رمضان کی آمد سے دو دن پہلے آفس سے گھر کے لئےنکلی تو اسلام آ باد ایکسپر یس وے پہ غیر معمولی رش نظرآیا ۔ ایسا رش جو ہاؤسنگ سوسائٹی میں پہنچ کر بھی ختم نہ ہو سکا۔ عجیب افراتفری کا عالم اور میں فوری طور پر وجہ سمجھنے سےقاصر ۔
گھر کا ضروری سامان لینے سٹور پر پہنچی تو وہاں رش کا ایک اور طوفان ۔ سامان کی ٹرالی کے لئے 5-10 منٹ انتظارکرنا کا عندیہ ملا تو میں نے 2-4 اشیاء ہاتھ میں ہی اٹھا لی۔ خریداری کے لئے آنے والوں نے کھانے پینے کی اشیاء سے ٹرالیاں لدی ہوئ ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے لوگ سال بھر کا راشن لے رہے ہوں ۔ پھر سوچ میں پڑ گئ کہ مہینے کا آخر اور اتنا رش ؟؟
کاونٹر کے ساتھ نوٹس چسپاں تھا 5 کلو سے زائد چینی لینا منع ہے۔ قریب ہی ایک صاحب سیلزمین سے بحث کر رہے تھے کہ جب انکی ضرورت 10 کلو ہے تو وہ زائد کیوں نہیں لےسکتے۔ ایک لمحےکو سوچا کیا بازار غیرمعینہ مدت کے لئےبند ہونے لگا ہے؟ کوئی ہڑتال متوقع ہے؟
لیکن فوراً اندازہ ہوا کہ یہ رش اور زخیرہ کی خواہش یقیناًرمضان کی آمد کی وجہ سے ہے۔ شیطان بند ہونے کو ہے اور جاتے جاتے زخیرہ اندوزی اور بےصبری کے گرُسب کو سکھا کے جانےلگا ہے۔ اور انسان تو ہے ہی خطا کا پُتلا۔
29 شعبان کو رمضان کا چاند نظر نہ آ سکا اور 30 شعبان کو پھر وہی افراتفری دیکھنے کو ملی ۔اور پھر یکم رمضان آگیا۔ سڑکوں اور بازاروں میں ہوُکا عالم ۔ روزہ کھلنے کے بعد بھی ویرانی ۔ اب تقریباً ایک ہفتہ ایسی ہی صورتحال رہے گی۔
جیسے ہی بازاروں اور سڑکوں میں عید کی خریداری کا رش شروع ہوگا یہ سکوت ایک بار پھر ٹوٹ جائے گا۔ اور وہی افراتفری اور جلدبازی ہر جگہ نظر آئےگی۔ اس بےچینی اور بے صبری کا تعلق صرف رمضان اور عید سے نہیں بلکہ عمومی طور پر ہماری زندگی پورا سال ہی غیر منظم اور بےترتیب سی نظر آتی ہے۔
رمضان قناعت، برداشت، نظم و ضبط اور احساس سکھاتا ہے۔ ہم اگر ایک مہینہ منظم اور پر سکون ہو کر گزار لیں تو پورا سال اطمینان سے گزرے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک مہینے کے بعد شیطان کھل جاتا ہے۔