الیکشن کروائیں

نہ تو پاکستان میں ایران جیسی مذہبی و سیاسی اتھارٹی رکھنے والا کوئی مجتہد ہے اور نہ ہی سعودی عرب جیسا کوئی بااثر مفتی اعظم اور نہ ہی ہمارے پاس ملائشیا کے بادشاہ جیسا متفقہ اور غیر متنازع کوئی ایک بھی شخص ہے جو تن تنہا ہمارے سیاسی بحران کا حل نکال سکے۔ صدر پاکستان ممنون حسین ریاست کے منتخب آئینی سربراہ ہیں وہ اپنی پرانی سیاسی وابستگی سے جس قدر بھی اوپر اٹھ جائیں اور ملک و ملت کی بہتری کے لئے جو بھی نسخہ تجویز کریں گردانا یہی جائے گا کہ وہ اپنی پارٹی مسلم لیگ ن کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی تمام تر محنت اور اچھی شہرت کے باوجود ملکی بحران سے نکلنے کا جو بھی فارمولا بنا لائیں شک یہی کیا جائے گا کہ وہ اپنی حکومت اور عہدے کو دوام دینا چاہتے ہیں۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل باجوہ تمام تر خلوص کے باوجود جو بھی حل تجویز کریں گے سمجھا یہی جائے گا کہ دراصل اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کا نظام لانا چاہتی ہے اور تو اور عمران خان کوئی بھی ورکنگ پلان لے آئیں ان کے سیاسی مخالفوں کے لئے قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق اور دوسرے سیاسی زعما جتنے بھی سنہرے الفاظ کہیں وہ ملک کو اس نازک دور سے نکالنے میں ممد و معاون ثابت نہیں ہو سکتے۔

پہلے تو ہم سب کو ماننا ہو گا کہ ہم بحرانی صورتحال کا شکار ہیں، کمزور ترین حکومت ہے، اصل مینڈیٹ نواز شریف کا تھا انہیں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے دیا تو وہ اپنی جگہ شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنا گئے۔ یہ مانگے تانگے کا مینڈیٹ ہے اسی لئے انہیں کبھی نواز شریف سے ہدایت لینی پڑتی ہے تو کبھی طاقت کے دوسرے مراکز کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ یہی صورتحال برطانوی وزیر اعظم تھریسامے کو بھی درپیش تھی کیونکہ وہاں بھی مینڈیٹ ڈیوڈ کیمرون کو ملا تھا وہ مستعفی ہوئے تو تھریسامے نے جگہ لے لی لیکن تھریسامے نے اخلاقی دبائو کو محسوس کرتے ہوئے الیکشن کروایا جس میں ان کی جماعت اور انہیں پہلے سے کم نشستیں ملیں مگر اب یہ تھریسامے کا مینڈیٹ ہے کیمرون کا نہیں۔ تھریسامے اپنے ملک کے بڑے فیصلے کر سکتی ہیں شاہد خاقان عباسی نہیں کر سکتے۔ وہ بیرونی دبائو کا جواب نہیں دے سکتے۔ وزیر اعظم عباسی کرشماتی شخصیت بھی نہیں ہیں کہ عوامی حمایت کے سر پر کوئی بڑا فیصلہ کر سکیں۔ اسی لئے ملک میں کنفیوژن ہے سیاسی بے اطمینانی ہے، غیر یقینی صورتحال ریاست اور معیشت کے لئے تباہ کن ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر واقعی بحران ہے اور کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو اکیلا ملک کو اس بحران سے نکال سکے تو پھر ہم بحران سے کیسے نکلیں گے؟
ماضی کی مثالیں سامنے ہیں طالبان کے خلاف جنگ کے بارے میں کئی مذہبی اور سیاسی حلقوں میں تحفظات اور شبہات تھے لیکن آل پارٹیز کانفرنس ہوئی تو اس معاملے پر فوج، سول حکومت اور اپوزیشن سب متفق ہو گئے اور یوں اس آپریشن کو اخلاقی و سیاسی حمایت ملی اور افغانستان کے مقابلے میں ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت کامیاب رہے۔

ایک اور بہت بڑی مثال 1973ءکا متفقہ آئین ہے۔ اس وقت بھی بحرانی صورتحال تھی حکومت اور اپوزیشن میں ٹھنی رہتی تھی مگر متفقہ آئین کے لئے سب نے اپنے موقف میں لچک پیدا کی اور یوں 1973ء کا متفقہ آئین بنا جو قائد اعظم کی لازوال شخصیت کے بعد دوسری متفقہ اور غیر متنازع دستاویز ہے۔ سعودی عرب اور یمن کی جنگ کے حوالے سے ’’غیرجانبداری‘‘ برقرار رکھنے پر اسی طرح کا سیاسی و فوجی اتفاقِ رائے ہوا تھا بالکل ایسا ہی معاملہ وزیرستان آپریشن کے بارے میں بھی ہوا تھا۔ سب جماعتوں نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی تھی۔
گویا کوئی انہیں اچھا سمجھے یا برا کرپٹ گردانے یا صادق و امین ٹھہرائے، ماضی کے بڑے فیصلے پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے ہی متفق ہو کر کئے ہیں۔ ان فیصلوں تک پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے جس میں فوجی قیادت بھی سٹیک ہولڈر کے طور پر موجود ہو اور یہ کانفرنس ابھی سے الیکشن کی تاریخ اور ضابطہ اخلاق کو طے کر دے۔ بہتر یہ ہو گا کہ فوری الیکشن ہوں کیونکہ فریش مینڈیٹ آنے سے بحران کے بادل چھٹ جائیں گے اور فوج بھی سیاست کے بارے میں پریشانی چھوڑ کر اپنے اصلی کام یعنی دفاعِ وطن کی طرف متوجہ ہو جائے گی۔

نون اس وقت ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت ہے وہ مرکز میں بھی برسر اقتدار ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی۔ فوری الیکشن نہ کروانے کے حوالے سے ان کے دلائل کچھ یوں ہیں

(1)ہمارا مینڈیٹ پانچ سال کا ہے جو اگلے سال جون میں پورا ہو گا۔

(2)مارچ 2018ءمیں سینیٹ کے انتخابات ہیں چونکہ اس وقت نون کی پارلیمان میں اکثریت ہے اس لئے سینیٹ میں ن کو اکثریت مستقبل میں سیاسی فائدہ دے گی۔

(3)نون حکومت کا آخری سال ہے اس میں بجلی بنانے اور ترقیاتی پروگراموں کو مکمل کرنے کا موقع ملے گا اور ن یہ دعویٰ کر سکے گی کہ اس نے لوڈشیڈنگ ختم کر دی ہے اور موٹر ویز بنا ڈالی ہیں۔ اگر نون والے برا نہ مانیں تو نون کے دلائل کا جواب کچھ یوں ہے

(1) مینڈیٹ نواز شریف کا تھا ان کی نااہلی کے بعد فریش مینڈیٹ لینا جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہو گا مانگے تانگے کا مینڈیٹ پانچ سال کا نہیں ہو سکتا۔

(2)سینیٹ انتخابات میں نون کی اکثریت کوئی جمہوری مسئلہ نہیں ہے یہ ویسے ہی غلط ہے کہ دم توڑتی اسمبلیاں، نوزائیدہ اسمبلیوں کے اوپر پرانے مینڈیٹ پر مشتمل اکثریتی سینیٹ چھوڑ کر جائیں۔ یہ تو اگلی سینیٹ کو محصور کرنے والی بات ہے۔

(3) ماسوائے 90ارب کے ترقیاتی فنڈز کے نون حکومت جلدی الیکشن کروائے گی تو اس کو فائدہ ہو گا۔ نواز شریف کو کسی احتساب عدالت سے ابھی سزا نہیں ہوئی وہ انتخابی مہم چلا سکیں گے وگرنہ اگر عدالتی عمل ایسے ہی چلتا رہا تو نواز شریف کو تو سزا سنائی جا چکی ہو گی۔ میری عاجزانہ رائے میں سب کا فائدہ اسی میں ہے کہ فوری الیکشن کروائے جائیں پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ نے دو فاش غلطیاں کی ہیں

(1) نواز شریف نااہلی کے بعد ن لیگ کو ایک سال کی مزید حکومت (عمران نے بھی ایسا ہونے سے نہ روکا جو ان کی غلطی تھی)

(2) نواز کی جگہ شہباز کو لانے کا فارمولا کسی شہری بابو کی تخلیق تھا ہمارے معاشرے میں یہ ایک مضحکہ خیز تجویز تھی جس کی کامیابی کا ذرا برابر بھی امکان نہیں تھا اور اب شاید اس غلطی کو تسلیم بھی کر لیا جائے۔

سینیٹ کے انتخابات کی حقیقت یہ ہے کہ مارچ میں 52سینیٹرز ریٹائر ہو جائیں گے اس وقت ن کے 27اور پیپلز پارٹی کے 26سینیٹر ہیں۔ نون نے بہت تیر مارا تو اسے دس نشستیں اور مل جائیں گی جبکہ پیپلز پارٹی کی 10سے 12نشستیں کم ہوں گی کیا نون انہی 10نشستوں کے لئے اگلے سال الیکشن کروانا چاہتی ہے؟ عباسی حکومت کا ایک ایک دن گزارنا مشکل ہے یہ 8،9ماہ کیسے گزارے گی؟ اور کیا سینیٹ کی 10نشستوں کیلئے قومی اسمبلی کا الیکشن ہارنے کا جوا کھیلنا درست ہو گا؟

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان، سر ونسٹن چرچل کے بڑے قائل تھے۔ اکثر چرچل کا یہ مقولہ سنایا کرتے تھے کہ ’’جمہوریت کو مشکل پیش آئے تو اس کا حل مزید جمہوریت ہے۔‘‘ دنیا بھر میں سیاسی نظام کو مشکل پیش آئے تو اس کا بہترین علاج الیکشن ہوتا ہے الیکشن ہی سے سیاسی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو تو ہر وقت الیکشن کے لئے تیار رہنا چاہئے یہ سب گھبرا کیوں رہے ہیں؟ سیاستدان الیکشن سے گھبرائے یا اس میں دیر چاہے تو پریشانی کی بات ہے۔ یاد رکھیےموجودہ نظام اسی طرح بحران میں مبتلا رہا تو پھر صرف سیاست ہی نہیں جمہوریت اور ریاست کو بھی خطرات ہوں گے۔ مفلوج حکومت پوری ریاست کو مفلوج کر دیتی ہے حل صرف ایک ہے فوراً الیکشن کروائیں اور نئی تازہ دم حکومت لائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے