اسلام اور موسیقی : معتدل نقطہءِ نظرکیا ہونا چاہیے؟
نیت کے وضو سے مضمون شروع کیا ۔ دعا کی کسی طرح کا ذاتی تعصب آڑے نہ آئے۔ نفس کا کوئی بہکاوا اثر انداز نہ ہوسکے اور خدا صحیح صحیح بات کہلوادے۔آج ہمارے رویوں میں نیتوں پر حملے عام ہیں۔خبر ہے شدید رجحانات کے نشانے پہ آسکتا ہوں پر خطرہ اس سے کہیں بڑا ہے اور کائنات کا خدا سب سے بڑا جس باعث عجب استغنا طبیعت میں پاتا ہوں۔
اے اہلِ ایمان: اگر ایک حد شعوری کیفیت کے ساتھ توڑ دی جائے تو باقی سب کو توڑ ڈالنا آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔اگر دین کی ایک بنیاد سوچ سمجھ کے ڈھادی جائے تو باقی بنیادیں ڈھانے میں انسان جری ہوتا چلاجاتا ہے۔ اگر ایک حرام کا شوق سے ارتکاب کرلیا جائے تو سب حرام کا ’ذوق‘ بنتا چلا جاتا ہے۔اگر کوئی جانتا ہے کہ خدا کسی چیز کو سختی سے ممنوع کرتا ہے لیکن پھر بھی کرڈالتا ہے تو اس میں وہ خطرناک نفسیاتی تبدیلیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو پورے دین کو کھیل بنا ڈالتی ہیں ۔ یہ وہ کسک تھی جس وجہ سے یہ مضمون لکھنے پہ مجبور ہوا۔
اسلام میں حرام قرار دینا بہت مشکل کام ہے۔ اس لیے کہ یہ ہدایت انسانوں کی سہولت کے لیے نازل کی گئی ہے مشقت کے لیے نہیں۔اہلِ علم کے مطابق کسی چیز کو تین بنیادوں پہ حرام قرار دیا جاسکتا ہے:
۱۔ کسی ’صریح ‘قرآنی آیت کی بنیاد پہ
۲۔ کسی ’صحیح اور صریح ‘حدیث کی بنیاد پہ
۳۔ اجماع کی بنیاد پہ
یعنی اگر اس کو الٹ دیا جائے تو غیر واضح آیت ، ضعیف حدیث یا اجماعِ امت کے بغیر کسی چیز کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایک اور انفرادی بنیاد قیاس یا اجتہادبھی ہے جو دلیلِ شرعی کے طور پہ استعمال ہوتی ہے لیکن یہ دلیلِ قطعی نہیں بن سکتی تا وقتیکہ اجماع قائم ہوجائے۔ تو۔۔۔ اگر کسی معاملے میں امت کے اندر ایک سے زائد آرا معروف ہیں تو کھلے طور پہ ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ معاملہ ترجیح عدمِ ترجیح ، بہتر اور بہترین ، کم درست زیادہ درست کا ہوسکتا ہے پر حلال و حرام کا نہیں۔ اور فردکو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ دلیل کی بنیاد پہ (خواہشِ نفسی پر نہیں)کسی رائے کو اختیار کرلے اور دوسرے کے خلوص پر شک نہ کرے۔خدا نے حرام کو مبہم نہیں رہنے دیا ۔
برصغیر کا مخصوص مزاج ، مخصوص حالات کے زیرِ اثر منفیت کی طرف زیادہ رجحان رکھتا رہاہے۔یہ نہایت عجیب ہوگا کہ ہم اپنے ذاتی رجحانات اور تعصبات کے تحت حق تک پہنچنے کی کوشش کریں ۔ ایسا شخص خدا کی راہ کھوٹی کر بیٹھے گا۔موسیقی کی معاملے میں بھی امت میں ایک سے زائد آرا ہمیشہ سے موجود رہیں ہیں اور رہیں گی۔کوئی کہے مسلمانوں میں یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا تو ہم کہیں گے آپ درست کہتے ہیں لیکن کوئی کہے کہ موسیقی حرام ہے تو مندرجہ بالا اصولوں کے تحت اِسے ثابت کرنا پڑے گا۔ہم یہاں اثبات میں کچھ عرض کریں گے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے آن ائیر تسلیم کیا کہ موسیقی کی حرمت میں قرآن میں کوئی آیت نہیں اتری۔ کیا عجیب بات نہیں لگتی کہ اگر یہ برائی شراب اور زنا جیسی تھی تو ایک لفظ خدا نے اس کی حرمت میں نازل نہیں کیا؟ ؟ کیا اس دور میں یہ عام نہیں تھی؟؟ کیا اس سے متعلق کوئی لفظ اْس دور میں موجود نہیں تھا؟؟ تو کیا وجہ رہی کہ خدا جو حرام کو کھول دیتا ہے اس بارے میں کوئی ادنٰی بات بھی نہیں کہتا؟؟یعنی اثبات کے حامیوں کے دعوے کے مطابق کوئی ایک ’صریح‘ آیت بھی قرآنِ حکیم سے حرمت میں پیش نہیں کی جاسکتی۔۔۔دوست کہتے ہیں کہ لھوسے ’مراد‘ کچھ مفسرین نے غنا لیا ہے۔ تو عرض ہے کہ مراد تو اشارے کو ظاہر کرتی ہے اور تفسیر تو ذاتی غور و فکر اور نتائج تحقیق ہے ۔ مزید برآں اس لفظ کی تشریح میں علما میں اختلاف موجود ہے ۔ قرآن تو دنیا کے بارے میں بھی یہی لفظ استعمال کرتا ہے تو کیا یہ زندگی حرام ہوگئی؟؟جب کہ حرام قرار دینے کے لیے ’صریح‘ ہونا ضروری ہے۔
اسی طرح کوئی ایک ’صریح اور صحیح‘ حدیث بھی حرمت کے حق میں پیش نہیں کی جاسکتی۔ ایسی حدیث جو محدثین کے معیار کے مطابق ’صحیح‘ بھی ہو اور واضح یعنی ’صریح‘ بھی۔مخالفت میں پیش کی جانے والی تمام احادیث پر ماہرینِ حدیث کی تنقید موجود ہے اور وہ تمام ضعیف کے زمرے میں آتی ہیں جب کہ اصول کے مطابق ضعیف حدیث کی بنیاد پہ کوئی چیز حرام قرار نہیں دی جاسکتی۔ ایک حدیثِ بخاری جسے اس ضمن میں وزن کے طور پہ لیا جاتا ہے وہ ہے جس میں معازف کا ذکر آیا ہے ۔ لیکن یہ بھی بخاری کی ’معلق ‘روایات(جس کے سلسلہءِ سند میں خلا موجود ہویعنی ضعیف) میں سے ہے جسے حرام قرار دینے کے لیے پیش نہیں کیا جاسکتا۔ نیز خود معازف کے معانی میں علما کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ پھر اس کی سند میں ایک راوی ہشام بن عروہ موجود ہیں جن کو ائمہ ءِ حدیث نے ضعیف ٹھہرایا ہے۔
لہذا ماہرین نے اس حدیث سے حرمت کے استدلال کو رَدّ کردیا ہے۔ مزید اگر دعوے کے مطابق موسیقی کھلی حرام اور گمراہی ہے تو اس کے حق میں احادیث اور آثار نہیں ملنے چاہئیں ۔ لیکن کئی مضبوط روایات حق میں گواہی دے رہی ہیں(جیسے بخاری کی حضرتِ عائشہ والی اور انصار کے ہاں گانے بجانے والی بھیجنے سے متعلق ، ایک جگہ فرمایا کہ ذرا یہود بھی جان لیں کہ ہمارے دین میں آسانی ہے) ۔ ایک اور روایت حضرتِ ابنِ عمرؓ والی پیش کی جاتی ہے کہ بانسری کی آواز سن کے حضور ﷺ نے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور اِن سے آواز ختم ہونے سے متعلق پوچھتے رہے۔ یہ روایت خود موسیقی کے حق میں دلیل ہے کہ یہ حرام ہوتی تو ابنِ عمر کی انگلیاں بھی کا نوں میں ڈلوائی جاتیں۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ نبی نے کوئی حرام کام کیا یا اس کے سامنے کیا جارہا تھا اور انہوں نے اجازت دیے رکھی یا صحابہ کو منع نہ کیا تو وہ متفقہ طور پہ کافر ہے۔تو ماہرینِ حدیث نے اس روایت کی تاویل کی اور حرمت کے لیے استدلال کو ناکافی قرار دیا۔مطلب کسی چیز کو حرام قرار دینے کے لیے دلائل کا قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہونا لازم ہے۔
اب آئیے تیسرے اصول کی طرف
تو موسیقی کی حرمت پہ اجماع کسی دور میں بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اتنے بڑے بڑے کوہِ ہمالہ بزرگ موسیقی کے حق میں ہیں کہ اگر نام لیے جائیں تو آنکھیں ان کی عظمت کی وجہ سے بے اختیار جھک جائیں۔ جن کی علمی سیادت اور تقوٰی پر امت متفق ہے۔دورِ صحابہؓ سے لے کے آج تک اثبات میں طویل فہرست ہے جو کبھی کسی حرام کے سلسلے میں فراہم کی ہی نہیں جاسکتی۔ ایک دو تین کو سہو ہو سکتا ، غلطی ہو سکتی ہے لیکن برابر ہردور میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ہم مضمون کے اختصار کے باعث صرف چند نمائندہ نام اور کچھ حوالے پیش کریں گے جو مزید تحقیق کا ذوق رکھنے والوں کے لیے راہنمائی کریں گے جیسے:
دورِ صحابہؓ سے
حضرت عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب جو جعفر طیارؓ کے بیٹے، حضرت علیؓ کے داماد ، بھتیجے اور جلیل القدر صحابی ہیں۔ یہ دھنیں خود سے بھی ترتیب دیتے تھے اور لونڈیاں بھی پاس تھیں۔ عبداللہ بن زبیرؓ جو حضرت عائشہؓ کے بھانجے، یکے از عشرہ مبشرہ زبیر بن العوامؓ اور حضرتِ اسماؓ کے بیٹے اور مشہور صحابی ہیں جن کی خلافت بھی کچھ عرصہ موجود رہی۔حضرات مغیرہؓ بن شعبہ ،امیر معاویہؓ ، عمروؓ بن عاص اور ایک روایت کی حد تک عبداللہؓ بن مسعود، حسّان بن ثابت، عثمانؓ بن عفان، براؓ بن مالک وغیرہ۔
دورِ تابعین و تبع تا بعین سے: حضرت شریح بن حارث جو 50سال حضرت عمرؓ کے دور سے لے کر چیف جسٹس رہے۔ یہ ماہرِ موسیقی تھے۔ سید التابعین سعید بن مسیّب ، ابنِ جریج، ابنِ دقیق العید، امام شعبی، ابنِ ابی عتیق،امامِ مکہ عطا بن ابی رباح،مفتی ءِ مدینہ عبد الملک بن ماجشون ،مشہور محدث شعبہ ،حضرت عبدالرحمن بن عوف کے پڑپوتے اور امام شافعی ، امام بخاری ، امام احمد بن حنبل ، امام لیث بن سعد، شعبہ کے استادابراہیم بن سعد۔۔۔امام ابو حنیفہ جامع صغیر کی ایک روایت کی رو سے ،امام داؤد طائی، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، وغیرہ
بعد کے ادوار سے
مسلمانوں نے علمِ موسیقی کی سرپرستی کی اور اسے عروج تک پہنچایا۔ انہوں نے سْر ، تانیں، ساز، راگ ایجاد کیے اور پھیلائے بھی۔حجتہ الاسلام حضرت امام غزالی نے اپنی معرکتہ الآرا تصنیف احیاالعلوم میں اس پورے موضوع کا عقلی نقلی طور پہ ٹھوس تجزیہ پیش کیا ، اعتراضات کا جواب دیا اور حدود بھی بیان کی ہیں۔امام عبدالغنی نابلْسی نے پوری کتاب لکھی اور مسکت دلائل دیے۔ دنیا کی تاریخ کے بہت بڑے نام اور امامِ اہلِ مغرب ابنِ حزم نے تجزیہ پیش کیا اور اثبات کے حق میں وزن ڈالا۔۔۔ ابو نصر فارابی ، ابنِ سینا، ابوالوفا جوزجانی ،مشہور محدث، فقیہ اور شیخ الصوفیہ ابو طالب مکی،امام الفقہا والمحدثین عزالدین بن عبد السلام، امام عبدالوہاب شعرانی،شیخ الاسلام امام تقی الدین سبکی،امام شوکانی، ابنِ عربی، معروف حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین شامی،امام عسقلانی اور اقبال کے مرشد مولائے روم ،مشہور مفسر علامہ طنطاوی وغیرہ وغیرہ
برصغیر میں علمِ حدیث جس شخصیت کی وجہ سے متعارف ہوا وہ حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی ہیں۔ یہ موسیقی کے اتنے بڑے ماہر تھے کہ دہلی کے موسیقاروں میں اختلاف ہوتا تو فیصلہ شاہ صاحب فرمایا کرتے۔حضرت نظام الدین اولیا زندگی میں صرف ایک بار دربار میں گئے اور وہ بھی غنا کے دفاع کے لیے۔ وہاں موجود تمام مخالفین کو کمزور دلائل کے باعث خاموش ہونا پڑا۔ مشہور ولی اور حضرت نظام الدین کے شاگردِ خاص جناب امیر خسرو نے انسانی نفسیات کے مطابق مشہور زمانہ سات سروں کی سرگم متعارف کروائی جس میں آٹھویں سْر کا اضافہ آج تک نہ کیا جاسکا۔حضرت خواجہ میر درد، خواجہ ناصرالدین عندلیب، خواجہ سعد اللہ گلشن، بہا الدین زکریا ملتانی، حضرت معین الدین چشتی سمیت لامتناہی سلسلہ ہے۔۔۔ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی علومِ موسیقی کے ماہرین میں سے تھے جن کی علمی دھاک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر انگریزوں کی بہت لائق حکومت درمیان میں نہ آتی تو ہر طرف شاہ صاحب کے علوم کا چرچا ہوتا۔نواب محمد صدیق حسن خان جو مشہور عالم ہیں باقاعدگی سے محفل آراستہ کرتے۔ اردو میں مشکوٰۃ کی سب اہم شرح ’مظاہرِ حق‘ ہے جس کے مولف نواب محمد قطب الدین خان دہلوی ہیں اور یہ موسیقی کے حق میں نہیں لیکن۔۔۔ اپنی شرح میں غنا سے متعلق ایک سے زائد جگہوں پہ بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ: فقہا نے اس معاملے میں تشدد اختیار کیا اور انکار کیا، محدثین نے اقرار کیا اور صوفیا نے اختیار کیا۔۔۔اسی طرح حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں، قاضی ثنااللہ پانی پتی، اورنگزیب عالمگیر کے استاد ملا جیون جو مخالف واقع ہوئے ہیں پر حلّت و حرمت کی بحث میں فراخ دلی کے ساتھ اختلاف بیان کرتے ہیں۔
دورِ جدید میں
مولانا ابو الکلام آزاد جو کچھ کے نزدیک امام الہند ہیں، نے اپنی کتاب میں راگوں اور سروں کا تفصیلی تعارف کروایا۔ مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی نے اردو زبان کی مبسوط کتاب جو 180کتب کا نچوڑ ہے پیش کی۔ مجددِ علوم سیرت اور قراردادِ مقاصد کے خالقوں میں سے ایک ڈاکٹر حمید اللہ نے مشہور خطباتِ بہاول پور میں حق کے اندر دلائل اختیار کیے۔ قرآنِ حکیم کے مشہور انگلش مترجم علامہ اسدکو پڑھیے، جن کے بارے میں مولانا مودودی نے کہا تھا کہ مغرب نے سب سے قیمتی ہیرا جو ہماری جھولی میں ڈالا ہے وہ اسد ہیں۔ یہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک چئیر کے بانی ہیں، پاکستان بننے کے بعد Department of Islamic Reconstruction کے صدر قائدِ اعظم کی جانب سے مقرر ہوئے، اس ڈیپارٹمنٹ کا کام ملک کے شعبہ جات کو اسلامی رنگ میں رنگنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دینا تھا۔موجودہ دور میں روئے ارض کے ممتاز ترین فقیہ او ر مشہور اخوانی راہنما ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنے مخصوص انداز میں قلم اٹھایا اور تفصیلی جائزہ پیش کرنے کے بعد موسیقی کو جائز قرار دیا۔ سنا ہے ان کی کتاب ’اسلام میں حلال و حرام‘ کے بارے میں مولانا مودودی نے فرمایا کہ یہ ہر گھر کی لائبریری میں موجود ہونی چاہیے، اس کتاب میں بھی یہ بحث 5صفحات پہ پھیلی ہوئی ملتی ہے۔ گو مولانا مودودی حلّت کے حق میں نہیں لیکن ان کا جنازہ پڑھانے والے ڈاکٹر قرضاوی اس کو انسانی نفسیات کی ضرورت اور خوبصورت معتدل معاشرت کے لیے اہم سمجھتے ہیں۔اسی طرح دورِ حاضر میں پروفیسر احمد رفیق اختر، سید سرفراز اے شاہ وغیرہ
یہ چند اشارے ہیں جن سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ گانا اور موسیقی حرام و حلال والا معاملہ نہیں۔ موسیقی کے انکار کی طرف جو لوگ مائل ہوئے وہ بھی کوئی معمولی نام نہیں لیکن حلّت و حرمت کوئی زبان کے کھیل نہیں کہ حرام حرام کی آوازیں بے تکلف لگائی جائیں۔ اب خود جان لیجیے کہ موسیقی اختیار کرنے والوں کو حرام میں مبتلا کہنے سے بات کی نسبت کہاں تک پہنچتی ہے، کون کون سی ہستیاں زد میں آتی ہیں۔ کیا عجیب نہ لگے گا کہ میرے جیسا کم علم اٹھ کے کِہ دے کہ یہ سب قرآن و سنت کے بیّن احکامات سمجھ ہی نہ سکے۔کئی صالحین موسیقی کو مباح سے اٹھا کے مستحب کے درجے تک سمجھتے ہیں۔ علامہ جوہری طنطاوی کا خوبصورت جملہ ہے کہ ’پوری کائنات ہی ایک موسیقی ہے‘۔ حضرت داؤد خدا کے جلیل القدر پیغمبر تھے اور زبور موسیقیت میں رچی بسی ہے، جس کے تاثر کی متاثر کن مثالیں ہماری روایات میں موجود ہیں۔ موسیقی انسانی مزاج، نفسیات اور سماج کا ہمیشہ سے لازمی حصہ رہی ہے۔ صالحین اس کے ساتھ خدا کے قرب کی منزلیں طے کرتے ہیں۔لیکن کون سا گانا ، سماع اور موسیقی؟؟؟
گانا، سماع اور موسیقی صحیح ہونے کی شرائط
دورِ جدید کے ممتاز ترین فقیہ اور اخوان المسلمون کے اکابرین میں سے ایک ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے گانا اور موسیقی کے درست انعقاد کی کچھ شرائط بیان کی ہیں۔ اکابر علما نے پہلے بھی یہ آداب کھول کھول کے بیان کردیے ہیں۔ ہم یہاں خلاصہ درج کیے دیتے ہیں:
*گانے کے بول اسلامی تعلیمات اور آداب کے خلاف نہ ہوں
*اسلامی تہذیب کے منافی کوئی بات شامل نہ ہو
*شراب، زنا کی رغبت نہ پائی جاتی ہو
*ادائی کا طریقہ اسلامی آداب کے مطابق شائستہ ہو
*جذبات کو (منفی طور پہ) بھڑکانے والا اہتمام نہ ہو
*زندگی کے دوسرے اہم کام ضائع نہ ہوں
*انسان مسلسل اپنے قلب و ضمیر (جج) کو جھنجھوڑتا رہے اور جائزہ لیتا رہے کہ وہ ناجائز چیزوں کا مرتکب تو نہیں ہورہا
کچھ عام اعتراضات
ہمارے کچھ مخالف دوست یہ شرائط سن کے بیا ن کرتے ہیں کہ آخر آپ ہی بتائیے کہ آج کے گانے کیا ان شرائط کے مطابق ہیں؟ عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ سنتے ہی نہیں تو آپ کو کیسے علم ہوگیا کہ آج کے گانوں میں مندرجہ بالا شرائط والے موجود نہیں ہیں، یقیناََ موجود ہیں۔ پھر کچھ کہتے ہیں کہ شک والی چیز سے بچنا ہی مناسب ہے تو یہ بات درست ہے کہ اگر کوئی شخص حلال و حرام کے شک میں مبتلا ہے تو وہ شک دور ہونے تک مجتنب رہے پر دوسروں پہ فتوے تو نہ لگائے ، خاموش رہے اور تحقیق جاری رکھے۔ اشتباہ علم سے دور ہوتا ہے۔
کچھ کہتے ہیں کہ اجازت دے دی تو بات کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی اور فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ تو عرض ہے کہ کیا ہم خدا اور اس کے رسولﷺ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ اس احتیاط کے نام پہ دین کو مشکل تر تو نہ بنائیں کہ لوگ ڈر کے بھاگ جائیں۔ موسیقی برصغیر کی بنیادوں میں شامل ہے۔ علم دیجیے، نیکی و بدی کا شعور سکھائیے، غیر ضروری بند نہ باندھیں کہ سیلاب سے یہ ٹوٹ جایا کرتا ہے۔ پھر دل میں ایک کام کو حرام سمجھتے ہوئے کرنے والوں کے لیے ہر صحیح بند توڑنا بھی آسان ہوجاتا ہے۔ خوفناک جسارت جنم لیتی ہے جو ہماری کوتاہی کے باعث دین کو ناقابلِ عمل شے سمجھتے ہوئے سماجی منافقت پیدا کرتی ہے ۔ یعنی دین کو مقدس اورناقابلِ عمل ساتھ ساتھ سمجھتے ہوئے گناہ کے جذبات لیے کشتوں کے پشتے لگاتی شک تک پہنچا دیتی ہے اور آگے بڑھتے ہوئے الحاد کے رستے پہ بھی ڈال دیتی ہے۔ اس لیے جو خدا کِہ رہا ہے اس میں اپنے مزاج کو شامل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
ہمیں کتنے ہی جیّد علما سے اس معاملے میں تفصیلی گفتگو کا موقع ملا اور ان میں سے کسی کے پاس موزوں حرمت کی دلیل نہیں تھی۔ کئی ہم سے متفق ہوئے اور کئی احتیاط سے اتفاق کرتے رہے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے ہمیں موسیقی کے حق میں کتب کے حوالے بھی فراہم کیے۔ مزے کی بات ہے کہ مولانا فضل الرحمن، حامد سعید کاظمی اور جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان کے انٹرویوز خود عاجز نے پڑھے یا سنے جس میں انہوں نے موسیقی سننے کا اعتراف کیا۔ حامد سعید کاظمی نے مہدی حسن اور نعمت اللہ خان نے نور جہاں کی پسندیدگی سے متعلق بتایا۔
قولِ فیصل
ڈاکٹر قرضاوی ان علما کو جو لفظ حرام کو کھیل اور مذاق تصور کرتے ہیں اور فتوؤں میں بڑی آسانی سے کسی چیز حرام قرار دیتے ہیں ، کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہیں اللہ کا خوف دامن گیر ہونا چاہیے۔ لفظ حرام کوئی معمولی لفظ نہیں ۔ کسی شے کو حرام قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس بارے میں اللہ کا حکم سناتے ہوئے پابندی لگادی ہے۔ اگر واقعی یہ چیز اللہ کی نظر میں حرام نہ ہوئی تو آپ اللہ پر افترا پردازی کے گناہ گار ہوں گے۔ کسی چیز کو حرام قرار دینا اتنا آسان معاملہ نہیں کہ کہ آپ محض اپنے مخصوص سخت مزاج کی وجہ سے یا محض اندازے کی بنیاد پریا کسی ضعیف حدیث کی بنیاد پر کسی شے کو حرام قرار دیں۔ جب تک کہ اس کی حرمت ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث سے کوئی واضح اور صریح دلیل موجود نہ ہو۔امام مالک فرمایا کرتے تھے کہ میرے لیے اس سے سخت بات کوئی نہیں کہ مجھ سے کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں پوچھا جائے۔ اس لیے کہ کسی چیز کو حرام یا حلال قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس بارے میں اللہ کا فیصلہ سنا دیا ہے اور یہ کام انتہائی ذمہ داری کا ہے۔ امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے اہلِ علم اپنے فتوؤں میں یہ کہنے سے گریز کرتے تھے کہ فلاں چیز حرام ہے اور فلاں چیز حلال۔ سلف صالحین کا منہج یہ رہا ہے کہ وہ کسی شے کو حرام کہنے کی بجائے کہتے تھے کہ میری رائے میں یہ چیز مناسب ہے یا ناپسندیدہ۔
زیرِ بحث موضوع پہ دو آرا موجود رہی ہیں۔ لہذا دلیل کی بنیاد پہ اختیار یا انکار کا حق سب کے پاس موجود ہے۔ اس لیے اگر کوئی دلیل سے موسیقی اختیار نہیں کرنا چاہتاتو یہ اس کا حق ہے اور حسن نیت کا اجر (ان شاء اللہ) پائے گا۔ لیکن دلیل کی بنیاد پہ اختیار کرنے والوں کو اجر ان کی نیت کی بنا پہ ملے گا۔ اس لیے طنز، تمسخر، استہزا اور نیت پہ حملوں سے بچنا چاہیے اور علم، اخلاق اور ظرف کے راستے پہ چلنا چاہیے۔ آخر میں اس موضوع کے حق میں اردوزبان میں موجود چند کتب کے حوالے درج کیے جارہے ہیں ، تاکہ جو تفصیلی مطالعہ چاہیں وہ اپنی زبان میں فائدہ اٹھا سکیں
*اسلام اور موسیقی ۔۔۔مولانا محمد جعفر شاہ پھلواروی
*غبارِ خاطر۔۔۔مولانا ابوالکلام آزاد
*خطباتِ بہاول پور۔۔۔ڈاکٹر حمید اللہ
*اسلام میں حلال وحرام۔۔۔ڈاکٹر یوسف القرضاوی
* فتاوٰی۔۔۔ڈاکٹر یوسف القرضاوی
*اسلام اور فنونِ لطیفہ۔۔۔ڈاکٹر یوسف القرضاوی
*مظاہرِ حق۔۔۔ نواب محمد قطب الدین خان دہلوی
*سازوں کے ساتھ قوالی کی شرعی حیثیت۔۔۔امام عبدالغنی نابلْسی
*شاہراہِ مکہ۔۔۔علامہ محمد اسد
*ہماری موسیقی۔۔۔ادارہ مطبوعاتِ پاکستان
*نظام الدین اولیا۔۔۔ابوالحسن علی ندوی
*اسلام اور موسیقی۔۔۔امام غزالی
*احیا العلوم۔۔۔امام غزالی
*کیمیائے سعادت۔۔۔امام غزالی
*آبِ کوثر۔۔۔شیخ محمد اکرام
*کہے فقیر۔۔۔سید سرفراز اے شاہ
*مجموعہ پروفیسر احمد رفیق اختر (۱)
اب کچھ ان کتب کا تذکرہ کرتے ہیں جو موجود ہیں لیکن ہماری رسائی نہیں ہوسکی یا وہ اردو میں موجود نہیں۔
ابطال دعویٰ الاجماع عل تحریم مطلق السماع ۔۔۔۔۔امام شوکانی
اتحا ف السادہ ۔۔۔۔۔علامہ مرتضٰی زبیدی
احقاقِ حق۔۔۔۔۔ مولانا عبدالباری فرنگی محلی
اخبار الاخیار۔۔۔۔۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی
الاستیعاب۔۔۔۔۔ابنِ عبدالبر
اشعۃ اللمعات ۔۔۔۔۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی
اصل الاصول۔۔۔۔۔ امام فخرالدین رازی
اقتناص السوانح۔۔۔۔۔ابنِ دقیق العید
انسابِ سمعانی۔۔۔۔۔ امام المروزی شافعی
البدایۃ والنہایۃ۔۔۔۔۔ حافظ ابنِ کثیر
تاریخ ابنِ خلدون۔۔۔۔۔ علامہ ابنِ خلدون
تاریخِ بغداد۔۔۔۔۔ خطیب بغدادی
تقریب التہذیب۔۔۔۔۔ ابنِ حجر عسقلانی
الجامع الصحیح البخاری۔۔۔۔۔امام بخاری
جامع ترمذی۔۔۔۔۔امام ترمذی
صحیح مسلم۔۔۔۔۔امام مسلم
جواز السماع والمزامیر۔۔۔۔۔ محمد بن طاہر المقدسی
الحاوی الکبیر۔۔۔۔۔ امام ماوردی
سماع و حدت الوجود۔۔۔۔۔ قاضی ثنا اللہ پانی پتی
العقد الفرید۔۔۔۔۔ امام قرطبی
قرع الاسماع فی بیان احوال القومو اقوالہم فی السماع۔۔۔۔۔عبد الحق محدث دہلوی
قوت القلوب۔۔۔۔۔ ابو طالب مکی
وغیرہ وغیرہ