بے توجھی کے سبب نہ صرف عوام کو درپیش انبوہ مشکلات و مسائل سے چھٹکارا نہیں مل رہا بلکہ آئے روز عوام نت نئے مسائل و مشکلات سے دوچار ہو رہے ہیں، جن کے بوجھ تلے دب کر لوگوں کی کمر ٹیڑھی ہوچکی ہے۔ وہ کونسا امکانی مسئلہ ہے جو اس وقت خطہ بے آئین کو درپیش نہیں۔ اب تو گلگت بلتستان کا ہر بچہ، جوان، پیر مرد اور عورت اپنے خطے میں موجود مشکلات اور مسائل سے ایسے مانوس ہوگئے ہیں جیسے مچھلی پانی سے ہوتی ہے۔ اقتدار کے کرسی نشینوں پر یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ خطے میں موجود متنوع مسائل اہمیت کے اعتبار سے یکساں اور برابر نہیں ہیں بلکہ کچھہ مسائل بنیادی اہمیت کے حامل ہیں اور کچھ کو فرعی حیثیت حاصل ہے۔ بعض مسائل کلی ہیں اور بعض جزئی۔ کچھ مسائل اہم ہیں اور کچھ مہم۔ گلگت بلتستان کا ہر خاص و عام اس حقیقت سے کامل طور پر واقف ہے کہ ہمارا ملک صالح و باصلاحیت افراد کے بجائے عیاش پرست و نااہل لوگ مسند اقتدار پر قابض ہونے کی وجہ سے ایک مقروض ملک ہے۔ ہمیں یہ بھی بخوبی معلوم ہے کہ گلگت بلتستان کو ترقیاتی فنڈز کے نام سے یا کسی دوسرے عنوان سے ملنے والی مختصر رقوم خائن، بے ایمان اور ناجائز طور پر کھانے والے افراد کے ہاتھوں تقسیم ہوکر ہم تک نہیں پہنچ پائے گی، جس کے نتیجے میں سرزمین بے آئین کے سارے مسائل کو حل کرنے کی نہ عوام توقع رکھتی ہے اور نہ ہی اس کے لئے حکومت حاضر ہے۔

بنا براین جس طرح ہمارے حکمران ذاتی اور اجتماعی مفادات کے ٹکراو کے وقت اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے سر توڑ کوشیش کرتے ہیں، کسی بھی صورت میں وہ اجتماعی مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنے کے لئے حاضر نہیں ہوتے، چونکہ ان کی نظر میں (نظریہ دین، عقل اور سیرت عقلاء کے برخلاف ذاتی مفادات اہم ہیں اور اجتماعی مفادات مہم۔ اس بے بنیاد منطق کی بنیاد پر وہ ہمیشہ ذاتی مفادات کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح گلگت بلتستان کے عوامی مسائل کے حل کے سلسلے میں ہمارے حکمران اپنی پبلسٹی اور دکھاوے کے لئے فرعی امور پر کام کرنے کے بجائے اپنی من مانی مرضی سے قومی رقوم کو نمائشی منصوبوں پر خرچ کرنے کے بجائے اہم مسائل کو مہم پر ترجیح دینے کی پالیسی اپنائیں۔ جب آپ بنیادی اور اہم مسائل کو ترجیح دے کر کام کریں گے تو معاشرے سے چھوٹے چھوٹے مسائل کا خود بخود خاتمہ ہوگا اور عوام کو بھی سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔ لوگ آپ سے راضی بھی رہیں گے اور گلگت بلتستان کے عوام آپ کو عزت کی نگاہ سے بھی دیکھیں گے۔ یہ بات مسلم ہے کہ ترقی کی چوٹی پر نظر آنے والے ممالک میں سب سے زیادہ کردار ان کے حکمرانوں کا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے حکمران جو بھی منصوبے بنائے جاتے ہیں، خواہ وہ ترقیاتی ہوں یا دیگر، ان میں اس بات کو ضرور مدنظر رکھا جاتا ہے کہ عوام کو اس کی کس حد تک ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کو مینیڈیٹ اس لئے ملا تھا کہ سابق حکومت عوام کے بنیادی مشکلات اور مسائل حل نہیں کرسکی، اب موجودہ حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ عوامی اہم اور مہم مسائل کے درمیان تشخیص دے کر اہم مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنی پوری توانائی سے مؤثر اور دور رس اقدامات کرے۔گلگت بلتستان کے عوام کو درپیش کچھ بنیادی و ضروری اور کثیرالاہمیت کے حامل مسائل بالترتیب یہ ہیں:

