ان دنوں میڈیا پر پنجاب فوڈ اتھارٹی کے کارہائے نمایاں کی بڑی دھوم ہے یقیناًاس اتھارٹی نے عوام میں حفظان صحت اور کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کے فروغ کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔لیکن آئیے تکنیکی بنیادوں پر سستی شہرت کے حصول سے ہٹ کر اس ادارے کے اغراض و مقاصد اور کار کردگی کا جائزہ لیں۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام کے ایکٹ کے ذریعے 2011ء میں آیا اس کے بنیادی اغراض و مقاصد میں عوام کو محفوظ اور معیاری اشیائے خوردونوش کی فراہمی شامل ہے۔اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے قانون کی شق نمبر7 کے مطابق پنجاب فوڈ اتھارٹی عالمی معیار کے تسلیم شدہ اور نافذالعمل سائنسی معیارات کو بروئے کار لائے گی لیکن یہ صرف کہنے کی باتیں تھیں۔یہ اعلیٰ و ارفع اصول صرف کتابوں کی زینت بنے جبکہ حقیقت میں پنجاب فوڈ اتھارٹی اس قانون کی آڑ لے کر لوگوں کے کاروبار وسیع سرمایہ کاری اور روزگار کو نشانہ بنا رہی ہے۔ان کے یہ اقدامات نہ تو حفظان صحت اور محفوظ اشیائے خوردو نوش کی فراہمی کیلئے مدد گار ثابت ہو رہے ہیں اور نہ ہی اس سے صحت عامہ کا معیار بہتر ہو رہاہے۔ آئے تفصیل سے جائزہ لیں کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی اپنے مینڈیٹ سے ہٹ کر کیا اقدامات کر رہا ہے اور خوراک کے شعبے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔اتھارٹی کے ڈی۔جی نے قوانین کے نفاذ اور ان کے متعلق عوام میں شعور بیدار کرنے کی بجائے عالمی اور قومی سطح پر نافذ قوانین کی روگردانی کرتے ہوئے اپنے قوانین بنانے شروع کر دئے ہیں۔
کیا پنجاب میں بننے والی فوڈ اتھارٹی دنیا میں اپنی نوعیت کی پہلی اتھارٹی تھی؟ قومی سطح پر1996ء میںPSQCA پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کاقیام عمل میں آیا۔قومی سطح پر بنائے گئے ان کے قوانین اور عملیات سے ہٹ کر نئی تجربہ گاہیں قائم کرنے کے مقاصد کیا تھے۔عالمی سطح پر یورپ اور امریکہ کےFSAاورFADکو بھی کسی خاطر میں نہ لایا گیا۔اور عقل کل ہونے کی دعویدار پنجاب فوڈ اتھارٹی اپنے معیارات اور قوانین خود ہی وضع کرنے لگی اور آج ان قوانین کے ذریعے درمیانے کاروبار اور خوراک کے شعبے کی بڑی صنعتوں میں ہونے والی بڑی سرمایہ کاری اور روز گار کا مستقبل مخدوش ہے ۔
پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کو پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قوانین کی آڑ لے کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔عجلت میں بنائے گئے 2017ء کے قوانین اس شعبے کے شراکت داروں کی باہمی مشاورت کے بغیر اور زمینی حقائق کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے مروجہ معیارات سے ہٹ کے بنائے گئے۔پنجاب کی بیوروکریسی اہلیت فود اتھارٹی کے2017ء کے قوانین کے مطالعے سے عیاں ہوتی ہے۔ املاء گرائمر اور دیگر پیشہ ورانہ غلطیوں سے لبریز یہ قوانین بدنیتی پر مبنی ہیں اور ان کا پوشیدہ ہدف چندمخصوص کاروبار اور صنعتوں کو نشانہ بنانا ہے۔ مثال کے طور پر بکری کے دودھ کا ذریعہ بکرے کو قرار دیا گیا ہے۔اسی نوعیت کی چھوٹی اور بڑی غلطیاں ان قوانین میں موجود ہیں۔ خوراک کے شعبے سے منسلک سائنسدانوں کے اعتراض پر دودھ سے متعلق مشروبات اور دہی سے تیار کی جانے والی آئیسکریم کی تعریف بالآخر مجبوراً فروری2017ء کے بورڈ اجلاس میں شامل کی گئی۔
ایک اور احمقانہ اقدام یہ کیا گیا کہ اس شعبے کی انڈسٹری کو ڈرانے دھمکانے اور بلیک میل کرنے کیلئے کھانے پینے کی مصنوعات کی رجسٹریشن کا عمل بھی پنجاب فوڈ اتھارٹی نے اپنے ذمے لے لیا۔آخر جب قومی سطح پر پر پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول کا ادارہ موجود ہے جو قومی سطح پر یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے تو پھر یہ کام صو بائی سطح پر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کام پر اٹھنے والے کروڑوں روپے کے اخراجات پنجاب کے غریب عوام کی صحت اور تعلیم پر بھی تو خرچ ہو سکتے ہیں۔اور کیا کل دیگر صوبے سندھ ، بلوچستان،کے پی کے،کشمیر بھی اپنی فوڈ اتھارٹی اور اپنی مرضی کے قوانین بنا کر مشکلات کے شعبے کا معاشی قتل عام نہیں کر سکتے؟
ذرا سوچئے حکومتی سطح پر خوراک کے اس شعبے کو مختلف قوانین اور غیر قانونی ہتھکنڈوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔بجائے ریلیف دینے کے پہلے ہی یہ شعبہ لوڈ شیدنگ غیر منصفانہ ٹیکس اور حکومت کی جانب سے غیر حقیقت پسندانہ پالیسیوں کا شکار ہے۔کیا اس انڈسٹری سے جڑے کروڑوں لوگ اور اربوں روپے کی سرمایہ کاری پنجاب کی ناعاقبت اندیش افسر شاہی کی بھینٹ چڑھ جائے گی؟