عرب ریگزاروں میں دیسی مزدوروں کے شاہی شوق

ویسے تو تعلیم کا مقصد نوکری حاصل کرنے کے بجائے شعور و آگہی حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ پیٹ میں کچھ ہو گا تو شعور بھی آئے گا۔

من و سلویٰ کا دور تو گیا اور ہر ماں باپ سمیت نوجوان کا خواب تکمیل تعیلم کے بعد معاشرے میں ایک باعزت مقام حاصل کرنا اور اپنے ملک و وطن کی خدمت کرنا ہوتا ہے لیکن اپنے ہاں سب کچھ اُلٹا چل رہا ہے۔

پہلی بات یہ کہ تعلیمی معیار ہی ایسا ہے جس کا کوئی سر و پیر نہیں دکھتا اور اگر ڈگری مل بھی جائے تو بیروزگاری کے۔ٹو پہاڑ کی طرح منہ چِڑا رہی ہوتی ہے۔

ہمارے اکثر پڑھے لکھے نوجوان اپنی تعلیم مکمل ہونے تک بہت اونچے اونچے خواب دیکھتے رہتے ہیں، لیکن جب ڈگری ملنے کے بعد بیروزگاری سے تنگ آتے ہیں تو لوگوں کی نظروں سے بچنے کیلئے بازار میں کبھی ایک دکان میں گھُس کے وقت گزارتے ہیں تو کبھی کسی ہوٹل میں بیٹھے اپنے دوستوں کے ساتھ غربت و افلاس کا رونا رو رہے ہوتے ہیں۔

بیچارے مجبور و لاچار اپنی ڈگریاں بغلوں میں دبائے کبھی شہر کے چکروں میں وقت برباد کرتے ہیں تو کبھی کسی مقامی سیاستدان کے آگے پیچھے گھوم رہے ہوتے ہیں۔

منہ چھپانے کو جب کوئی ٹھکانہ نہیں مل پاتا تو گھر سے بھاگ کے لاہور، پنڈی یا کراچی کی کسی فیکٹری یا گدون مل میں اپنا رزق تلاش کرتے ہیں یا بے روزگاری کی موت مر جاتے ہیں۔

زیادہ کسی سے قرض لے کر یا بیوی کا زیور فروخت کرنے کے بعد کسی ایجنٹ کے دفتر کے چکر لگا لگا کے اسے ویزے کے پیسے دے کر وہی نوجوان جب کسی عربی ملک میں سیکورٹی گارڈ، پلمبر، الیکٹریشن، سٹیل فکسر کا کام کرنے کے ساتھ ساتھ مصری، شامی یا اردنی فورمینز کی باتیں برداشت کرنے کے بعد حادثاتی سروئیر، حادثاتی سٹور کیپر، حادثاتی چارج ہینڈ یا میری طرح کے حادثاتی سیفٹی والے بن جاتے ہیں تو دن بھر کی گرمی اور بک بک سننے کے بعد شام کو کمرے میں جا کر تیرا قائد مردہ آباد اور میرا قائد زندہ آباد کے فیسبک سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہیں.

جن سیاستدانوں کی لوٹ مار کی وجہ سے اپنا دیس چھوڑ کر بھاگنے کے بعد سولہ گھنٹے عربیوں کی یلا شباب اور گوروں کے کُتوں کو نہلانے، جھوٹے برتن مانجھنے، ٹیکسی کی کمائی سے کمیشن مارنے یا کسی بار یا ڈانسنگ کلب میں شراب کے گلاس دھو کر ٹپ کمانے کے بعد دس پاؤنڈز یا بیس درہم دیہاڑی پہ خوش ہونے والی قوم کے لوگ جب انہی سیاستدانوں کی جئے جئے کار کرتے ہیں تو بہت عجیب سا لگتا ہے تو دل میں بہت درد محسوس ہوتا ہے۔

اپنے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے جیب سے پیسے لگا کہ بیرون ملک تنظیم سازیاں ہوتی ہیں۔

سخت سردی و گرمی میں محنت سے کمائے گئے پاؤنڈز ، ڈالرز ، درہم یا ریالز میں سے پارٹی فنڈز صرف اس لئے دیے جاتے ہیں تاکہ دوسری جماعت کے لوگوں کو نیچا دکھایا جا سکے۔

سیلفیاں و فوٹوز فیسبک، ٹوئٹر یا انسٹاگرام پہ شئیر کر کے اپنی جھوٹی انا کو تسکین دی جاتی ہے۔

سب سے عجیب وہ وقت لگتا ہے جب وہی سیاستدان جنہوں نے ہمارے نوجوانوں کے مسقبل برباد کر کے اپنے محل کھڑے کئے ہوئے ہیں اور ہماری ہی کمائی سے ٹیکس کی مد میں لی گئی رقم سے غیر ملکی دورے انجوائے کرتے ہیں تو یہی نوجوان جیب سے پیسے خرچ کر کے ان کی بلا وجہ کی آو بھگت اور ائیرپورٹ سے سیون سٹار ہوٹل تک کے خرچے برداشت کرتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے