شناخت کے بدترین بحران اور جیوپولیٹکل گیم کی چکی میں پستی روہنگیا

برمی آرمی کی طرف سے حالیہ کریک ڈاؤن کے دوران روہنگیا کے انسانی المیے پر ہم نے سوشل میڈیا کے توسط سے (Emotional Response) کے طور پر ایک بین الاقوامی بیداری مہم چلائی. جس میں تقریبا سو ممالک سے سوشل میڈیا صارفین شامل ہو گئے. اس دوران میانمر اور بنگلہ دیش سمیت مختلف ممالک کے اہل علم و عمل دوستوں سے تبادلہ خیال ہوا اور مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آئے۔
اب چونکہ روہنگیا ایشیوعالمی میڈیا پر زیر بحث بھی ہے اور باقاعدہ طور پر مختلف ممالک کے حکومتی ایوانوں میں ارتعاش پیدا کر رہا ہے، اس لیے جذباتی ردعمل کے بعد اب اس پر سنجیدہ غور و فکر پر مبنی ردعمل (rational response) بھی دینا چاہیے۔ اس غرض سے یہ مضمون لکھا گیا ہے. اس حوالے سے دوستوں کے پوچھے گئے سارے سنجیدہ اور متعلق سوالات کے جوابات اس مضمون میں‌ بالواسطہ دیے گئے ہیں۔ امید ہے اس مسئلے کو کچھ گیرائی اور گہرائی کے ساتھ سمجھنے میں یہ مضمون مددگار ہوگا۔
………………………………………………………………………………………………………………………………………

یہ جنوری-فروی ۲۰۱۷ کی بات ہے کہ ہم نیپال کے دار الخلافہ کٹھمنڈو میں جنوبی ایشیا کے تنازعات سے متعلق ایک بین الاقوامی پروگرام میں شریک تھے، اس پروگرام میں جنوبی ایشیائی ممالک میں جاری پُرتشدد تنازعات کے اسباب و اثرات اور حرکیات کا جائزہ لینا اور ان کو حل کی طرف بڑھانے کے لیے تجاویز مرتب کرنا تھا۔ اس پروگرام میں بنگلہ دیش، انڈیا، منگولیا، تبت (چائنہ)، نیپال، سری لنکا، افغانستان اور میانمر کے مندوبین شریک تھے، پاکستان سے میں اکیلا شریک تھا۔ جن تنازعات پر دو ہفتے کی کانفرنس میں غور و خوض اور ان کو جدید علم التنازعات کے اصولوں اور طریقوں کے ذریعے زیربحث لایا گیا ان میں میانمر کے تنازعات بھی شامل تھے۔ پروگرام میں شامل میانمر کے تینوں مندوبین امن و ہم آہنگی کے فروغ کے لیے متحرک تربیت کار تھے۔ اب روہنگیا کے معاملے کے چند پہلوؤں کو اپنی فہم کے مطابق اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
………………………………………………………………………

ایشیا کے جنوب مشرق میں واقع 676,578 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا برما جسے اب میانمر کہا جاتا ہے برطانوی سامراج کے دور میں متحدہ ہندوستان کا حصہ رہا ہے جسے ۱۹۴۸ میں آزادی دی گئی۔ برما کی سرحدیں، شمال میں چین، جنوب میں خلیج بنگال، مغرب میں بنگلہ دیش اور انڈیا، جبکہ مشرق میں لاوس اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں۔ میانمر میں کل پندرہ انتظامی یونٹس ہیں جن میں سے سات کو ’’ریجن‘‘ سات کو ’’سٹیٹ‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ ایک یونٹ دار الخلافہ کا ہے۔ دار الخلافہ پہلے رنگون/ینگون تھا اور اب ’’نے پی تاؤ‘‘ ہے،
کثیرالنسلی برما میں تقریبا ڈیڑھ سو نسلی گروہ موجود ہیں۔ سو سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں مگر برمی یہاں کے سب سے بڑے نسلی گروہ ’’برمر‘‘ جو کہ آبادی کا اڑسٹھ فیصد ہے کی مادری زبان جبکہ یہی سرکاری زبان بھی ہے۔

ملک میں اکتیس سال بعد کی گئی2014 کی مردم شماری کے مطابق کل آبادی 50,279,900 ہیں جنہیں شمار کیا گیا جبکہ رخائن، کائن اور کچن ریاستوں میں موجود غیر رجسٹرڈ لوگوں کا اندازہ 1206353 ہیں۔ یوں میانمر کی مجموعی آبادی تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔


آبادی میں مذہبی لحاظ سے سب سے زیادہ بدھست تقریبا اٹھاسی فیصد جبکہ ساڑھے چھ فیصد مسیحی، ساڑھے چار فیصد مسلم نیز ایک فیصد سے بھی کم ہندو سمیت دیگر اقلیتیں شامل ہیں۔ مسلمانوں کی مجموعی تعداد یعنی چار اعشایہ تین فیصد جوکہ تقریبا چوبیس لاکھ بنتی ہے۔ ان میں سے آدھے مسلمان رجسٹرڈ شہری شمار ہوتے ہیں جبکہ آدھی مسلم آبادی روہنگیا نسلی گروہ میں سے ہے۔ میانمر کے رجسٹرڈ مسلمان شہری مختلف نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک کے مختلف شہروں اور علاقوں میں بستے ہیں (پندرہ میں سے کوئی ریاست/ریجن ایسا نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی کچھ نہ کچھ تعداد نہ ہو)

مختلف نسلی گروہوں کے مابین مسلح تصادم کے علاوہ حکومت اور ان کے درمیان پُرتشدد مقابلے دہائیوں سے جاری ہیں۔ مختلف ریاستوں میں جاری علیحدگی پسند تحریکوں کے معاملات میں سے ایک مسئلہ رخائن یا اراکان ریاست میں روہنگیا کے ساتھ برسوں سے جاری پُرتشدد تنازعات بھی ہیں۔ روہنگیا کا معاملہ شاید باہر کے لوگوں کے لیے جنوب مشرقی ایشیا میں انسانی حقوق کی پامالی کا سب سے بڑا مسئلہ ہو اور اقوام متحدہ کے لیے دنیا کی سب سے مظلوم بے وطن نسلی و مذہبی اقلیت پر بدترین ظلم کا معالمہ ہو، مگر میانمر کے لوگ اسے محض سکیورٹی کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

[pullquote][pullquote]یہ مسئلہ کب سے شروع ہوا ہے؟[/pullquote]

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ یک دم نہیں ہوتا

ویسے تو یہاں مسلم آبادی صدیوں سے رہ رہی ہے۔ مگر بیسیوں صدی کے وسط میں تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں شامل ہونے کے لیے جدو جہد، پھر خودمختار الگ ریاست بنانے کی تحریک کے باعث روہنگیا کے بارے میں برما میں شک اور بداعتمادی کے احساسات بڑھتے گئے۔ مختلف اوقات میں مختلف سطح کے فسادات ہوتے رہے مگر اپنی آزادی سے لے کر ۱۹۸۲ تک روہنگیا بھی برما کے شہری شمار ہوتے تھے۔ البتہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے ۱۹۸۲ کے قانون شہریت کے تحت برما کے ۱۳۵ نسلی گروہوں کو برمی شہریت دی گئی مگر روہنگیا نسلی گروہ کو شہریت سے محروم کر دیا گیا۔ اگلے سال یعنی ۱۹۸۳ میں ہونے والی مردم شماری میں ان کو شمار ہی نہیں کیا گیا۔ میانمر حکومت کا کہنا ہے کہ تاریخی و نسلی طور پر یہ لوگ بنگالی یا عرب ہیں۔ چونکہ روہنگیا میانمر کے تسلیم شدہ ۱۳۵ نسلی گروہوں میں شامل نہیں ہیں، اس لیے یہ میانمر کے باقاعدہ شہری نہیں ہیں بلکہ قانونی اعتبار سے یہ بنگال کے غیر قانونی تارکین وطن ہیں جو میانمر کی رخائن ریاست میں میانمر کے احسان تلے رہائش پذیر ہیں۔ بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ یہ تاریخی لحاظ سے کبھی بنگلہ دیش کے شہری نہیں رہے، یہ برما کے لوگ ہیں، اس لیے وہ بھی انہیں اپنے ہاں آنے نہیں دیتا۔

گزشتہ ۳۵ سالوں سے قانونی تفریق، سماجی تحقیر اور مذہبی منافرت کے شکار روہنگیا کمیونٹی اپنے ہی ملک میں روز بروز اجنبی تر ہوتی گئی۔ قانونی دستاویزات کی بنیاد پرحاصل ہونے والے زندگی کے تمام تر حقوق و مراعات سے وہ محروم ہے. بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہونے کے باعث سماجی جرائم میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ یہ اضافہ ان کے بارے میں پہلے سے قائم متعصب مفروضات کو تقویت بخشتا گیا۔ یوں لاوا پکتا رہا، گلی محلے میں پیش آنے والی لڑائیوں سے لے کر گروہی جھگڑوں تک ہر گزرتے واقعے نے اس آتش فشاں کو گرمایا۔

نوے کی دہائی کے اواخر میں طالبان کی ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ کی جانب سے جب مہاتما گوتم بدھا کے مجسموں اور بدھست آثار کو تباہ کرنا شروع کیا تو دنیا بھر کی بدھسٹ کمیونٹی سمیت برما کے بدھسٹ مذہبی سماج میں مسلمانوں کے خلاف منافرت کی ایک نئی اور عمومی فضا بننے لگی، یہ فضا گزرتے وقت کے ساتھ پروان چڑھتی گئی اور طالبان، القاعدہ وغیرہ کی عمومی پُرتشدد کاروائیوں کے باعث غیر مسلم معاشروں میں اسلام سے خوفزدگی کا ایک خاص ماحول بنا اور مسلم ممالک کے اندر پیش آنے والے پے در پے واقعات نے اس تاثر کو بہت اجاگر کیا کہ مسلمان ساری دنیا کے دیگر اقوام و مذاہب کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔

سن دو ہزار بارہ میں جون سے لے کر اکتوبر تر رخائن ریاست میں مسلم بدھست فسادات زور پکڑ گئے، پہلی چنگاری جس نے بھی لگائی ہو آگ یہ نہیں دیکھتی کہ کسے جلانی ہے اور کسے بچانی ، یوں یہ آگ مختلف علاقوں تک پھیل گئی، ان فسادات میں دونوں طرف کے مذہبی قائدین سمیت درجنوں لوگ مارے گئے مگر ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات بن کر بہت زیادہ جانی و مالی نقصان روہنگیا کمیونٹی کا ہوا۔ رخائن میں کئی بار کرفیو لگا کر سکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن آپریشنز کیے۔

انہی فسادات کی کھوکھ سے حرکت الیقین نام کی ایک تنظیم اٹھی جس کے بانی عطاء اللہ ابو عمار جنونی ایک روہنگیا مسلم ہیں جو کہ ایک روہنگیا مہاجر کے ہاں کراچی میں پیدا ہوئے اور سعودی عرب میں پڑھے بڑھے، ان کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر عسکریت پسندوں سے متعلق تحقیق کے لیے قائم تھنک ٹینک انٹرنیشنل کراسز گروپ کے مطابق عطاء اللہ نے پاکستان میں جا کر طالبان سے جدید گوریلا جنگ کی مہارت و تربیت حاصل کی ہے۔ اس تنظیم کا نیا نام اراکان روہنگیا سالویشن آرمی ہے۔ اس منظم ومسلح گروپ کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک طرف روہنگیا کمیونٹی کے خلاف برمی معاشرے میں خوف اور منافرت کا ماحول مزید پروان چڑھا ہے اور دوسری طرف حکومت نے ’’دہشت گردی‘‘ سے مقابلے کے لیے ہمہ جہت پالیسیوں کو مزید سنجیدہ لیا ہے اور مختلف ممالک سے دفاعی سازو سامان خریدنے کے علاوہ اپنی فورسز کو گوریلا جنگ کی تربیت دلانا شروع کیا ہے۔

رخائن میں 2012 سے اب تک وقتا فوقتا فسادات، فورسز پر حملوں‌اور آرمی کریک ڈاون کا سلسلہ جاری ہے. گزشتہ ماہ ۲۵ اگست کو فورسز کے چیک پوسٹوں پر حملوں کا الزام بھی اراکان روہنگیا سالویشن آرمی پر ہے، ان حملوں کے بعد ملٹری کی طرف سے شروع ہونے والے اندھا دھند اور ظالمانہ کریک ڈاؤن میں اب تک تقریبا دو ہزار افراد کے مارے جانے، تقریبا تین لاکھ افراد بے گھر ہونے کے علاوہ فورسز کی جانب سے بچوں اور خواتین سمیت ہر عمر کے افراد کو نہایت بے دردی سے قتل کرنے اور آبادیوں کو جلانے کے واقعات سامنے آئے ہیں جبکہ جان بچا کر بنگلہ دیش کی ساحل پر جاتے ہوئے درجنوں لوگ سمندر میں غرق ہوئے ہیں۔

برسوں سے شہری حقوق اور تحفظ سے محروم روہنگیا لاکھوں‌کی تعداد میں‌ سمندری اور زمینی راستوں سے ہجرت کر کے مختلف ممالک میں پہنچ کر رہائش پذیر ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ بنگلہ دیش میں ہیں، جبکہ اس کے علاوہ تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈیا، سعودی عرب، انڈونیشیا، پاکستان، چین اور یورپی ممالک میں بھی مجموعی طور پر کئی لاکھ روہنگیا مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔

[pullquote]مسئلے کا مذہبی بلکہ ’’ریاستی مذہبی پہلو[/pullquote]

روہنگیا کا المیہ بنیادی طور ایک نسلی و سیاسی مسئلہ ہے جو مختلف وجوہات کے باعث ۱۹۸۲ کے قانونِ شہریت کے مطابق ان کو برما کے مستقل اور قانونی شہری تسلیم نہ کرنے سے شروع ہوا، مسئلہ کی جڑ بھی شہریت کے حق سے جڑی ہوئی ہے اور اس کا مستقل حل بھی، مگراب یہ مسئلہ سیاسی سے زیادہ مذہبی رنگ اختیار کر گیا ہے.

برما میں مسلمانوں کے خلاف مہم کی قیادت جو بدھسٹ مونک (مذہبی راہنما) کر رہا ہے، اس کا نام آشن ویراتھو ہے۔ اس تحریک کا نام ماباثا تحریک ہے۔ اس کا مطلب نسل اور مذہب کو بچاو ہے۔ ان کا ایک نعرہ یہ بھی ہے کہ ’’نسل اور مذہب دنیا کے خاتمے تک برقرار رہنی چاہیے‘‘ اسے علامتی طور پر چھے نو چھے بھی لکھا اور پکارا جاتا ہے، یہ مسلمانوں میں مشہور عدد ۷۸۶ کی طرح ۶۹۶ ویراتھو کی تحریک کے نزدیک علامتی اہمیت کی حامل ہے۔ مذکورہ سہ اعداد میں سے پہلا نو بدھا کی نو صفات کو بیان کرتا ہے، جبکہ چھ بدھت کی چھ بنیادی تعلیمات کو اور آخری نو بدھ مت کے خانقاہی نظام کو۔

ویراتھو کی ماسویان درسگاہ یا بدھ مت خانقاہ (موناسٹری) منڈلے شہر میں موجود ہے جہاں وہ اپنے ہزاروں طلبہ اور مریدوں کو مسلمانوں کے بارے میں ’’خطرات‘‘ سے آگاہ رکھتے ہیں۔ ویراتھو خطابت کے دوران سامعین کو دلگیر انداز میں اس خطرے کا باربار یقین دلاتا ہے کہ اگر مسلمانوں کا راستہ نہ روکا گیا تو برما کی اکثریتی بدھ مت کمیونٹی اپنی نسل، تہذیب و ثقافت اور مذہب سمیت معدوم ہو جائے گی اور کئی عورتوں سے بیک وقت شادی کر کے یہاں روز بروز اپنی آبادی میں اضافہ کرنے والے مسلمانوں کا راج ہوگا۔ چونکہ ہر کمیونٹی میں اچھے برے ہر طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں اس لیے صرف اپنے مقصد کے حصول کے لیے مخالف کمیونٹی کے ان منفی پہلؤوں کو بہت اجاگر کیا جاتا ہے جس سے لوگوں میں نفرت کا جذبہ ابھرے۔ بالکل اسی نوعیت کی مہم شیعہ مسلم اور آئینی طور پر غیر مسلم قرار پانے والی احمدی کمیونٹی کے خلاف پاکستان میں چلائی جاتی ہے۔ اس معاملے میں مزید اشتعال دلانے کے لیے پُرتشدد و واقعات سمیت طرح طرح کی کہانیوں اور الزامات کا سہارا لیتا ہے. دونوں جگہ سیاسی مفادات کے لیے مذکورہ منافرت کی تحریکوں کو حکومت و ریاست کی آشیر باد حاصل رہی ہے۔

ماباثا تحریک کا معاملہ بھی شناخت کا بحران ہے. برمی سماج کی بدھسٹ شناخت کو کھونے کے خطرے کے احساس پر مبنی اس تحریک کو برما میں کسی حد تک عوامی پذیرائی بھی ملی ہے، چنانچہ ۲۰۱۵ میں اس تحریک کے ایجنڈے اور سٹریٹ پریشر پر پارلیمنٹ میں چار قوانین پاس کیے گئے۔ ان میں آبادی کنٹرول کا قانون، بین المذاہب شادی کی پابندی، نسل اور مذہب کا تحفظ بل، مذہب کی تبدیلی پر پابندی کا بل شامل ہیں. انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال یہ ہے کہ ان قوانین کا بھی براہ راست نشانہ مسلم آبادی بنی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر شدید رد ر عمل کا اظہار کیا ہے۔

اسلام کی طرح بدھ مذہب میں بھی درجنوں مکاتب فکر ہیں، برما جو مسلک رائج ہے اسے ثیراوادھا Theravāda مسلک ہے۔ دیگر مسالک سے مختلف ہے۔
روہنگیا مسئلے پر سوشل میڈیا کے بہت سے سرگرم صارفین بدھمت مذہب پر تنقید کرتے ہیں، انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے جیسے اسلام بے گناہوں کے قتل عام کی اجازت نہیں دیتا اسی طرح بدھ ازم بھی کسی بھی ذی روح کو اذیت پہنچانے کی تعلیم نہیں دیتا، جس طرح مسلمان مذہبی معاملات میں اپنے دوسرے مکتب فکر کے قائدین اور مفتیان کی پیروکار پیروی نہیں کرتے اسی طرح بدھ مت کے مسالک کے ہاں بھی ایسا ہے۔ سب سے زیادہ تنقید بدھ رہنما دلائی لاما چہاردہم پر جاری ہے۔ جبکہ مذہبی اعتبار سے دلائی لاما تبتی بدھ مت کے ایک مسلک کے رہنما ہیں، مگر تبت کے چاروں بدھ مت مسالک سمیت عمومی طور پر بدھسٹ کمیونٹی میں اسے عالی مرتبت حاصل ہے۔وہ کئی بار کھل کر روہنگیا کے لیے انہوں نے نہ صرف بیانات دیے ہیں بلکہ اس نسل کشی کو رکوانے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر موجود ان کے سینکڑوں ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے خطبوں میں اسلام کی آفاقی تعلیمات کا بار بار حوالہ دے کر اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’ اسلام قتل و غارت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ وہ امن، احترام اور رحم دلی جیسی تعلیمات کو مذاہب کا مشترکہ اثاثہ سمجھتے ہیں۔
ایسا بھی نہیں کہ برما کے سارے بدھ رہنما روہنگیا کے خلاف مذہبی منافرت پھیلاتے ہوں ، یہاں بین المذاہب ہم آہنگی اور تعاون کی فضا کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنے والے بہت سے رہنما موجود ہیں جو مسلسل متحرک ہیں۔

اس سیاسی مسئلے کو مذہبی بنانے میں برمی حکومت کے لیے کئی فوائد ہیں۔
اسے مذہبی رنگ دینے سے ایک تو اکثریتی آبادی کے مذہبی جذبات کو اپنے حق میں ابھارا جا سکتا ہے اور یوں کسی بھی بڑے ’’ہدف‘‘ کے لیے رائے عامہ لمحوں میں ہموار ہو جاتی ہے.
دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کسی بھی متبادل بیانیے کو فروغ دینے کی فکر رکھنے والو کو کچھ کر نے سے پہلے ہزار دفعہ سوچنا پڑتا ہے، یوں‌ دوسرے کسی بڑے گروپ کی جانب سے ان کے حقوق کے لیے بات کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یوں ہوا کا رخ صرف ایک طرف ہی چلتا رہتا ہے۔
تیسرا فائدہ یہ ہے کہ کسی بھی واقعے پر مفت میں ’’ایمانی حمیت‘‘ اور ’’نیک نیت‘‘ افرادی قوت دستیاب ہو جاتی ہے جسے کسی پالیشی یعنی درباری مذہبی رہنما کے محض ایک نعرے یا فتوے پر ’’ مقدمۃ الجیش‘‘ یعنی ہراول دستے کے طور پر ’’غداروں‘‘ اور ’’وطن دشمنوں‘‘ کی نسلوں تک کو سبق سکھانے کے لیے لانچ کیا جا سکتا ہے۔
چوتھا فائدہ یہ ہے کہ مسئلے کے مذہبی ہونے سے فسادات کی ذمہ داری کے معاملے میں پوری بدھسٹ کمیونٹی پر تنقید بڑھ جاتی ہے جس سے حکومتی مشینری پر آنے والا بیرونی و عالمی دباؤ تقسیم ہو کر کم ہو جاتا ہے۔
باقی برما میں بھی ایسے مذہبی پیشواوں کی کمی نہیں جو بوقت ضرورت ایسے واقعات کو ’’ردعمل‘‘ کہہ کر ریاستی قتل عام کی شرمناکی کو کم کر کے اسے مذہبی و سماجی قبولیت اور جواز بخشتے ہیں۔
ایک کٹر مذہبی سماج میں مذہبی جذبات کیا ہوتے ہیں، اس بات کو سمجھنے کے لیے یورپ کے کئی صدیوں کے مذہبی فسادات کا مطالعہ کریں یا معاصر مسلم دنیا کے مسلسل باہمی قتال اور نئی مہم جوئی کے لیے صف بندی میں مصروف مختلف مسلم ممالک کو دیکھ لیں سیاسی و معاشی مفادات کے حصول کے لیے کسی بھی مسئلے کو مذہبی رنگ دے کر اپنا کام نکالنا کیسے ہوتا ہے، اس بات کو سمجھنے میں کم از کم پاکستانیوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔

[pullquote]سماجی پہلو[/pullquote]

روہنگیا کو برسوں سے برمی حکومت حقارت سے ’’بنگالی‘‘ پھر خوف کا سہارا لے کر ’’انتہاپسند‘‘ کہنے لگی اور ’’اراکان روہنگیا سالویشن آرمی‘‘ کے حملوں کے بعد دہشت و انتقام کے عارضے کے تحت سب کو’’ دہشت گرد‘‘ کہتی ہے۔ انہی مراحل سے گزر کر بنگلہ دیش ’’دو قومی نظریے‘‘ کی بندھن سے آزاد ہوگیا تھا، جس طرح ہمارے ہاں افغان پناہ گزینوں اور پشتون کو دہشت گردی کے ا’’اصل ذمہ دار‘‘ سمجھنے والے بہت ہیں اسی طرح پوری روہنگیا کمیونٹی کو سارے جرائم کی جڑ سمجھنے والے بھی بہت ہیں۔ برمی حکومت کی شہہ پر بدھسٹ عسکریت پسند عناصر حکومت پاکستان کے خرچے پر پلنے والے عصمت اللہ معاویہ، ملک اسحاق، احسان اللہ احسان سمیت دیگر طالبان، القاعدہ، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ سمیت دیگر انتہاپسندوں کی طرح ہیں جنہیں بوقت ضرورت’’غداروں‘‘ اور ’’بیرونی ایجنٹوں‘‘ کے خلاف مسلح ’’جہاد‘‘ کے لیے لانچ کیے جاتے ہیں۔
اس بنیادی اپروچ کے تحت قومی ذرائع ابلاغ اور قومی نصاب کے ذریعے سماجی سطح پر ایک خاص فضا کی بیچ بوئی جاتی ہے جو برسوں تک اپنا پھل دیتی رہتی ہے۔ پاکستان میں جس طرح شیعہ، ( خاص طور پر بلوچستان کے ہزارہ) مسیحی، ہندو، احمدی کمیونٹیز کے بارے میں نفرت، اشتعال اور تشدد پر ابھارنے والی ایسی ایسی کہانیاں عام کی گئی ہیں کہ اس کے بعد قتل وغارت کو فرض، باعث ثواب اور ’’ ایمانی حمیت‘‘ اور’’ جذبہ حب الوطنی‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ یہی بدھست اکثریتی میانمر میں مسلمان بالعموم اور روہنگیا کمیونٹی کے بارے بالخصوص روا رکھا جاتا ہے۔
قومی نصاب اور قومی میڈیا میں کتنی سچائی ہوتی ہے اسے جاننے کے لیے مطالعہ میانمر کے مضامین پڑھیں تو اسی طرح ’’جذبہ حب الوطنی‘‘ سے سرشار اور صرف جنگی ہیرووں کی مافوق العادہ معجزات سے بھری ہوئی ’’سچائئ‘‘ نظر آتی ہے جس طرح ہمارے ہاں رائج مطالعہ پاکستان کی نصابی کتب میں۔ میانمر کا بھی میڈیا ’’پی ٹی وی‘‘ کی طرح ہے، ملک کے حالات چاہے جتنے ابتر ہوں قوم ہمیشہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن دکھائی دیتی ہے۔

ملٹری، ملا اور میڈیا کا تکون یہاں بھی مذہبی منافرت کو ریاستی اور سماج کا پاپولر بیانیہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ چنانچہ ریاست کی طرف سے قانونی تفریق، مذہبی رہنماؤں کا ’’حکم/فتوی اور سرپرستی‘‘ اور سماج میں پھیلی عمومی نفرت انگیز عصبیت، یہ تینوں عوامل روہنگیا کے خلاف دردناک و شرمناک نسلی کشی کو قانونی، مذہبی اور سماجی جواز فراہم کرتے ہیں۔ تشدد کی قبولیت اور اس کی تحسین جب مذہب اور قومیت کا تقاضا ٹھہرے تو شاید بدھسٹ انتہاپسندوں کو بھی بچوں کے گلے کاٹ کر اسی طرح جنت اور اس کی حوریں سامنے نظر آتی ہیں جیسے طالبان کے ’’مجاہدوں‘‘ کو نظر آتی ہیں، ابھی دھماکوں اور خودکش حملوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا، مگر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے چند ویڈیوز دیکھ کر مجھے بہت خوف اور ترس آرہا ہے کہ مستقبل قریب میں ان پرائیوٹ جتھوں کے باعث چاروں اطرف سے محصور روہنگیا پر کتنی مزید سخت قیامت ٹوٹے گی۔

[pullquote]سکیورٹی تناظر[/pullquote]
میانمر میں چالیس سے زائد پرائیویٹ مسلح گروپس موجود ہیں۔ ان میں کئی طرح کے مسلح جنگجو ہیں، کچھ سرگرم مسلح گروہ ایسے ہیں جو حکومتی اہلکاروں، تنصیبات اور مخالف گروہوں اور آبادیوں پر پُرتشدد کاروائیوں میں ملوث ہیں جن کے ساتھ وقتا فوقتا میانمر کے سیکورٹی فورسز کے مقابلے جاری رہتے ہیں۔ کچھ مسلح تنظیمیں ایسی ہیں جن سے حکومت نے سیز فائر معاہدے کیے ہوئے ہیں، کچھ تنظیموں کو کچل دی گئی ہیں، میانمر میں ان تنظیموں میں زیاددہ تر نسلی و علاقائی بنیادوں پر مرکزی حکومت سے علیحدگی و آزادی کے لیے سرگرم ہیں جبکہ کچھ بدھست اور مسلم مسلح تنظیمیں ہیں، یہ تنظیمیں بھی بنیادی طور پر نسلی اور علاقائی خود مختاری کے لیے سرگرم ہیں مگر ان کے مذہبی تشخص بھی نمایاں ہیں جس کے باعث معاملہ نسلی سے زیادہ مذہبی نظر آتا ہے

کم و بیش سارے علاقوں اور ریاستوں میں نسلی بنیادوں پر عسکریت پسندی جاری ہے، میانمر کی فورسز مختلف گروہوں کے ساتھ نبرد آزما ہیں، ان میں رخائن میں بھی کئی مسلح گروہ ہیں، ان میں اراکان روہنگیا سالویش آرمی ARSA بھی شامل ہیں۔ اس تنظیم کا نعرہ بھی نسلی بنیادوں پر روہنگیا اکثریت پر مبنی آزاد اراکان اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ میانمر کے ذرائع ابلاغ اور حکومت اسے اسلامی دہشت گرد تنظیم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

نصف صدی کی آمریت نے غربت، بدعنوانی منشیات کی خریدو فروخت، ہیومن ٹریفکنگ اور بدحکمرنی کی صورت میں اپنا ثمر دیا ہے۔ اس کی کھوکھ سے پروان چڑھنے والی برما کی بظاہر جمہوری مگر ملٹری زدہ برمی حکومت صرف سکیورٹی تناظر سے چیزوں کو دیکھتی ہے، چنانچہ مسلسل آمریت کے خلاف جدو جہد کر کے جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے پر نوبل انعام پانے والی اور حکمران پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی این ایل ڈی کی سربراہ آنگ سان سوچی جو میانمر حکومت کی کونسلر اور ویر خارجہ بھی ہے بھی روہنگیا مسئلے پر نہ صرف خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے بلکہ ’’ہم اپنے لوگوں کے تحفظ‘‘ کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں کہہ کر رونگیا کمیونٹی کی منظم نسل کشی میں شریک جرم بنی ہوئی ہے۔ اس کے سامنے آئندہ ہونے والے عام انتخابات ہیں جس میں ’’غداروں‘‘ اور برما کے ’’سارے مسائل کی جڑ‘‘ اور ’’دہشت گردوں‘‘ کے حق میں دو جملے بول کر اپنا اقتدار نہیں کھونا چاہتی۔

[pullquote]جیوپولیٹکل تناظر[/pullquote]
برما میں معدنی وسائل کے بڑے ذخائر موجود ہیں جن میں بڑی مقدار میں سونا بھی شامل ہے اور جغرافیائی لحاظ سے جنوب مشرقی ایشیا کے اہم سنگم پر واقع ہے۔ آسیان (Association of South Asian Nations) میں میانمر کو اہم حیثیت حاصل ہے۔ نیز سمندی و زمینی راستوں کے ذریعے اقتصادی سرگرمیوں کے لیے بہت زیاد مواقع کا حامل ہے۔ یہاں سے چین ، میانمر، بنگلہ دیش اور انڈیا کے گیس اور روڈ بن رہا ہے جسے ”گیس اور گن” روٹ بھی قرار دیا جا رہا ہے یعنی یہاں بھی توانائی اور دفاعی راہداری کے ذریعے مظبوط اقتصادی بندھن میں جڑ رہے ہیں۔ یہ چین کے چھ اقتصادی راہداریوں میں سے ایک ہے۔

امریکہ برمی حکومت کے ساتھ فوجی معاہدے کرنے والا ہے جبکہ اسرائیل، پاکستان اور انڈیا سمیت کئی دیگر ممالک سے بھی برما دفاعی ساز و سامان خریدنے اور فوجی تربیت لینے کے معاہدے کر رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ میانمر نیا افغانستان بن رہا ہے جہاں چین، انڈیا اور امریکہ نے اپنے جیوپولیٹکل مفادات کی کھیل تقریبا شروع کر دی ہے۔
مفادات کے کچھ فریقوں کے لیے یہاں امن اور کچھ کے لیے بدامنی سودمند ثابت ہوگی چنانچہ وہ مختلف نسلی گرہوں میں اپنے پراکسیز پیدا کریں گے پھر ان کو مطلوبہ گوریلا جنگ کے وسائل و تربیت بھی فراہم کیا جائے گا۔ حسب معمول مذہب کا تڑکا سب سے زیادہ کارگر ثابت ہو گا، اس لیے یہ خدشہ بھرپور ہے کہ برسوں سے شہری حقوق سے محروم روہنگیا مسلم کمیونٹی مزید مسلم بدھست فسادات کی ظالمانہ چکی میں پسے۔ برسوں کے گہرے زخم، محرومیاں اور ناانصافی اور انتقام کی نفسیات کے باعث کچھ ایسے ”کار آمد جوان” ملیں گے جن کو بہت موثر برین واشنگ کے بعد’’اراکان کی اسلامی ریاست‘‘ کے لیے جہاد کا ٹاسک دیا جائے گا اور ’’کفار‘‘ کے قتل عام کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ یہ عین ممکن ہے کہ روہنگیا مسلم اقلیت کے اندر سے جنوب مشرقی ایشیا کی نئی القاعدہ تنظیم کو لانچ کیا جائے۔ روہنگیا اراکان سالویشن آرمی پہلے سے ہی متحرک ہے۔ پراکسیز کی ایک نئی جنگ شروع ہو گی اور مسلم بدھسٹ فسادات میانمر کی سرحدوں سے باہر نکل سکتی ہے۔ رب رحیم سے دعا گو ہوں کہ ایسے عزائم رکھنے والوں کی خواہشیں پوری نہ ہوں، مگر ابھی تو ہوا کا رخ مخالف سمت میں ہی چل رہے۔

[pullquote]حل کے امکانات/تجاویز[/pullquote]
مطلوبہ ہنگامی و فوری اقدامات
سب سے بنیادی کام اس وقت عالمی سطح پر برما کی حکومت پر سفارتی دباؤ بڑھانا ہے تاکہ برمی آرمی کو قتل و غارت سے رکوایا جا سکے، اس کے لیے ہر ممکن اور ہر سطح پر کوشش کی جانی چاہیے، سڑکوں پر احتجاج، لابنگ، ذرائع ابلاغ پر اس ایشیو کو اجاگر کرنا، ممالک کی سطح پر سفارتی کوششیں، اور اقوام متحدہ و عالمی تنظیموں کی کاوشیں کو منظم رخ دے کر آرمی کے کریک ڈاؤن کو روکنے میں استعمال کرنی چاہیے۔ کم ازکم کام جو ہر کسی کی بس میں ہے وہ سوشل میڈیا پر مثبت انداز میں اس ایشو کو اجاگر کرنا ہے.

دوسرا کام: بڑے پیمانے پر اس قتل و غارت سے متاثر ہونے والوں کے لیے ریسکیو اقدامات، متاثرین کی فوری امداد، طبی معاونت سمیت ان کے لیے فوری قیام و طعام کی بندو بست کرنی چاہیے۔ یہ کام بھی عالمی اداروں اور ریاستوں کی سطح پر ہونی چاہیے تاکہ ایک تو فوری اور محفوظ انداز میں یہ امداد ان تک پہنچ سکے اور دوسری بات یہ کہ ظلم کی چکی میں پسی ہوئی قوم کو ان کی مجبوری سے غلط فائدہ اٹھا کر کسی غلط راستے میں نہ لگایا جا سکے جو خود ان کے لیے مزید پریشانی کا باعث ہو،

[pullquote]روہنگیا کے مسئلے کے مستقل حل کے لیے تین ممکنہ آپشنز[/pullquote]

۱۔ آزاد اراکان اسلامی ریاست کا قیام: یہ حل بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے مگر یہ برما کے لیے قابل قبول نہیں ہے، یہ ان کے لیے ایسا ہے جیسے پاکستان کے لیے آزاد بلوچستان، برما کسی قیمت پر اس حل کے لیے آمادہ نہیں ہے، وہ اپنے ملک کے ایک بڑے حصہ کو ٹوٹتا ہوا اسی طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح پاکستان اپنے مشرقی حصے کو ٹوٹ کر بنگلہ دیش نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ برما کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ آزاد اراکان ریاست کی تحریک اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کے ذریعے آگے بڑھائی جا رہی ہے جس کے پیچھے بنگلہ دیش سمیت دیگر مسلم ممالک اور القاعدہ جیسی پان اسلامسٹ انتہاپسند تنظیمیں ہیں۔ حالیہ آرمی آپریشن کی غیرمعمولی شدت کا ایک سبب یہی خوف بھی ہےوہ اس بات سے بھی خوف زدہ ہے کہ مسلم ممالک عالمی برادری کو مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے نظائر پیش کر کے مذہبی بنیادوں پر رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کریں‌گے.
برما کے لیے یہ حل اس لیے بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ دیگر ریاستوں اور ریجنز میں بھی دیگر مختلف نسلی گروہوں کی جانب سے علیحدگی و آزادی کی مسلح تحریکیں چل رہی ہیں۔ اگر اراکان کو آزادی دی گئی تو برما میں بڑے پیمانے پر ایک خوف ناک سول وار شروع ہو سکتی ہے۔ اس لیے برمی حکومت علیحدگی کی سوچ کو طاقت کے زور پر کچل دینا چاہتی ہے اور دوسروں کے لیے نشان عبرت بنانے کے لیے طاقت کا اندھا استعمال کر رہی ہے۔ اگر یہ ریاست قائم ہو جائے تو قوی امکان یہ ہے کہ برما اور اراکان دونوں‌پاکستان اور انڈیا کی طرح اپنے قومی سرمایے کو دفاع کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف ”دشمنی” پالنے میں لگاتے رہیں. عام شہریوں کی حالت زار موجودہ حالت سے کچھ زیادہ بہتر نہ ہو.

۲۔ روہنگیا کمیونٹی کی برما سے مکمل بے دخلی
برما کی حکومت کا اصولی اور قانونی موقف ابھی تک یہی ہے کہ اسے مسلمانوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ روہنگیا جو کہ برما میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر بنگالی ہیں، انہیں اپنے ملک میں واپس جانا چاہیے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ روہنگیا پر ہم احسان کر کے اپنے ہاں مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے مگر یہ کمیونٹی برمی سماج اور برمی حکومت کے لیے بے پناہ مسائل اور پریشانیوں کا باعث بنتی ہے لہذا اسے اپنے ہی آباؤ و اجداد کے ملک یعنی بنگلہ دیش واپس چلے جانا چاہیے۔ برمی حکومت یہی حل چاہتی ہے۔ چونکہ اس حل میں سارا بوجھ ایک بنگلہ دیش کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش اس حل سے بالکل متفق نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی کثیر آبادی کے باوجود کئی لاکھ روہنگیا کی میزبانی کے باعث بہت سے مسائل کا سامنا کر رہا ہے اس لیے مزید روہنگیا کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ہے۔ جب حالیہ کریک ڈاون کے باعث روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے اپنی سرحد کھولنے پر عالمی دباو آیا اور بعض مسلمان ممالک کی طرف سے پناہ گزینوں کا خرچہ اٹھانے کی پیش کش کی گئی تو بنگلہ دیش حکومت کا ردعمل یہ سامنے آیا ہے کہ جب پہلے سے موجود روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے عالمی امداد نہیں مل رہی تو مزید پناہ گزینوں کو بھی نہیں ملے گی اور خواہ مخواہ میں بنگلہ دیش کی معیشت پر دباؤ بڑھ جائے گا۔

۳۔ برمی سماج میں انضمام:
تیسرا حل روہنگیا مسلمانوں کا برمی سماج میں انضمام ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کا عمومی نقطہ نظر یہی ہے۔ یہی حل سب سے مناسب، کم خون ریزی والا، قابل عمل اور دیرپا ہے۔ اس حل کے لیے دنیا کے سارے ممالک اپنا اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں اور روہنگیا کو برمی معاشرے میں انضمام کے لیے برمی حکومت کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں۔

اس حل کے دو مراحل ہیں:
الف: پہلا مرحلہ قانونی ترمیم کے لیے سیاسی جدوجہد کا ہے۔ چونکہ مسئلے کی جڑ بھی اور اس کا مستقل حل بھی حق شہریت سے جڑی ہوئی ہے اس لیے برما پر مزید سفارتی اور انسانی حقوق کی سطح پر دباؤ بڑھا کر ۱۹۸۲ کے قانون شہریت میں ترمیم کروا کر روہنگیا کو شہریت اور تحفظ دلانے کی کوششیں تیز کی جائیں. اس میں دونوں فریق تعاون کی فضا کو قائم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں. حالات میں قدرے بہتری آنے پر خود روہنگیا کے مذہبی و سیاسی قائدین کو بھی اس معاملے میں اعتماد و تعاون کی فضا کو پروان چڑھانے کے لیے اقدامات تیز کرنے چاہئیں۔

مستقل حل کا دوسرا مرحلہ: سماجی اور مذہبی مکالمہ و ہم آہنگی کا فروغ ہے، جو کہ ایک مستقل اور ہمہ جہت معاملہ ہے۔ روہنگیا کو برمی معاشرے میں سماجی انضمام کے لیے ضروری ہے کہ خوف، شک اور بد اعتمادی کی فضا کو بدلا جائے، اس کے لیے اداروں اور تنظیموں کے توسط سے تعلیمی، تربیتی، ثقافتی اور تجارتی سطح پر روہنگیا اور دیگر نسلی و مذہبی گروہوں کے مابین مشترکہ سرگرمیوں کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
مذکورہ کام بہت وقت طلب و محنت طلب ہے جس کے لیے خطیر سرمایہ اور کثیر تعداد میں باصلاحیت افرادی قوت درکار ہے۔ اس معاملے میں اقوام متحدہ سمیت عالمی سطح پر ہم آہنگی، مکالمہ اور سماجی انضمام کے لیے کام کرنے والے ادارے وسائل فراہم کر سکتے ہیں۔

[pullquote]تین اہم مشورے[/pullquote]

پہلا: یہ دانشمندی کے بالکل برخلاف ہے کہ روہنگیا کو ایک مذہبی ایشیو بنا کر پیش کیا جائے. اس کے روہنگیا کاز کے لیے دو طرفہ نقصان ہے. پہلا یہ کہ ایسا کرنے سے معاملہ ہنگامی نوعیت کے انسانی المیے کے دائرہ کار سے محدود تر ہو کر مذہبی ہونے کے باعث بین الاقوامی برادری اس سے تقریبا غیر متعلق قرار پاتی ہے، یہ تو اظہر من الشمس ہے کہ مسلمان ممالک کے پاس اتنی قوت فیصلہ نہیں ہے کہ وہ عالمی برادری کے تعاون کے بغیر محض مذہبی بنیادوں پر روہنگیا کے مسئلے کو حل کی طرف بڑھانے میں کوئی کردار ادا کرسکیں۔ دوسرا نقصان مسئلے کو سیاسی و قانونی گراونڈ سے نکال کر مذہبی بنانا خود برمی حکومت کا ایجنڈا ہے، روہنگیا کے انسانی المیے کو مذہبی رنگ دینے سے روہنگیا کے لیے مسائل میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے. ایسا کر کے برمی حکومت اپنے دائرہ اثر کو برمی حکومتی مشینری سے پھیلا کر پوری بدھسٹ کمیونٹی کو اس میں‌فریق بنا لیتی ہے. یوں روہگنیا کے مقابلے میں دوسرا فریق کا پلہ کئی گنا زیادہ بھاری ہو جاتا ہے. اور یہی برمی حکومت کے ایجنڈے کی تکمیل ہے.

دوسرا: روہنگیا المیے سے منسوب کی گئی جھوٹی خبریں، ویڈیوز اور تصاویر کس قدر پھیل چکی ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ترکی کے نائب وزیر اعظم محمت سمسیک جیسے اعلیٰ عہدہ دار کو بھی اپنی ٹوئٹر پر شیئر کی ہوئی چار تصاویر کو جعلی ثابت ہونے کی بنیاد پر تین دن بعد بڑی سبکی کے ساتھ ہٹانی پڑیں۔ لہٰذا سچے مقدمے کو جھوٹ کا سہارا دے کر کمزور نہ کریں۔

تیسرا: روہنگیا کے المیے کو بنیاد بنا کر موقع پرست انتہاپسند عناصر کے ایجنڈے کا حصہ بننے سے ہوشیار رہیں۔ روہنگیا کے مسئلہ کا حل کسی بھی طرح فوجی کاروائی اور عسکریت پسندی میں نہیں ہے۔ اسے ریاستوں کے راستوں سے ہی سیاسی و سفارتی سطح پر حل کیا جا سکتا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں سے بھرپور ہمدردی کے باوجود کسی بھی ایسی تنظیم کی معاونت نہیں کی جا سکتی جو چاروں اطرف سے مسائل میں گھری ہوئی روہنگیا کمیونٹی کے لیے مزید پریشانیوں کا باعث بنے۔ جبکہ برما میں جہاد کے لیے دی جانے والی اپیلوں پر مبنی بہت سے ویڈیو پیغامات سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔

آخر میں رب کریم و رحیم سے دعا گو ہوں کہ برما کے ستم رسیدہ روہنگیا کمیونٹی پر اپنی رحمتیں‌ نازل فرما اور ان کے لیے امید سحر کی کرنوں کو جلد روشن فرما.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے