کشمیر پر ابہام دور کرنے کی ضرورت

ہمارے معاشرے کا عمومی چلن یہ ہے کہ کسی کا انتقال ہو جائے تو عزیز رشتہ دار اور دوست احباب اس رحلت کے بعد آنے والی عید پر مبارک باد دینے کے بجائے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ اموات پر خاندان میں طے شدہ شادیاں ملتوی ہو جاتی ہیں یا اگر مجبوری ہو تو ان میں دھوم دھڑکے اور خوشی کے علانیہ اظہار کو ترک کرتے ہوئے بڑی سادگی کے ساتھ تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ گو کہ ہمارے حکمرانوں اور ان کے پروردہ بالادست طبقات اور عوام کے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں لیکن اس کے باوجود سیاسی شعبدہ بازی میں ان رویوں کے شعوری اظہار پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے جن کو عام لوگوں میں قبولیت حاصل ہو‘ یہ اداکاری سیاست میں بڑی مفید واقع ہوتی ہے، جس کی مثالیں ہماری سیاسی تاریخ میں جا بجا مل جاتی ہیں۔

اِس مرتبہ جب آزاد کشمیر میں انتخابات کی گرما گرمی تھی‘ لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب قابض فوج نے قتل و غارتگری کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ایسے میں کوئی ذی ہوش اس بات کے تقابل سے چشم پوشی نہیں کر سکتا تھا کہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں کامیابی کی خوشی ’جن کی حقیقت سے کوئی واقف ہے‘ اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا خون ناحق بہائے جانے کے دُکھ میں سے کون سا جذبہ زیادہ قابل توجہ اور قابل اظہار ہے۔ بہر حال وزیراعظم کے وزراء با تدبیر نے شاید انہیں یہی مشورہ دیا ہو کہ انتخابات میں خوشی کے شادیانے بجانے کے ملکی اور عالمی سطح پر زیادہ بہتر سیاسی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

وزیراعظم نے مظفر آباد میں اپنی تقریر میں فرمایا کہ وہ اس کامیابی پر اتنے خوش تھے کہ رات گزارنا مشکل تھا اور وہ چاہتے تھے کہ اُسی وقت مظفر آباد روانہ ہو جائیں۔ اگر الیکشن میں کامیابی کی خوشی کو دبا کر صرف مقبوضہ کشمیر کے دُکھ کو خود پر طاری کر لیا جاتا تو بھی الیکشن کے نتائج وہی رہتے ہاں یہ تاثر ضرور قائم ہوتا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام کا دل مقبوضہ کشمیر کے مظلوم باشندوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ لیکن یہاں ہماری حکومت کے مسائل اور طرح کے ہیں۔ مالیاتی اسکینڈلز کے الزام سے داغدار برسر اقتدار گروہ اور ان سے نظریاتی موافقت رکھنے والے دانشوروں نے جس طرح ترکی کے چھوٹے سے فوجی گروہ کی بیرونی اشاروں پر برپا کی جانے والی ناکام بغاوت کو اپنی فوج کی ’’اصلاح‘‘ اور اسے دھمکانے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی بالکل اسی طرح آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج کو پاکستان کے عام انتخابات پر چھائے شکوک و شبہات کے گہرے سائے ختم کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان انتخابی نتائج سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا رہا ہے کہ کرپشن کے ذریعے ملکی دولت باہر بھیجنے کے الزامات کی آزادانہ تحقیقات کی بھی اب کوئی ضرورت نہیں کیونکہ پورے پاکستان اور آزاد کشمیر کے لوگ موجوہ حکومت پر غیر متزلزل اعتماد رکھتے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ہمارے پیش نظر اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہماری قیادت اس چیلنج سے عہدہ برا ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اس حوالے سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ ہم طے شدہ پالیسی ہی سے محروم ہیں۔ ہمارا رویہ‘ ہمارا عمل، ہماری باتیں اور بیانات کسی واضح سمت اور مقصد سے عاری ہوتے ہیں۔ کہیں سے بھی ایسا نہیں لگتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر ہمارے لئے اولین اہمیت کا کوئی معاملہ ہو۔ بس اب سر پر آن پڑی ہے، تو کسی نہ کسی طرح یہ وقت گزارنا ہے۔

مجھے یہاں بھارت میں 2010ء میں پیش آنے والا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ غالباً دہلی میں ایک سیمینار ہوا تھا جس میں حریت رہنما سید علی گیلانی اور ممتاز بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے بھی شریک تھے۔ وہاں جو تقریریں ہوئیں انہیں بھارت کے خلاف بغاوت تصور کیا گیا اور یوں سید گیلانی‘ ارون دھتی رائے اور دیگر پانچ افراد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ اس مقدمے کے جواب میں ارون دھتی رائے کی ایک تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے جو اخبارات میں بھی شائع ہوئی تھی۔

مس رائے کا کہنا تھا۔ ’’اس مقدمے کی کوئی اہمیت نہیں۔ جس انداز سے بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کشمیر کا ذکر کیا کرتے تھے آج اُس انداز میں کشمیر پر بات کرنا بھارتی عوام کی اکثریت کو برانگیختہ کر دیتا ہے‘‘۔ ارون دھتی رائے نے اپنے بیان میں پنڈت نہرو کی تقریروں کے حوالے بھی درج کئے ہیں‘ مثال کے طور پر 7 اگست 1952ء میں بھارتی پارلیمنٹ میں نہرو کا کہنا تھا۔ ’’کشمیر ہمارے دل و دماغ میں جاگزیں ہے‘ اگر بدقسمتی سے کشمیر بھارت کا حصہ نہ رہا تو یہ بات ہمارے لئے شدید تکلیف‘ دُکھ اور اذیت کا باعث ہو گی۔ لیکن اگر کشمیری ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو ہم انہیں نہیں روکیں گے۔ ہم انہیں ان کی مرضی کے خلاف اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے ‘ گو کہ یہ ہمارے لئے کتنا ہی اذیت ناک کیوں نہ ہو‘ میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ صرف اور صرف کشمیر کے عوام ہی کر سکتے ہیں۔ ان کی علیحدگی کتنی ہی دُکھ دینے والی کیوں نہ ہو ہم اُن کی خواہشات کے راستے میں دیوار نہیں بنیں گے۔ ہم بندوق کی نوک پر اپنی خواہشات مسلط کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔‘‘

ان دلائل کے بعد مس رائے نے کہا کہ پنڈت نہرو کے ان بیانات کا تقاضا ہے کہ ان کے خلاف بھی بعداز مرگ بھارت سے بغاوت کی ایف آئی آر کاٹی جائے۔ یا پھر بھارتی حکومت پنڈت نہرو کے عہد سے غداری کی مرتکب ہو رہی ہے۔

ادھر ہمارے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھی یہی کہنا ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ بھارتی وزیر خارجہ نہیں‘ کشمیریوں نے کرنا ہے‘ جو بالکل درست بات ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ برہان وانی کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ اس طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آئین کی عملداری کو درست تسلیم کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ بھارتی آئین کو نہیں مانتے اُس آئین کے تحت بنی عدالت کو کیونکر مانیں گے۔ اگر برہان وانی کو بھارتی عدالت سزائے موت سُناتی اور افضل گورو کی طرح اسے بھی کسی جیل کے ویران صحن میں لاوارثوں کی طرح دفن کر دیا جاتا تو کیا انصاف کے تقاضے پورے ہو جاتے؟ جو موت برہان وانی کو نصیب ہوئی، ان حالات میں اِس سے باوقار موت اور کیا ہو گی۔

ہمیں اور ہمارے قائدین کو اس بات کا ادراک کرلینا چاہئے کہ جس جگہ کا نام آزاد کشمیر ہے وہ وہاں کے لوگوں نے بھارت سے لڑ کر آزاد کرایا تھا۔ جس جگہ کا نام مقبوضہ کشمیر ہے وہاں آزادی کی جنگ جاری ہے۔ اور اس پورے خطے میں آج تک بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے ایک قطرہ خون نہیں بہا، جتنا خون بہا سب بھارت سے نجات کے لئے بہا، ایسے میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے۔ کیا آج پاکستان کا کوئی ذمہ دار اس طرح کا بیان دینے کی جرأت کرے گا کہ ’’پاکستان خطے میں اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہے اور کشمیر کی تحریک آزادی کو صرف اسی قدر حمایت اور اعانت فراہم کرے گا جتنی 1971ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان میں بغاوت کو فراہم کی تھی۔‘‘

اپنی مبہم اور غیر واضح پالیسی ہی کے باعث ہم آج اس کمزور حالت کو پہنچ
چکے ہیں کہ درست بات کہنے کی بھی ہمت نہیں رکھتے ۔ ہمارے سامنے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کسی کو کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی سے خلط ملط کرنے کی اجازت نہ دیں۔ ہماری حکومت اور سارے سفارتخانوں کو پوری طرح سے متحرک ہو کر کشمیر کے معاملے پر تو جہ مرکوز کرنی چاہئے۔ ہماری پہلی کامیابی یہی ہو گی کہ ہم دنیا کو یہ باور کرا دیں کہ کشمیر کی جدوجہد دہشتگردی نہیں ہے۔

ہمیں ان لوگوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے جو ٹینکوں کو پتھر مارتے ہوئے جان دے دینے کو ایک رومانس کی طرح پیش کر کے جدوجہد کا راستہ کھوٹا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت اور اس کے حمایتیوں کی نیت تو یہ ہے کہ اگر کشمیر میں اُن کی شرائط پر امن نہیں آتا تو اسے دوسرا فلسطین بنا دیا جائے۔ جدوجہد آزادئ کشمیر کا انداز ایسا ہونا چاہئے جس کا نقصان بھارت کے لئے ناقابل برداشت ہو اور سفارتی میدان میں ہماری کارکردگی اتنی مؤثر ہو کہ بھارت کشمیر کے معاملے میں کسی فورم پر منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔

بشکریہ :روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے