علامہ اقبال ٹاؤن لاہور بم دھماکے کے بعد حکومت پنجاب پر دباؤ بڑھا کہ وہ جنوبی پنجاب میں قائم چھوٹو کے ٹھکانوں کے خلاف ایکشن لے _ اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کو حکم دیا کہ وہ خود راجن پور اور رحیم یار خاں جائیں اور چھوٹو کے خلاف آپریشن کی قیادت کریں _
یاد رہے چھ ماہ پہلے رائیونڈ میں ایک بریفنگ کے دوران وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ پنجاب نے مشتاق سکھیرا کو حکم دیا تھا کہ وہ چھوٹو کے خلاف آپریشن کریں مگر آئی جی صاحب چھ ماہ تک ٹس سے مس نہ ہوئے اور نہ آپریشن کیا اور نہ ہی اس کی کوئی تیاری کی اور اب جب پنجاب حکومت نے حکم دیا کہ آپ خود جا کر چھوٹو کے خلاف اپریشن کی قیادت کریں تو یہ سن کر موصوف کے ہاتھ پاوٴں پھول گئے چارونچار وہاں پہنچے اور پولیس افسران سے ہنگامی میٹنگ کی اور ان کو حکم دیا کہ وہ چھوٹو کے زیر قبضہ جزیرے پر حملہ کر کے چھوٹو کا قلع قمع کر دیں.
پولیس افسران اپنے سینئر ترین کمانڈر کا یہ حکم سن کر ششدرہ رہ گئے وہ حیران تھے کہ ان کا کمانڈر بغیر کسی تیاری اور منصوبہ بندی کے انہیں موت کے منہ میں کیسے دھکیل رہا ہے جب پولیس افسران نے آئی جی صاحب کو زمینی حقائق بتانے کی کوشش کی تو آئی جی صاحب نے جذباتی بلیک میلنگ کے لیے پینترا بدلہ اور کہا کہ وہ خود دستے کی قیادت کریں گے اور جزیرے کے اندر جاکر خود لڑیں گے _خیر افسروں اور جوانوں کو اپنے کمانڈر کے حکم پر لبیک کہنا پڑا _یاد رہے اگر آئی جی صاحب احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے اور چھ ماہ پہلے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے حکم کی پاسداری کرتے تو ان کے اس طرح ہاتھ پیر نہ پھولتے _ اور عجلت میں افسروں اور جوانوں کی زندگیوں کو انتہائی خطرے میں ڈالنے کی بجائے باقاعدہ منصوبہ بندی اور حفاظتی انتظامات کے ساتھ چھوٹو کا محاصرہ کرتے _
اور جب اگلے دن جزیرے پر حملے کا وقت آیا تو آئی جی صاحب کی اچانک طبیعت بگڑ گئی افسر اور جوان اپنے کمانڈر کا انتظار کرتے رہے مگر انہوں نے نہ آنا تھا اور نہ ہی وہ آئے کچھ دیر بعد موصوف نے وائرلیس پر حکم سنا دیا کہ فوری طور پر کشتیوں پر بیٹھ کر چھوٹو کے پاس اس طرح پہنچیں کہ اس کو پتا بھی نہ چلے اور اس کو وہی مار دیا جائے افسر اور جوان کشتیوں میں سوار ہوئے اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھا اور اپنے کمانڈر کے حکم کے سامنے اپنی گردنوں کو سرنگوں کر دیا _پولیس ابھی جزیرے پر پہنچ بھی نہ پائی تھی کے ڈاکوؤں نے تین اطراف سے حملہ کردیا اور سات اہلکار اسی وقت اپنے آئی جی کی غفلت اور اور ناقص حکمت عملی کے باعث شہید ہو گئے اور 27 اہلکاروں کو یرغمال بنا لیاگیا اب بجائےاس کے کہ آئی جی صاحب خود وہاں پہنچتے اور اپنی حکمت عملی تبدیل کر کےاور مزید دستے منگوا کر ڈاکوؤں پر حملہ کرتے موصوف نے ہتھیار پھینک دیے اور حکومت کو بتا دیا یہ پولیس کے بس کی بات نہیں حالانکہ یہ تمام زمینی حقائق افسران پہلے سے ہی آئی جی صاحب کے گوشگزار کر چکے تھے.
جوانوں میں مایوسی اور غصہ تب بڑھا جب آئی جی صاحب نے پولیس لائنز راجن پور میں دو گھنٹے انتظار کروانے کے بعد سپاہ کے جنازوں میں بھی شرکت کرنے سے انکار کردیا شاید انہیں اپنی غلطی کا اندازہ ہو چکا تھا اور اب وہ افسروں اور جوانوں سے نظریں ملانے سے کترا رہے تھے.
آئی جی صاحب کے شکست تسلیم کرنے کے بعد پاک فوج کو وہاں آپریشن کرنے کے لیے بلایا گیا جس نے نہایت بہادری اور منصوبہ بندی سے تیس سال سے مفرور چھوٹو کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا اور اس طرح جنوبی پنجاب میں ڈاکوؤں کا ایک طویل عہد اپنے اختتام کو پہنچااور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگائے.
مشتاق سکھیرا جب دوہزار چودہ میں آئی جی پنجاب بنے تو انہوں نے 2002 سے لیکر 2014 تک ریٹائرڈ ہونے والے تمام آئی جی صاحبان جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی تھی سے ان کے ذاتی محافظ بھی واپس لیکر انہیں دہشت گردوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا لیکن خود جاتے جاتے ناروے حکومت کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے دی جانے والی کروڑوں روپے کی بم پروف v8 گاڑی بھی اپنے ساتھ لے گئے موجودہ قائم مقام آئی جی صاحب شرم وحیا کی وجہ سے یہ گاڑی واپس نہیں مانگ رہے لیکن سکھرا صاحب بغیر شرم و حیا کے لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ وہ یہ گاڑی بلوچستان سے لیکر آئے تھے .
لگتا ہے سکھیرا صاحب کو مہنگی مگر مفت کی گاڑیاں رکھنے کا بہت شوق ہے 2016میں ایس پی صاحبان کے لیے حکومت نے ٹیوٹا کمپنی کو ڈبل کیبن فلی لوڈڈ 24 گاڑیوں کا آڈر دیا _ لیکن بعد میں سکھیرا صاحب نے ٹویوٹا کمپنی کو 16 گاڑیاں ویسے ہی بنانے کو کہاں جیسے کہ ان کو آڈر دیا گیا تھا لیکن 8 گاڑیوں کو سستا مٹیریل لگانے کا کہا اور اس کے بدلے اپنے لیے ایک 1800cc کار کا مطالبہ کیا سکھیرا صاحب نے یہ کار رجسٹرڈ نہیں کروائی اور یہ کار آج بھی ان کے استعمال میں ہے.
ریٹائرمنٹ سے پہلے مشتاق سکھیرا صاحب نے حکومت کو اپنا نام تمغہ شجاعت کے لیے نامزد کیا ہے اور اپنی بہادری کی داستانوں میں ایک چھوٹو کے کیس کا حوالہ دیا ہے اور دوسرا حوالہ دیا ہے جب وہ آئی جی بلوچستان تھے اور جب وہ ایک رات سوۓ ہوئے تھے کہ آئی جی ہاؤس کے باہر خودکش دھماکہ ہوا جس میں تین پولیس اہلکار شہید ہو گئے اور آئی جی صاحب کو ایک خراش بھی نہ آئی تھی گویا مشتاق سکھیرا صاحب نے سوتے ہوئے اپنی بہادری کی داستان رقم کی ہے اور حکومت سے تمغہ شجاعت کا مطالبہ کیا ہے لیکن امید ہے حکومت تمغہ شجاعت کی اس طرح بےتوقیری نہیں ہونے دےگی.