انسانی اسمگلنگ ، بلوچستان میں نوجوانوں کا قتل

اس کی عمر صرف بیس سال تھی جب اس نے پہلی دفعہ اپنے حالات سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کی، اب سے بیس سال قبل بھی یورپ لیجانے کے لئے ایجنٹ جہاز کے ذریعے پانچ لاکھ روپے لیا کرتے تھے جبکہ بذریعہ سڑک دو سے تین لاکھ روپے لیتے تھے ،لیکن اس کے پاس تو ڈیڑھ ہزار روپے بھی ایجنٹ کو دینے کے لئے نہیں تھے یہی بات اس نے ایجنٹ کو بھی بتائی کہ نہ پیسے ہیں اور نہ ہی کوئی گھر اور نہ ہی زمین موجود ہے بیچنے کو۔ ہیں تو صرف ماں باپ اور بہن بھائی ہیں جن کے معاشی حالات اس قدر خراب ہیں کہ اکثر گھر میں فاقے ہی ہوتے ہیں، وہ ایجنٹ پنجاب کا معروف انسانی اسمگلر تھا اور سینکڑوں لوگوں کو یورپ پہنچا چکا تھا جبکہ درجنوں لوگ راستے میں ہی زندگی کی بازی ہار کر اپنے ماں باپ کے لئے زندگی بھر کا غم چھوڑ گئے تھے۔ اس ایجنٹ نے نہ جانے بیس سالہ نوجوان میں کیا بات دیکھی کہ اسے اپنے ساتھ ہی رکھ لیا اور اس نوجوان نے بھی اپنی محنت اور وفاداری سے اس کا دل جیت لیا،چھ ماہ بعد اس نوجوان پر قسمت مہربان ہوئی اور انسانی اسمگلر نے بلوچستان، ایران اور پھر ترکی کے زمینی راستے سے اسے یورپ جانے والے گروپ میں شامل کرلیا شرط یہ رکھی کہ یورپ میں کما کر اسے تین لاکھ روپے ادا کرنا ہونگے،نوجوان بھی خوشی سے راضی ہوگیا، دس افراد کے اس گروپ کو پانچ پانچ کی ٹولیوں میں پہلے کوئٹہ پہنچایا گیا، جہاں انھیں ایک ہائی ایس گاڑی میں پہاڑی علاقے کی جانب لیجایا گیا بارہ گھنٹے کے اس سفر میں کئی مقامی لوگوں نے گاڑی کو روکا اور پھر کچھ بات چیت کے بعد آگے جانے کی اجازت دی گئی۔ گائوں میں ماں باپ کی شفقت میں زندگی گزارنے والے بیس سالہ اس نوجوان کے اوسان تو ایران کی سرحد تک پہنچنے میں ہی خطا ہوچکے تھے لیکن اب اس کے پاس پیچھے جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا صرف آگے ہی جانا تھا ایرانی سرحد سے کافی پہلے انھیں پنجاب سے ساتھ آنیوالے ایجنٹ نے مقامی بلوچی ایجنٹ کے حوالے کردیا شدید گرمی میں کئی کلومیٹر پیدل چل کر سستانے کے احکامات ملے جبکہ مزید آگے جانے کے لئے رات کا وقت طے کیا گیا، پہاڑ کی اوٹ میں بیٹھے یورپ جانے کے شوقین یہ تمام نوجوان بری طرح تھک چکے تھے جبکہ ایجنٹ بھی بدتمیزی کی حد تک تنگ کرنے لگا تھا، جس کے مطابق ابھی تو صرف دس فیصد راستہ طے ہوا ہے اصل مشکلات تو ابھی آنی ہیں، ایک انجانے ڈر اور خوف نے اس پورے قافلے کو گھیرلیا لیکن اب واپسی کا راستہ بند ہوچکا تھا رات گہری ہوتے ہی ایرانی بارڈر کی جانب سے دو نقاب پوش پاکستانی علاقے میں داخل ہوئے اور ایک بار پھر اس قافلے کی گنتی ہوئی اور خاموشی کے ساتھ آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا قافلہ ابھی کچھ ہی دور گیا تھا کہ ایرانی بارڈر فورس کی جانب سے زور دار آواز نے قافلے کو مزید ڈرا دیا لیکن قافلے کا ایرانی ناخدا مزید آگے بڑھنے اور تیز تیز قدم بڑھانے کا حکم دیتا رہا اور قافلہ اپنے ناخدا کے پیچھے دوڑتا رہا کہ اچانک فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں اور سب سے پہلے وہ ایرانی ناخدا ہی زخمی ہوا، اس کے نیچے گرتے ہی دس افراد کا پاکستانی قافلہ تیزی سے واپس پلٹا اور واپس پاکستانی علاقے میں دوڑنا شروع کیا بیس سالہ نوجوان جو ان دس افراد کے قافلے میں سب سے پیچھے تھا، اپنی زندگی بچانے کے لئے پوری طاقت سے دوڑ رہا تھا کافی دیر بعد پلٹ کر دیکھا تو مزید دو ساتھیوںسے ملاقات ہوئی، باقی سات ساتھیوں کا کچھ معلوم نہ تھا،پاکستانی بلوچ ایجنٹ فائرنگ کی آواز سن کر واپس پلٹا، ان تین نوجوانوں تک پہنچا اور انھیں لیکر واپس کوئٹہ آیا اور انہیں کچھ رقم دیکر واپس فیصل آباد پہنچایا، اس طرح سہانے سپنے سجائے یورپ جانے کے شوقین سات افراد جان سے گئے جبکہ تین لٹے پٹے واپس پہنچے، لیکن وہی ملکی حالات ملازمتوں کی کمی، امیری غریبی کا بڑھتا ہوا فرق، ملک سے اور حالات سے فرار کے لئے بے چین کیے دیتا ہے۔ ایک فعہ پھر یہ نوجوان ایجنٹ کے پاس پہنچا اس دفعہ والدین نے کچھ رقم کا بھی بندوبست کیا تاکہ زمینی راستے کے خطرے سے بچ سکے لہذا اس دفعہ جنوبی کوریا کے لئے کوشش شروع ہوئی اور چند ماہ میں ہی ایک اور کوشش کے نتیجے میں وہ جنوبی کوریا پہنچ گیا چند سال وہاں دل لگا کر کام کیا لیکن وہاں معلوم ہواکہ محنت کا سب سے بہتر معاوضہ جاپان میں ملتا ہے لہذا اب اسے کورین ایجنٹ کی تلاش تھی جو اسے جاپان پہنچا سکے ایک ایجنٹ سے پانچ ہزار ڈالر میں معاملات طے ہوئے اور ایک روز صبح کے چار بجے اس نوجوان کو شہر کے ساحلی علاقے میں پہنچنے کی ہدایت کی گئی جہاں جاکر معلوم ہواکہ کئی دوسرے ممالک کے بھی ایک درجن سے زائد افراد جاپان جانے کے لئے اس کے ہم سفر ہونگے، کچھ دیر بعد ان سب کو ایک درمیانے سائز کی کشتی میں بٹھایا گیا، کورین ایجنٹ نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ یہ ایک طویل سفر ہوسکتا ہے اور حالات کی نزاکت کو دیکھ کر انھیں جاپان کے کسی ساحلی شہر پر اتارا جائے گا جبکہ اکثر راستے میں جاپانی اور جنوبی کوریا کی نیول بوٹس انھیں چیک کرتی ہیں اور مشکل ترین صورتحال میں زندگی بھی جاسکتی ہے لہٰذا آنے والے تمام حالات کی ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوگی، زندگی میں پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ سمندر کا سفر کتنا خطرناک ہوتا ہے خاص طور پر اگر کشتی چھوٹی ہو تو کیا گزرتی ہے،موت اتنے قریب سے دوسری بار دیکھی کہ اسے ایک بار پھر غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملک جانے کے فیصلے پر سخت افسوس ہوا، تین دن اس کشتی میں گزر چکے تھے کئی مسافروں کی حالت سخت خراب تھی جیسے ہی جنوبی کوریا کی نیول بوٹ قریب آتی تمام مسافروں کو ایک ڈھکن کھول کر اندر گھسا دیا جاتا اور کئی کئی گھ
نٹے تک کشتی کے تہہ خانے میں رہنا پڑتا جہاں مشکل سے چھ افراد کی جگہ ہوتی اور بارہ افراد اس تہہ خانے میں کئی کئی گھنٹے گھسے رہتے، پانچ دن بعد اعلان کیا گیا کہ کشتی جاپان پہنچ چکی ہے اور جلد ہی ساحل سے لگے گی اور سب لوگوں کو وہاں سے اپنی راہ لینی ہے لیکن بد قسمتی یہ کہ ایک جاپانی پولیس بوٹ نے اس کشتی کو دیکھ لیا اور کشتی کو دوبارہ گہرے سمندر میں جانا پڑا، اسی دوران دو افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جنھیں کسی بھاری چیز کے ساتھ باندھ کر سمندر برد کردیا گیا، ہر آدمی کو موت انتہائی نزدیک نظر آرہی تھی لیکن خوش قسمتی سے اگلے ہی روز کشتی ایک بار پھر ساحل پر لگی، صبح چار بجے کا وقت تھا کورین ایجنٹ نے صرف پانچ منٹ کا وقت دیا کہ چھلانگ لگائو اور بھاگو، پانی میں چھلانگ لگائی تو گردن تک گہرے سمندر میں موجود تھا لیکن جاپان میں تھا ایک بار پھر زندگی کی گاڑی آگے بڑھی نہ جانے کیا کیا دیکھنا پڑا اور آج وہ نوجوان ایک معزز شخصیت کے روپ میں میرے سامنے موجود تھا جو گزشتہ روز بلوچستان میں بیس معصوم نوجوانوں کی را کے ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل ہونے کی خبر سن کر مجھ تک پہنچا تھا، وہ پاکستان میں لوگوں سے اپیل کرنا چاہتا تھا کہ خدا کے لئے اپنے بچوں کو غیر قانونی طریقوں اور خطرناک راستوں سے بیرون ملک جانے سے روکیں، حکومت کو بھی چاہئے کہ ملک کے معاشی حالت بہتر کرے معاشنی ناانصافیاں نوجوانوں کو خطرناک راستے پر لیجاتی ہیں، جبکہ بلوچستان میں غیر ملکی مداخلت روکنے کے لئے اقدامات کرے، جاپان کی اس معزز شخصیت کے چہرے پر تکلیف اور دکھ کے اثرات ماضی میں پیش آنے والے واقعات اور قوم کے جوانوں کے لئے اس کے درد کو پوری طرح عیاں کر رہے تھے لیکن ریاست میں حکومت ہے کہاں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے