مسلم ممالک کافوجی اتحاداورچندسوالات

دسمبر ٢٠١٥ میں سعودی عرب کی قیادت میں بننے والا ٣٤ مسلم و غیر مسلم ” سنی اکثریتی ” ممالک کا فوجی اتحاد جسے ” التحالف الإسلامي العسكري لمحاربة الإرهاب ” کا نام دیا گیا تھا جس میں‌شامل ممالک کی تعداد اب ٣٩ ہو چکی ہے ، دو سال پہلے بھی اپنے دائرہ کار و ڈھانچےکی وجہ سے زیر بحث رہ چکا ہے – چونکہ عرب میڈیا سرکاری حوالے سے صرف وہی خبریں سامنے لاتا ہے جن کے لیے انہیں کہا جاتا ہے لیکن ہمارے میڈیا نے بننے والے اس فوجی اتحاد کے متعلق خود سے بہت کچھ ” فرض ” کر کے عوام تک پہنچایا ، یہی وجہ ہے کہ سنی شیعہ تقسیم کی فالٹ لائن موجود ہونے کی وجہ سے ان کی خود ساختہ و غیر مستند معلومات کا ملغوبہ خوب بکا –

جب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود نے اتحاد کا اعلان کیا تو پاکستان کے میڈیا نے عوام کو یہ باور کرانے کی پوری کوشش کی تھی کہ ریاست پاکستان کو اس اتحاد میں شمولیت کی پیشگی اطلاعات سے بے خبر رکھا گیا تھا مگر اس کی تردید بعد میں اس وقت کے دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے یہ کہہ کر دی تھی کہ ” میڈیا پر آنے والی ایسی تمام خبریں بنیاد ہیں جن کے مطابق پاکستان کو اس اتحاد پر اعتماد میں نہیں لیا گیا اور یہ کہ پاکستان کو اس اتحاد کا سن کر حیرانگی ہوئی ، پاکستان اس اتحاد کا باقاعدہ رکن ہے اور پاکستان علاقائی و بین الاقوامی سطح پر انسداد دہشت گردی کے لیے کی جانے والی ہر قسم کی کوششوں کی مکمل حمایت کرتا ہے تاہم سعودی حکومت سے اتحاد میں پاکستان کے ممکنہ کردار کے بارے میں مزید تفصیلات طلب کی گئی ہیں ” – پاکستانی میڈیا نے سعودی عرب کے خلاف اس وقت منفی کمپین کیوں کی؟ یہ جاننے کی ضرورت ہے ؟؟؟

ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ اسلامی فوجی اتحاد کا اعلان سعودی عرب کی طرف سے یمنی باغیوں کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد کیا گیا تھا اور اس جنگ میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے کسی بھی طرح کی فوجی امداد بھیجنے سے مکمل انکار کر دیا تھا – فوج اور حکومت کے چاہنے کے باوجود اپوزیشن نے ایسا کیوں کیا ؟؟

گزرے سال ٢٠١٦ کے آخر میں سوشل میڈیا پر پاکستان آرمی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کے سعودی عرب جانے اور اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کرنے کی خبریں چلیں تو ایک بار پھر اس بحث نے میڈیا پر زور پکڑا ، بھانت بھانت کے تبصرے جو صرف ” میرا خیال ہے ” کے تناظر میں ہیں سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں ، بی بی سی ، آر ٹی نیوز سمیت پاکستانی میڈیا نے سابقہ آرمی چیف کے نئے عہدے کے متعلق جو خبریں اڑائی ہوئی ہیں ان کی بنیاد وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا مبہم سا وہ انٹرویو ہے جس میں انہوں نے اس حوالے سے ہونے والی گفتگو کے آخر میں واضح طور پر کہا تھا کہ وہ اس معاہدے کے حوالے سے زیادہ تفصیلات بتانے سے قاصر ہیں – سعودی عرب کی طرف سے کسی بھی قسم کی اتفصیلات جاری نہیں کی گئیں اور پاکستانی وزیر دفاع کا صرف ایک غیر واضح بیان ہے جس کے تناظر میں تنقید کی جا رہی ہے ، ایسا کیوں ہے ؟؟

ہمارے جرنیلوں کی تاریخ رہی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بیرونی ممالک میں نوکریاں کرتے رہے ہیں ، مگر بری فوج کے سابق سربراہ کا ایسے کسی فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کرنا جس کا دائرہ کار ابھی تک واضح نہیں شاید پہلی بار ہونے جا رہا ہے – ایسا کیوں ہونے جا رہا ہے ؟ کیا سابق سربراہ کبھی ایسے نوازے گئے ہیں ؟؟

جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف پر اس فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کرنے کے تناظر میں تنقید سے پہلے ہمیں اس وقت یعنی ٢٠١٤،١٥ یمن اور شام کے تناظر میں سعودی عرب میں موجود مقامات مقدسہ کی سکیورٹی صورتحال کو بھی مد نظر رکھنا چاہیئے ، اس کے علاوہ جدہ میں فوجی اتحاد کی پہلی سربراہی کانفرنس میں وزیر اعظم کے ساتھ اس وقت کے چیف اور ” رعد الشمال ” نامی اتحادی افواج کی مشقوں میں پاکستان آرمی کے دستوں کی شرکت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیئے –

رہی بات پارلیمنٹ سے مسترد ہونے والی قرارداد کی تو یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ سعودی عرب کی طرف سے یمن میں پاکستانی فوجی دستے بھیجنے کی درخواست کے متعلق تھی نہ کہ بین الاقوامی تناظر میں دہشت گردی کے خلاف بننے والے اسلامی اتحاد میں شمولیت کے خلاف –

اسلامی فوجی اتحاد کے متعلق مختلف پہلوں کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے ، مثلا” جن میں سے کچھ یہ ہو سکتے ہیں

٣٩ ممالک کے فوجی اتحاد کا بنیادی ڈھانچہ

غیر مسلم اکثریتی ممالک کی شرکت

ایسے ممالک کی شرکت جو خود اپنی حفاظتی ضروریات پورا نہیں کر پا رہے

شیعہ مسلم اکثریتی ممالک کی عدم شمولیت

فوجی دستوں کا حصول اور انکا استعمال

آپریشنل ہیڈ کواٹرز اور کمانڈ سینٹرز کا قیام

انٹیلی جنس کا نظام

اسٹرٹیجک نقل و حرکت

دفاعی بجٹ

غیر عربی ریٹائرڈ جنرل کی ممکنہ سربراہی

میں درجہ بالا پہلوئوں سے ہٹ کر ای یو آئی ایس ایس کی ٢٠١٦ کی ایک رپورٹ کے تناظر میں اس فوجی اتحاد پر بات کرنا چاہوں گا

رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد مشترکہ فوج بنانے کی پانچ کوششیں کی گئی ہیں جس کے تحت درج ذیل آرگنائزیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا

Arab League146s Joint Defence Pact

The Middle EastCommand

The Middle East Defence Organisation

The Baghdad Pact

Gulf Cooperation Council

مگر ان میں سے کوئی بھی آرگنائزیشن علاقائی پالیسی میں تبدیلی کی وجہ سے اپنے ہی وضع کردہ قواعد و ضوابط پر پورا نہ اتر سکی اور عملی طور پر مفلوج رہی ، کیا یہ اتحاد بھی اسی طرح کی ایک کوشش ہے جو آسمان پر صرف ایک pie ثابت ہو گا ؟؟

عرب بہار ( شام و لیبیا میں بغاوت جو پہلے دہشت گردی میں بدلی اور اب مسلکی جنگ بن کر مسلمانوں کو کھوکھلا کر چکی ہے ) آنے کے بعد سعودی عرب بذات خود اس طرح کا فوجی اتحاد بنانے کی دو بار کوشش کر چکا ہے جس میں ایک ٢٠١٣ میں نیٹو کمانڈ کی ساخت کی GCC military forces جو ایک لاکھ فوجیوں پر مشتمل ہونی تھی اور دوسرا ٢٠١٤ میں Common police structure نامی اتحاد تھے جنھیں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو اندرونی و بیرونی دہشت گردی کے خطرات خلاف استعمال ہونا تھا مگر وہ بھی عربوں نالائقی کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکے –

اس کے علاوہ ٢٠١٥ میں ہی سعودی عرب مصر کے ساتھ مل کر Common anti-terror force کے قیام کا اعلان بھی کر چکا ہے جس میں شامل فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار کے قریب ہونا تھی جس پر مصر کے صدر الفاتح السیسی نے کہا تھا کہ

” national security in the Gulf was an integral part of Egyptian security ”

مگر اس کا قیام بھی کارگر ثابت نہ ہو سکا ، لیکن کیا اس اتحاد میں غیر عرب ممالک کو شامل کر کے اسے کامیاب بنانے کی کوشش کرنا ہے ؟؟

امریکہ ایران ایٹمی معاہدے ، تیل کی قیمتوں میں کمی ، قطر اور عمان کے ساتھ سفارتی محاذ آرائی ، حج کے موقع پر ہونے والی دو ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ( جن میں ٤٦٤ ایرانی تھے ) ، شیخ نمر کی سزائے موت ، شام ، یمن و عراق وغیرہ میں ایرانی مداخلت اور آئی ایس ایس کا قیام اور القاعدہ کے بعد آل سعود کے خلاف اعلان جنگ وغیرہ ایسی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے سعودی حکومت پریشرمیں آئی ، کیا صرف اس پریشر کو ریلیز کرنے کے لیے اس فوجی اتحاد کا اعلان کیا گیا تھا ؟؟

کیا سعودی حکمران یہ جان چکے ہیں کہ ان کی اپنی فوج لڑنے کا کم تجربہ رکھتی ہے اور ١٩٩١ کی آخری فارن ڈپلائمنٹ کے بعد انہیں کہیں بھی باھر کی فوج کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملا جس کی وجہ سے وہ تکنیکی طور پر کمزور ہو چکے ہیں اور وہ اس وقت یمن کی جنگ کو بحثیت مشق لڑ رہے ہیں جس میں طویل لڑائی کے بعد بھی ابھی تک کامیابی نہیں مل سکی – کیا اس منظر نامے میں فوجی اتحاد کا اعلان صرف اپنی افواج کی تربیت و بقا ہے ؟؟

سعودی عرب یمن کی جنگ شروع ہونے کے بعد شام و عراق میں آئی ایس ایس کے خلاف ہر طرح کا آپریشن بند کر چکا ہے ، اس آپریشن کے بند ہونے کے بعد فوجی اتحاد کے قیام کا اعلان صرف ریاست کی حدود کی حفاظت کے لیے ہی گیا گیا ہے ؟؟

رپورٹ کے مطابق فوجی اتحاد یمن میں انٹیلی جنس شیئرنگ سے اپنا کام شروع کر چکا ہے اور ممکن ہے کہ ٹیبل پر یہ تجویز بھی موجود ہو کہ اگلے اقدام کے طور پر شام ، عراق اور لیبیا میں فوجی دستے بھیجے جائیں – رپورٹ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ فوجی اتحاد نیٹو کی طرح کا مربوط دفاعی اتحاد نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا اتحاد ہے جو یورپ کی ڈومیسٹک سکیورٹی کے تعاون کی صورت میں موجود ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی طرح کا پلیٹ فارم جہاں کسی ایشو کو رائے شماری سے طے کیا جائے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے