حال ہی میں مجھے دوحہ کے پاکستانی سفارت خانے میں جانے کا اتفاق ہوا جو آج کل خلاف معمول بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ لوگوں کا رویہ بہت اچھا ہے۔ یہ نہایت حیرت انگیز ہے کیونکہ ہمارے رویّے تشویش ناک حد تک بگڑ چکے ہیں۔ عملے کے لوگ اچھا کام کر رہے ہیں۔ اگرچہ سہولتوں کا اب بھی فقدان ہے جو ہم دوسرے ملکوں کے سفارتخانوں اور سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں دیکھتے ہیں۔ یہ کوئی زیادہ مشکل اور مہنگا کام بھی نہیں۔ ذرا سی انتظامی صلاحیت، ذرا بہتر نیت، تھوڑی سی مزید کوشش اور بہت تھوڑے سے پیسے لگا کر اسے بہت بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
یہ ایک خاصی بڑی عمارت ہے لیکن زیادہ تر لوگ باہر احاطے میں کھڑے یا احاطے میں پڑے دو پورٹا کیبن میں مسحور نظر آتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے افسران بالا نے عمارت کے ایک بڑے حصے کو وسیع و عریض دفتروں کی شکل دے رکھی ہے۔ وہ شاذ ہی باہر کہیں دیکھنے میں آتے ہیں جبکہ قطر میں موجود دوسرے خارجہ دفاتر اور سفارت خانے بڑے احترام سے لوگوں کو عمارت کے اندر ٹوکن دے کر ایک کھلی جگہ پر بڑی سہولت سے بٹھاتے ہیں اور باری آنے پر بہت جلد کام کرکے انہیں فارغ کر دیتے ہیں۔ سارا عملہ کام میں جتا ہوتا ہے۔ حتی کہ سینئر افسران بھی ایک طرف بنے چھوٹے چھوٹے دفتر نما کمروں میں بیٹھنے کی بجائے چل پھر کر لوگوں کی مدد و رہنمائی کرتے نظر آتے ہیں اور یوں کام بہت جلد نبٹ جاتے ہیں۔
دراصل جو دلچسپ و تعجب خیز بلکہ کسی حد تک ایک خوفناک بات جو میں یہاں کرنا چاہتا ہوں، وہ اس دن سفارت خانے کے کونسلر سیکشن میں سننے کو ملی۔ بہت سے لوگ وہاں اپنے تعلیمی کاغذات کی تصدیق کیلئے آئے ہوئے تھے۔ وہاں موجود عملے کے دو بہت ہی مستعد اور مہذب پاکستانی بھائی بڑی تن دہی اور احترام سے کاغذات وصول کرتے اور بعد از تصدیق وصولی کا وقت دیتے جارہے تھے۔
ہماری کاغذات وصولی کا وقت ہوگیا تھا تو ہم دو تین آدمی پورٹا کیبن سے نکل کر وہاں کھڑکی کے سامنے اپنے کاغذات تصدیق کے بعد وصول کرنے کیلئے کھڑے تھے کہ ایک سترہ اٹھارہ سال کا نوجوان اپنے کاغذات تھامے داخل ہوا۔ سفارت خانے کے عملے کے نوجوان کلرک نے ضروری جانچ پڑتال کے بعد کاغذات وصول کئے اور اسے بعد از تصدیق کاغذات کی وصولی کیلئے ڈیڑھ بجے کا وقت دے دیا؛ جیسے کہ وہ پہلے بھی ہر آنے والے کو دے رہا تھا۔ نوجوان وقت اپنے ذہن میں بٹھاتے باہر نکل گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد واپس آ کر ہم سے پوچھا ’’انکل یہ ڈیڑھ بجے کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں وہاں کھڑے کھڑے حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگا اور پھر کسی نامعلوم گہرائی میں ڈوب گیا۔ وہاں موجود ایک اور آدمی نے مترجم کے فرائض انجام دیئے اور نوجوان کا مسئلہ حل ہوگیا۔
دوسرے سفارت خانے اپنی زبانیں دوسرے لوگوں کو سکھانے کا انتظام کرتے ہیں بلکہ باقاعدہ کانفرنسوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی زبان اپنے لوگوں کو سکھانے سے قاصر ہیں۔ یہاں پاکستان کی ایک بڑی کمیونٹی رہائش پذیر ہے۔ اس میں خاصی تعداد پڑھی لکھی بھی ہے، البتہ اکثریت نیم خواندہ ہے۔ پڑھے لکھے بھی اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ دوسروں کو تو کیا اپنے ہی بچوں پر توجہ نہیں دیتے۔
یہاں تین پاکستانی اسکول ہیں۔ وہ بھی یہ کام خاطر خواہ طریقے سے نہیں کر پا رہے۔ اردو یہاں کا ایک بڑا تعلیمی مسئلہ ہے۔ کبھی انگریزی ہوتا تھا۔ وہ کسی حد تک حل ہوا ہے تو اردو مشکل ہو گئی ہے۔ انسان سے شاید ایک وقت میں ایک ہی کام اچھے طریقے سے انجام پا سکتا ہے۔ زبان بھی شاید ایک ہی اچھے طریقے سے سیکھی جاسکتی ہے۔
یہاں قطر میں آئے دن مختلف موضوعات پر کوئی نہ کوئی کانفرنس ہوتی رہتی ہے۔ میری کوشش رہتی ہے کہ یہاں ہونے والی کسی بھی کانفرنس میں شرکت کی جائے کیونکہ وہاں تھوڑی سی کوشش اور تھوڑے سے وقت میں بہت کچھ سیکھنے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار لوگوں سے ملنے کا موقع مل جاتاہے۔ میں یہاں ایک مرتبہ انگریزی زبان کی تدریس سے متعلق ایک کانفرنس میں شرکت کی غرض سے قطر یونیورسٹی گیا۔ ایسی جگہوں پر پاکستانی کم ہی نظر آتے ہیں۔ وہاں مجھے ایک سوڈانی انگلش ٹیچر سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ بات چیت ہوئی تو اس نے بتایا کہ وہ اپنی جاب کے علاوہ شام کو فری کمیونٹی سروس کرتا ہے اور بچوں کو پڑھاتا ہے۔
ہم پاکستانی بھی اگر ایسے فورمز میں شرکت کریں تو بہت کچھ سیکھ کر اسے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے فائدہ مند بناسکتے ہیں۔ اس سوڈانی استاد کی سی کمیونٹی سروس ہم بھی کر سکتے ہیں۔