اول) روز بروز اشیاء خوردونوش گندم، چاول، آٹا، گھی، دال، سبزی ۔۔۔۔۔۔ کی بڑھتی ہوئی کمر شکن قیمت کو حد اعتدال پر لانے کی جانب حکمران وقت توجہ کریں۔ عوام کی حالت پر مہنگائی نے بہت اثر کیا، فاقوں تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ ہر چیز کی قیمت آسمان پر پہنچ گئی ہے، جس کی وجہ سے غریب لوگوں کا گزارا مشکل ہوگیا ہے۔

دوم) بجلی کی ناقابل برداشت لوڈشیڈنگ کو ختم کرکے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے بارے میں سوچیں۔

سوم) حسب ضرورت گندم کی ترسیل کا نہ ہونا بھی عوامی بنیادی مشکل ہے، چونکہ گلگت بلتستان کے عوام اسی گندم سے ہی اپنے اور اپنے بچوں کی غذا پوری کرتے ہیں۔ موجودہ عوامی نمائندوں کو چاہیے کہ اس مشکل کو ہمیشہ کے لئے برطرف کرنے کے بارے میں ٹھوس اقدامات کریں۔

چہارم) صحت کے مراکز میں لازمی مقدار میں سہولیات، ادویات، پڑھے لکھے ماہر تجربہ کار ڈاکٹروں کا فقدان ہے، جس کی جانب ہمارے حکمرانوں کو بھرپور توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

پنجم) صفائی و نظافت کے انتظام کا موجود نہ ہونا بھی گلگت بلتستان کے عوام کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے، بہت سارے امراض کا سبب گندگی اور بہداشت کی رعائت سے منہ موڑنا ہے، اس کی جانب بھی توجہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

ششم) جوانوں کی بے روزگاری کا تسلسل سے بڑھتا ہوا رجحان بھی گلگت بلتستان کے عوام کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ تمام شعبوں میں ملازمتیں دلانے یا کسی اچھی پوسٹ پر کام کرنے کے لئے جگہ دینے کا معیار رشوت، سفارش اور دوستی کا بن جانا بھی خطہ بے آیین کی بنیادی مشکلات میں سرفہرست ہے۔ قابلیت و صلاحیت کا معیار یکسر طور پر مدفون ہوکر ملاک رشوت قرار پا جانے سے گلگت بلتستان کے عوام بالخصوص جوان سخت پریشان ہیں، حکمران وقت ضرور اس جانب توجہ کریں۔

ہفتم) گلگت بلتستان کے شہروں اور دیہاتوں کی سڑکوں اور اہم گزرگاہوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، کہیں پر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں تو کہیں پر سڑکیں ابھی تک تارکول سے خالی ہیں اور کچھ جگہوں پر تو ٹھیکدار پیسے وصول کرکے غائب ہیں، سڑکوں کی تعمیر ناقص ہے، جو عوام کے لئے شدید تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، حکمران اس مشکل سے غفلت نہ کریں۔

ہشتم) تمام حکومتی اداروں میں کرپشن کی وبا وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہے، اس وبا کی روک تھام کے لئے حکمران جزا و سزا کے نظام کو مؤثر کرکے کرپشن کے ناسوروں کی بیخ کنی کرنے کی حکمت عملی وضع کریں۔

نہم) گلگت بلتستان کے عوام کی سب سے بڑی مشکل عوام کو حالیہ درپیش مسائل میں سب سے اہم مسئلہ تعلیمی اداروں میں موجود تربیتی و تعلیمی بدحالی ہے، تعلیم کسی بھی ملک، خطے اور علاقے کی ترقی امن و سلامتی اور خوشحالی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہے۔

تعلیم سعادت و کمال اور اجتماعی و انفرادی حقوق کے حصول کے لئے انسان کے اندر شوق پیدا کرتی ہے، تعلیم انسان کو معاشرے میں عضو فعال بن کر اجتماعی و معاشرتی فلاح و بہبودی کے لئے کام کرنے کا ارادہ پیدا کرتی ہے۔ تعلیم انسان کو اچھی اور بری حرکات و سکنات سے آشنا کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے اور معاشرے کے لئے مفید کام سرانجام دینے کی تشویق و ترغیب دلاتی ہے۔ تعلیم انسان کو بھلے اور برے افعال، افراد، صفات اور خصائص کی پہچان اور شناخت کے لئے معیار فراہم کرتی ہے۔ تعلیم انسان کو دوست و دشمن کی معرفت حاصل کرنے کے لئے لازم راہ کی نشاندہی کراتی ہے۔ تعلیم ایک بے مثال طاقت و لازوال دولت ہے۔ اس عظیم و عدیم النظیر لازوال دولت سے گلگت بلتستان کے فرزندوں کو کما حقہ استفادہ کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا، گلگت بلتستان کو تعلیمی میدان میں پیچھے رکھنے کی سازش ہر دور میں ہوتی رہی ہے اور ہے۔ اس لئے کہ حکومت اور حکومت کے کاسہ لیسوں کو یہ حقیقت بخوبی معلوم ہے کہ گلگت بلتستان کے بچے ذہانت کے کے اعتبار سے کسی سے کم نہیں، اعلٰی صلاحیت کے وہ مالک ہیں، محنتی ہیں، عشق اور محبت سے دل لگا کر پڑھنے والے ہیں۔

اگر گلگت بلتستان کے ذہین اور محنتی جوانوں اور بچوں کو تعلیمی میدان میں ترقی کرنے کے پورے مواقع دیئے جائیں گے تو بہت ہی مختصر مدت میں یہ تعلیمی مراحل طے کرکے آگے نکلیں گے، انصاف اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے تحریکیں چلائیں گے اور اپنی تعلیمی قوت و طاقت کے بل بوتے پر ہم سے اپنے جائز حقوق لیکر ہماری ذاتی مفادات کے حامل سیاسی جدوجہد کی راہ میں وہ کانٹے ثابت ہوجائیں گے، جس کے نتیجے میں آیندہ سیاست کے اثرورسوخ سے ملنے والے کثیر رزمبادلہ سے ہمیں محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس منفی سوچ نے مفت خور حکمرانوں اور ان کے ماتحت کام کرنے والوں کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا کہ ہر حالت میں گلگت بلتستان کے جوانوں اور بچوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے سے روک دیا جائے۔ اس نامعقول و ناجائز اقدام کے لئے کافی دقت اور غور و خوض کرنے کے بعد انہوں نے آسان راہ یہ اپنائی ہے کہ حکومت ان کو سرے سے ہی حصول تعلیم کی بنیادی ضروریات و لوازمات فراہم کرنے سے اجتناب کر رہی ہے۔ بس سکول برائے نام ہو اور اساتذہ بھی صرف نام کے ہوں، کام کے نہ ہوں۔ اس ناانصافی اور ظلم پر مبنی پالیسی کو انہوں نے گلگت بلتستان کے تمام شہروں علاقوں اور نالہ جات میں یکسر طور پر نافذ کر دیا گیا اور اس سے شہروں کی نسبت شہر سے دور دراز علاقوں اور نالوں میں زندگی بسر کرنے والے غریب لوگوں کے بچے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جن میں سر فہرست ضلع کھرمنگ کے کیندرک اور مہدی آباد کے علاقہ کتیشو کے بچے شامل ہیں۔شہروں میں تو لوگ حداقل اپنی مدد آپ کے تحت اپنے بچوں کو ٹیویشن سنٹروں میں پڑھا کر کسی حد سرکاری سکولوں کی ناقص پڑھائی کا جبران کرسکتے ہیں، لیکن شہروں سے دور علاقوں کے بچوں کو یہ سہولیت بھی میسر نہیں۔ ان کے لئے حصول تعلیم کی واحد جگہ سرکاری سکول ہے۔ شہروں سے دور علاقوں کے بے چارے باشندے جو محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں، جن کا واحد ذریعہ معاش مزدوری ہے، وہ اپنی دن بھر کی محنت مزدوری سے حاصل کی ہوئی تھوڑی سی رقم کا آدھا حصہ اپنے بچوں کی فیس اور لوازمات تعلیم میں خوشی خوشی خرچ کر دیتے ہیں، اس امید سے کہ ہمارے بچے کل کلاں اچھے انسان بنیں گے۔

ہمارے بچے تعلیم یافتہ ہونگے اور اپنے و اپنے ملک کی ترقی و ہیشرفت کے لئے کام کرکے خدمت خلق جیسے با فضیلت انسانی خصیصے سے سرشار ہو کر دنیا اور آخرت دونوں کی سعادت حاصل کریں گے۔ لیکن آٹھ نو سال بچوں کو اسکول میں پڑھانے کے باوجود جب کوئی مثبت نتیجہ دکھائی نہیں دیتا ہے تو ان غریب لوگوں کے چہرے پر مایوسی اور ناامیدی کے آثار واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ وہ بے چارے صرف اپنی قسمت اور تقدیر کو ہی کوستے رہتے ہیں۔ حکومت کے ناقص اور غیر عادلانہ نظام تعلیم کی وجہ سے شہروں سے دور علاقوں کے بچے بڑی مشکل سے ادھر ادھر کرکے میٹرک تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس کے بعد حکومت کے موجودہ بے جان نظام تعلیم سے نالاں ہوکر تھک کر وہ اپنی تعلیم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کرکے اپنے آباء و اجداد کی طرز زندگی کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں (کھیتی باڑی، مویشیوں کے پیچھے یا محنت مزدوری)۔

اس سے بھی ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ قوم کے بچے خصوصاً دیہات اور پسماندہ علاقوں کے بچے اپنے گھر بار، والدین، رشتہ دار سب کو خیر باد کرکے اپنی تعلیم کی تکمیل کے لئے مختلف شہروں کا رخ کرتے ہیں اور عرصہ دراز پردیس میں رات کو مزدوری کرکے دن کو بڑی محنت اور مشقت سے اپنی تعلیم جاری رکھ کر زندگی کے لمحات گزار دیتے ہیں۔ یوں عرصہ دراز کی سعی مسلسل کے بعد اعلٰی تعلیم کی ڈگری وہ خوشی سے حاصل کرتے ہیں، لیکن اس ڈگری کو لیکر جب وہ ایک اچھی پوسٹ اور ایک بہتر جاب کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کوئی ادارہ انہیں ایسا دکھائی نہیں دیتا، جو انہیں قابلیت اور میریٹ کی بنیاد پر قبول کرنے کے لئے تیار ہو۔ یوں وہ اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر رشوت جیسے گناہ کبیرہ کا شکار ہوجانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے اداروں میں رشوت کے بغیر میریٹ کی بنیاد پر کسی کو نوکری دینا ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام مسائل اور مشکلات کا سبب اصلی ہمارے نااہل حکمران ہیں، اور ان مشکلات سے نجات پانے کا واحد راستہ قوم کی بیداری ہے۔ بیداری سے مراد آگاہی، ہوشیاری، شعور اور بصیرت ہے۔ اگر قوم کے اندر شعور آجائے، اپنی خیر اور اپنا شر سمجھ میں آنا شروع ہوجائے، درست اور نادرست راہوں میں تشخیص دے سکیں، تو بلاشبہ درپیش مشکلات سے چھٹکارا پاسکیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے