برمنگھم کی ایک عدالت نے ایک مدرسے کے دو استادوں کو دس سالہ بچے کو قرآن پاک کی غلط تلاوت کرنے پر چھڑی سے سزا دینے کے جرم میں ایک سال قید کی سزا سنائی ہے۔
60 سالہ محمد صدیق اور ان کے 24 سالہ بیٹے محمد وقار نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے اراداتاً 16 سال سے کم عمر بچے کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
ڈیلی میل کے مطابق مقدمے کی پیروی کرنے والی سیم فورسیتھ کا کہنا ہے کہ برمنگھم کے اسلامک سکول میں موجود دونوں اساتذہ نے بچے کو جماعت میں گفتگو کرنے پر پلاسٹک کی چھڑی سے مارا اور اس کی گدی پر تھپڑ مارے۔
مقدمے کی سماعت کرنے والے جج مارک وال کیو سی نے دونوں اساتذہ کو مخاطب کر کے کہا کہ بچے پر ظلم غلطی سے نہیں کیا گیا۔ایک چھڑی کے ساتھ جس قسم کے وحشیانہ اقدام میں آپ دونوں ملوث رہے ہیں، اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔لیکن وکیلِ صفائی چرنجت جتلا کا کہنا تھا کہ دونوں ملزمان کا سابقہ کردار اچھا رہا ہے اور وہ اپنے کیے پر پشیمان ہیں۔
یادرہے کہ پاکستان کے مدارس میں بھی شیدید تشدد کا رجحان پایا جاتا تھا، جو کہ اب کافی حد تک کم ہوچکا ہے لیکن دیہی علاقوں میں ابھی بھی مدارس میں طلبہ پر تشدد کیا جاتا ہے جس سے طلبہ ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔
اسی حوالے سے معروف عالم دین مولانا میر زاہد مکھیالوی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ:
"تجربہ یہ ہے کہ بچوں سے تعلیمی کام لینے میں تشویق وتشکیل اور ذہن سازی کا طریق زیادہ موثر ہوتا ہے آئے دن اس قسم کے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ استاذ کی پٹائی سے متوحش ہوکر بچہ مفرور ہوگیا، اب اس کی تلاش جاری ہے، کہیں سراغ نہیں ملتا، جس کی وجہ سے اہل خانہ بھی پریشان ہیں اور استاذ کے ساتھ بھی گستاخانہ طرز اپناکر دھمکیاں دینے سے گریز نہیں کرتے، اور بعض مرتبہ اس قسم کا ایک واقعہ ہی پورے ادارہ کی تعلیمی ترقیوں، تربیتی کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ :
"پٹائی کا دوسرا اہم پہلو جو عموماً استاذوں سے نظر انداز ہوجاتا ہے، وہ یہ کہ شرعاً استاذ کو کس قدر ضرب کی اجازت ہے، جس پٹائی سے ہڈی ٹوٹ جائے یا کھال پھٹ جائے یا نشان پڑجائے یا مرہم پٹی اور دوا کی ضرورت پیش آئے ایسی پٹائی کرنا جائز نہیں۔ کَمَا لَوْ ضَرَبَ الْمُعَلِّمُ الصَّبِیَّ ضَرْباً فَاحِشاً فَانَّہ یُعَزِّرُہ وَیُضَمِّنُہ لَوْمَاتَ․․ قولہ ضرباً فاحشاً وہو الذی یُکْسِرُ العَظْمَ أوْیَخْرِقُ الْجِلْدَ أوْ یَسُوْدُہ کَمَا فِی التاتارخانیہ․ (شامی زکریا، ۶/۱۳۱)”