میں سڑک پرپیدا ہونے والی بچی ہوں!

انسانیت کی تذلیل اور بے توقیری کہیں یا حکومت کی لاپرواہی، کچھ بھی کہا جائے عقل دنگ رہ جاتی ہے، ضمیر ملامت کرتا ہے، اِک آہ نکلتی ہے، کرب محسوس ہوتا کہ ایسا ہوتا ہی کیوں ہے؟

واقعہ یہ ہے کہ رائیونڈ میں ایک بھٹہ مزدورزچگی کےلیے اپنی اہلیہ کو ایمرجنسی کی حالت میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کی زیرنگرانی میں بننے والے تحصیل ہیڈ کوارٹراسپتال لے کرگیا تومعلوم ہوا کہ اسپتال میں مسیحا کہلانے والے ڈاکٹرزاپنی ڈیوٹی پرموجود ہی نہیں جو اس خاتون کے کرب کو دورکرسکیں۔ ’ڈاکٹرمسیحا ہوتے ہیں،‘ شاید یہ جملہ ہی اس وقت شرمسارہوگیا تھا، شاید زمین وہیں پھٹی ہو اور یہ جملہ دفن ہوگیا ہو۔

بھٹہ مزدورڈاکٹروں کی عدم موجودگی پراپنی اہلیہ کو لے کراسپتال کے باہر بے یار و مددگار آگیا کہ اسی دوران ماں نے بیٹی کو سڑک کے قریب چوک کے بیچوں بیچ جنم دے دیا جہاں سب ہی موجود تھے؛ اور یوں وہ بچی کسی اسپتال میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ سڑک پرپیدا ہونے والی بچی بن گئی۔

ذرا سوچیئے تو! اس طرح بے یار و مددگار پیدا ہونے والے بچے جب بڑے ہوں گے تو کیا سوچیں گے کہ وہ کسی اسپتال میں نہیں پیدا ہوئے بلکہ انہیں بیچ سڑک پر ان کی ماں نے جنم دیا تھا، جو اُس وقت سب سے زیادہ مجبورتھی کیونکہ اسپتال میں سہولیات تو تھیں لیکن ڈاکٹرزاپنی اپنی ڈیوٹی پرموجود نہیں تھے۔

رائیونڈ کے تحصیل ہیڈ کوارٹراسپتال کی تعمیرکا بجٹ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کی جانب سے پہلے 43 کروڑ روپے رکھا گیا تھا۔ تاہم مزید سہولیات کا مطالبہ کرنے پروزیراعلی پنجاب نے اسپتال کو فراہم کی جانے والی رقم مزید بڑھادی تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات مہیا کی جائیں۔ پر آہ! یہ سہولیات اور پستے عوام!
70 کروڑ روپے کی خطیررقم سے مکمل ہونے والے اس تحصیل ہیڈ کوارٹراسپتال میں 60 سے زائد بیڈ تو ہیں، سہولیات بھی ہیں اوروہ حاملہ خاتون اپنے بچی کو اِس اسپتال میں جنم بھی دے سکتی تھی مگرافسوس صد افسوس کہ بڑے سے اسپتال میں ایک بیڈ پراس خاتون کو طبی امداد نہیں نہ مل سکی کیونکہ وہاں ڈاکٹرہی نہیں تھے جو مسیحا سمجھے جاتے ہیں۔

ڈاکٹری ایک ایسا پیشہ سمجھا جاتا ہے جس میں ڈاکٹر اپنی فکر سے زیادہ مریض کی فکرکرتا ہے۔ لیکن تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال کے ڈاکٹر کو شاید اپنے پیشے سے لگاؤ نہیں یا انہیں مریضوں کے کرب سے دلچسپی نہیں یا وہ اپنے پیشے سے ایمان دار نہیں۔

دلچسپ بات تویہ ہے کہ اپنی نگرانی میں اسپتال کی تعمیر کو دیکھنے والے وزیر اعلی پنجاب ڈاکٹرز کی مختلف لاپرواہیوں سمیت توجہ نہ دینے کے باعث اسپتال کے 3 ایم ایس کو معطل بھی کرچکے ہیں۔ مگر، اس کے باوجود، انسانیت کی ایسی توہین و تذلیل ایک چبھتا ہوا سوال ہے جو اپنی نوعیت میں کتنے ہی سوالوں کو سموئے ہوئے ہے۔
انسان کی بے توقیری اورذلت اسے بعض اوقات پل پل مارتی ہے۔ اسے جب جب یہ بے توقیری یاد آئے گی، بے عزتی یاد آئے گی وہ پھر سے ایک کرب میں مبتلا ہوجائے گا جو اسے بار بار تنگ کرے گا۔

ملک میں کرپشن، لوٹ مار، دہشت گردی، انتہا پسندی، غربت، بے روز گاری، تعلیمی اداروں کی زبوں حالی جیسے ہزاروں مسائل ہیں جو اپنی نوعیت کے اہم ترین مسائل ہیں جن کا صحیح ہونا پاکستان کی ترقی میں بنیادی کردارادا کرے گا، جو بہت اہمیت کا حامل بھی ہے۔ مگر ایسا کرب، ایسی تذلیل، ایسی بے عزتی، ایسی کسمپرسی کا عالم، ایسی بے چارگی، ایسی لاچاری کسی بڑے مسئلے سے ذرا بھی کم نہیں۔
اورایسی تذلیل پہلی بارنہیں ہوئی بلکہ کچھ عرصے قبل ہی کنری کے ایک گاؤں میں حاملہ خاتون کو جب اسپتال لے جایا گیا تواسپتال انتظامیہ نے خاتون کواسپتال میں داخل کرنے سے انکار ہی کردیا اور کہا کہ اہل خانہ خاتون کو دوسرے اسپتال لے جائیے، جبکہ کوئی خاص وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔ بعد میں تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ اسپتال میں خون کی سہولت موجود نہیں اورخاتون میں خون کی کمی تھی۔

اس سے قبل شکارپور کی تحصیل خان پورسے حاملہ خاتون کو اس کے گوٹھ سے 22 کلومیٹر سے بھی زیادہ دور زچگی کےلیے سول اسپتال لایا جارہا تھا کیونکہ ان کے علاقے میں قریب ہی کوئی ایک اسپتال بھی موجود نہ تھا۔ اس خاتون نے اسپتال پہنچنے سے قبل ہی رکشے میں 3 بچوں کو جنم دے دیا۔

خدارا! یہ رد کرنے والے واقعات نہیں، جب مسیحا ہی یہ سب کریں گے تو مریض کہاں جائے گا، جس کے پاس وسائل نہ ہوں، جو مریض کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے قابل بھی نہ ہو اور اگر یہ روش سرکاری اسپتالوں اوران میں بھرتی ڈاکٹرزکی جانب سے جاری رہی تو پھر ایسی تذلیل اور بے توقیری کبھی پیچھا نہیں چھوڑے گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے