عافیہ رہائی مُہم اورماضی کے سچ

عافیہ صدیقی برطانیہ سے تعلیم یافتہ کراچی کے ایک ڈاکٹر کے گھر پیدا ہونے والے تین بچوں میں سے ایک تھی ، ١٩٩٠ میں وہ اپنے بھائی کے پاس ٹیکساس گئی جہاں ہوسٹن یونیورسٹی میں ایک سال پڑھنے کے بعد اس نے میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف آئی ٹی ٹیکنالوجی میں داخلہ لیا اور وہاں سے ” جینیٹکس ” میں اپنا پی ایچ ڈی مکمل کیا ( جبکہ وکی پیڈیا پر میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف آئی ٹی ٹیکنالوجی سے جینیٹکس کی ڈگری کے بجائے یہودی فنڈڈ تعلیمی ادارے براینڈائس سے ” نیورو سائنس ” میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرنے کا لکھا ہوا ہے ) گریجویشن کے بعد اس نے میڈیکل کے اسٹوڈنٹ بوسنین نیشنلٹی ہولڈر پاکستانی بلوچ محمد امجد خان سے شادی کی جس سے اس کے تین بچے ہوئے اور تیسرے بچے کی ولادت کے بعد دونوں میں علیحدگی ہو گئی –

میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی میں دوران تعلیم وہ مسلم اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کی فعال رکن رہی جہاں اس کا بنیادی کام غیر مسلموں میں اسلام کی تبلیغ کرنا تھا ، اپنے حلقہ احباب میں اسے sweet , mildly irritating but harmless جانا جاتا تھا ، جس کا اظہار بعد میں اس کے کلاس فیلوز کی طرف سے بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویوز میں کیا گیا –

اللہ تعالیٰ نے اسے حسن کے ساتھ ساتھ بے پناہ ذہانت سے بھی نوازا تھا ، دنیاوی علوم پر دسترس کے ساتھ ساتھ کتاب اللہ کو حفظ کرنا جس کی عملی صورت تھی – وہ اپنی گریجویشن کے دوسرے سال میں ” پاکستان میں خواتین پر اسلام کے اثرات ” کے موضوع پر بہترین مقالہ پیش کرنے پر ٥ ہزار امریکی ڈالرز کا انعام حاصل کر چکی تھی –

مگر پھر اچانک نو گیارہ کے حملوں نے ملکوں کی تاریخ بدل دی ، یکدم دوست دشمن اور دشمن دوست بن گئے ، صدیوں پہلے جیسے عقوبت خانوں کا قیام عمل میں آیا ، مذھب اسلام اور دہشت گردی کو آپس میں جوڑ دیا گیا ، قول و فعل سے زیادہ ظاہری حلیہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا معیار ٹھہرا ، ”دہشت گردی کا نیا نظریہ” تراشا گیا، امریکہ نے اپنے عوام کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیے کئی نئی مسلمان دہشت گرد تنظیموں اور شخصی کرداروں کو متعارف کروایا ، متعارف کروائے گئے کرداروں میں کہیں یہ بھی تھی ، کیوں تھی . . . شاید یہ آج تک کوئی نہیں جان سکا –

ڈاکٹر عافیہ کی گرفتاری اور امریکہ منتقلی کے حوالے سے مختلف آرا ہیں ، جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یکم مارچ ٢٠٠٣ میں عافیہ کے شوہر ( سابق شوہر ) امجد خان کو پاکستانی سکیورٹی اداروں نے اپنی تحویل میں لیا جس کے ستائیس دنوں بعد ٢٨ مارچ ٢٠٠٣ کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اس کے تین بچوں سمیت کراچی سے راولپنڈی کی فلائٹ لینے کے لیے گھر سے ٹیکسی پر ائیر پورٹ جاتے ہوئے اغواء کیا گیا جس کی تصدیق عافیہ کی والدہ اور ٢٠١٠ میں منظر عام پر آنے والے عافیہ کے بڑے بیٹے نے یہ کہہ کر کی کہ ” اس کی والدہ کو ان کے ساتھ گھر سے نکلتے ہی دوسری گلی میں تین چار گاڑیوں کے ساتھ موجود پندرہ سے بیس لوگوں نے ایک سفید فام خاتون کے ساتھ وہاں سے اغواء کیا تھا – عافیہ کے وکیل کے مطابق عافیہ نے اسے بتایا تھا کہ اسے گرفتار کرنے کے بعد نشے کا ہیوی ڈوز دیا گیا تھا اور جب اس کی آنکھ کھلی تو اس نے ہوا کی خشکی سے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ کراچی میں نہیں –

اگلے دن بعض پاکستانی اخبارات میں وزارت داخلہ ( فیصل صالح حیات اس وقت وزیر داخلہ تھا ) کے حوالے سے یہ خبر لگی تھی کہ کراچی سے ایک خاتون کو دہشت گردی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا مگر اس بات کی باقاعدہ تصدیق نہ ہو سکی ، کچھ عرصہ ایسے ہی گزرا مگر پھر ایف بی آئی نے ڈاکٹر عافیہ کی تصویر اپنی ویب سائٹ پر ڈال دی جس سے عافیہ کی امریکہ کو پاکستان سے منتقلی سامنے آئی –

ریڈ کریسنٹ کے نمائندوں کے مطابق ڈاکٹر عافیہ نے انہیں بتایا تھا کہ اسے پاکستانی اداروں نے بچوں سمیت اغواء کیا تھا اور اسے پانچ سال تک بگرام کے عقوبت خانے میں خفیہ طور پر قید رکھا گیا جہاں اس کی ٦٥٠ کے قیدی نمبر سے پہچان تھی ، عافیہ کے مطابق دوران قید اس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بار بار اس کی عصمت دری کی گئی –

جولائی ٢٠٠٨ میں برطانوی صحافی Yvonne Ridley کی پریس کانفرنس کے بعد ایف بی آئی نے اگست ٢٠٠٨ میں عافیہ کی افغانستان سے امریکہ منتقلی کی تصدیق کی اور فیڈرل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ جولائی ٢٠٠٨ کے وسط میں عافیہ کو افغانستان سے امریکہ منتقل کیا گیا تھا –

اس وقت کے پاکستانی حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سے جب عافیہ کی گرفتاری اور پاکستان سے امریکہ منتقلی کا پوچھا جاتا ہے تو وہ سے لاعلمی اور لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اگرچہ انہوں نے اپنی کتاب In The Line of Fire ( کسی من چلے نے اس کا ترجمہ ”جہنم کی طرف قطار” کیا ہے ) میں لکھا ہے کہ ” that he handed over 369 people to the US and earned millions of dollars from the CIA ” جبکہ اس دعوے کو اس وقت کے انٹیلیجنس چیف مسترد بھی کر چکے ہیں –

کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی گرفتاری خالد شیخ کی طرف سے انویسٹی گیشن کے دوران عافیہ کے امریکیوں کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا نام لینے کے بعد عمل میں لائی گئی تھی اسی لیے جب اسے پوچھ گچھ کے لیے پاکستانی اداروں نے اپنی تحویل میں لے کر افغانستان منتقل کیا تو دوران تفتیش بگرام جیل میں اس نے امریکی اہلکار پر حملہ کر دیا تھا جو اس کے مقدمے کی اصل وجہ بنا –

امریکی انتظامیہ کے مطابق عافیہ نے عدالت میں اپنے اوپر لگے الزام کی یہ کہہ کر تصدیق کی کہ جب تفتیشی اہلکار اس کی بیرک میں داخل ہوئے تب وہ ایک پردے کے پیچھے چھپی ہوئی تھی اس نے ان میں سے ایک امریکی اہلکار سے بندوق چھین کر ان پر فائرنگ کی تھی – ( جس سے نہ تو کوئی ہلاکت ہوئی اور نہ ہی کوئی شخص زخمی ہوا ) اور آفیسر کی طرف سے تبادلے میں کی گئی فائرنگ کی زد میں آ کر عافیہ خود زخمی ہوئی تھی –

امریکہ میں عافیہ صدیقی کے مقدمے پر عدالتی کارروائی کا آغاز جنوری ٢٠١٠ میں شروع ہوا ، عدالت میں کارروائی کا آغاز استغاثہ کی طرف سے افغانستان میں حملے کے چشم دید گواہان آرمی کیپٹن Robert Snyder اور John Threadcraft ، ایف بی آئی ایجنٹ John Jefferson دیگر تین کی موجودگی میں کیا گیا –

کیپٹن Robert Snyder نے مقدمے کی ابتداء گرفتاری کے وقت عافیہ سے اس کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریروں جن میں مختلف کیمیائی مواد سے بم بنانے کے فارمولے اور Empire State Building , the Brooklyn Bridge ، Wall Street کے نقشوں کی برآمدگی کا بتاتے ہوئے کی جس کے مطابق عافیہ درجہ بالا مقامات پر دہشت گردی کی پلاننگ کر رہی تھی – استغاثہ کا سارا کیس صرف عینی شاہدین جبکہ وکلاء صفائی کا کیس فورانزک شواہد پر مبنی تھا –

جبکہ عافیہ کی طرف سے عدالت میں واضح طور پر پہلے دن ہی کہا گیا تھا کہ

.This isn’t a fair court, Why do I have to be here? There are many different versions of how this happened

اس کا مطلب فائرنگ کے واقعے پر دیئے گئے مختلف بیانات تھے –

عدالتی کارروائی میں اس وقت دلچسپ موڑ آیا جب امریکی تحقیقاتی اداروں نے خود ہی عدالت کو بتایا کہ جس بندوق کے ذریعے عافیہ پر فائر کرنے کا الزام ہے اس پر ملنے والے فنگر پرنٹ عافیہ سے میچ نہیں کر رہے ، بعد میں امریکی فوجیوں کے ایک دوسرے سے مختلف بیانات کو بھی وکیل صفائی نے عدالت کے سامنے واضح کر دیا ، وکیل صفائی کے مطابق بندوق پر عافیہ کے انگلیوں کے نشانات نہیں تھے ، دیوار پر اس مخصوص بندوق سے چلی گولیوں کے نشان بھی موجود نہیں تھے ، جہاں فائر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے وہاں زمین پر بھی خالی خول موجود نہیں تھے ، صرف ١١٠ پاونڈ وزنی ایک عورت تین امریکی فوجیوں ، دو افغانی ترجمانوں اور دو ایف بی آئی کے ایجنٹوں کی موجودگی میں کسی سے بندوق چھین کر فائرنگ کیسے کر سکتی تھی ؟

مگر اس سب کے باوجود دو ہفتے کی عدالتی کارروائی میں غزنی کی ایک اور کہانی ( جس کے مطابق ڈاکٹر عافیہ القاعدہ کی سرگرمیوں میں ملوث تھی اور جب گیارہ ستمبر حملوں کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ نے دوران تفتیش اس کا نام لیا تو وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے رو پوش ہو گئی تھی. پانچ سال بعد وہ غزنی گورنر ہاؤس کے پاس سے بارودی مواد کے ساتھ گرفتار ہوئی ) کو بنیاد بناتے ہوئے عافیہ کو مجرم قرار دیا گیا –

بالآخر مقدمے کے فیصلے میں طویل تاخیر کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ٨٦ سال کی سزا سنا دی گئی ، یعنی جب وہ اس قید سے رہائی پائے گی اس وقت اس کی عمر ١٢٢ سال ہو گی – ٢٠١٠ کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان کی طرف سے عافیہ صدیقی کے مقدمے کے لیے پانچ وکلاء کی ٹیم ہائیر کی گئی تھی جن پر تقریبا” ٢٠ لاکھ ڈالر خرچ ہوئے –

اوپر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کے حوالے سے مختصر تمہید کا مقصد آج کل سوشل میڈیا پر چلتے ہیش ٹیگ #OneLetterForAffia کی طرف آنا تھا ( خط کس کو لکھنا ہے ، کس نے لکھنا ہے یا اس خبر کی کوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں میں نہیں جانتا ) جس کو کراچی سے ”پاسبان” والوں کے بعد سب سے زیادہ جماعت اسلامی کے کارکن اور ہمدرد ہی پوسٹ کر کے ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شاید ان سے زیادہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کوئی ہمدرد نہیں –

ہمارے بھائی سوشل میڈیا پر بھلے ہیش ٹیگ کمپین چلائیں مگر انہیں چاہئے کہ کم از کم تھوڑا سا پیچھے اپنے ماضی کو بھی مڑ کردیکھ لیں . زیادہ دور نہیں بھی جاتے تو مت جائیں مگر مشرف دور میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران کی ہی کوئی ایسی قرار داد نکال لائیں جو انہوں نے قومی اسمبلی میں عافیہ کی بازیابی کے لیے پیش کی ہو -اور کچھ نہیں تو اپنے بڑوں سے یہ ہی پوچھ لیں کہ ڈاکٹر عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی کو جماعت نے این اے ٢٥٠ سے جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ کیوں نہیں دیا تھا ، ہیش ٹیگ ضرور بناؤ مگر be practical یارو کیونکہ آپ سب سے بلند آہنگ میں اپنے صادق اور امین ہونے کا دعویٰ کرتے ہو –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے