پاکستانی کشمیرمیں آئینی ترامیم:انقلابی پیش رفت یا دائرے میں سفر؟

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 44برس سے نافذ متنازع ایکٹ1974 ء میں تازہ ترامیم سیاسی و قانونی حلقوں میں زیر بحث ہیں ۔ گزشتہ برسوں میں پاکستانی کشمیر کی تمام نمایاں سیاسی جماعتیں ایکٹ 74کو اپنی طویل ترین بے اختیاری کی بڑی وجہ قرار دیتی رہی ہیں۔ 1974ء میں نافذ ہونے والے اس ایکٹ نے پاکستانی کشمیر کی حکومت سے وہ تمام اختیارات سلب کر لیے تھے جو اسے اس سے قبل ایکٹ 1970ء کے تحت ملے تھے ۔ ایکٹ 74کے بعد اختیارات سے متعلق اکثرسبجیکٹس پر وفاقی دارالحکومت میں قائم جموں کشمیر کونسل کو اتھارٹی حاصل تھی۔ اس لیے قانون سازی اور دیگر مالی و انتظامی فیصلوں کے لیے پاکستانی کشمیر کی حکومت کو جموں کشمیر کونسل کا محتاج رہتا پڑتا تھا۔ پاکستان کی وزارت امور کشمیر بھی کونسل کے ذریعے آزادکشمیر کے داخلی معاملات میں مداخلت کرکے مقامی حکومتوں کو پریشان کرتی رہتی تھی۔ ایکٹ 74 میں کی گئی ان تازہ ترامیم (جنہیں 13ویں ترمیم کا نام دیا گیا)میں کونسل کے کردار کو بہت حد تک محدود کر دیا گیا ہے۔اس وقت پاکستانی کشمیر میں حکمراں جماعت مسلم لیگ نواز اس پیش رفت کو اپنا بڑا سیاسی کارنامہ قرار دے رہی ہے۔

[pullquote]* ترامیم کی منظوری ڈرامائی انداز میں ہوئی؟[/pullquote]

پاکستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت 31 مئی 2018ء کواپنی آئینی مدت مکمل کر کے تحلیل ہو گئی ہے۔حکومت نے آخری دنوں میں کابینہ کے پے درپے اجلاس بلا کرمتعدد زیر التواء اور اہم نوعیت کے فیصلے کیے۔گلگت بلتستان آرڈر 2018کی منظوری کا فیصلہ بھی مئی 2018کے آخری دنوں میں کیا گیا۔ پاکستانی کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدرایکٹ 74میں ترامیم کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کیے گئے وعدے کے ایفا ہونے کے منتظر تھے۔ وفاقی حکومت کی مدت کے آخری دو ہفتوں میں پاکستان کے وزیراعظم کے خصوصی سیکریٹری برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی بیوروکریسی کے چند افراد مسلسل اس تر میمی مسودے پر کام کرتے رہے۔

پاکستانی کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر پُر امید تھے کہ وہ وفاقی کابینہ سے ایکٹ 74میں ترامیم کا بل آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی میں پیش کرنے کی اجازت لینے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ اُن کی امیدوں پر اَوس اس وقت پڑی جب بالکل آخری لمحات خبر آئی کہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں آئینی ترامیم کا مجوزہ مسودہ کابینہ کے 29نکاتی ایجنڈے سے ڈراپ کر دیا گیا ہے۔ اس لمحے فاروق حیدر ایکٹ 74میں ترامیم کروا کر تاریخ میں اپنا نام لکھوانے کی خواہش کو قتل ہوتے دیکھ رہے تھے۔ پھر میاں نواز شریف کی مداخلت پر ایکٹ 74میں ترامیم کا مسودہ ایک اضافی پوائنٹ کے طور پر کابینہ کے ایجنڈے میں شامل کر لیا گیا ۔ رات گیارہ بجے کے قریب جب یہ خبرسنی گئی کہ ایکٹ 74میں ترامیم کا مجوزہ مسودہ وفاقی کابینہ نے منظور کر لیا ہے تو پاکستان کے زیر انتظام ریاست کے حکومتی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ مایوسی پھیلانے والے گروہوں میں صفوں میں مکمل سناٹا طاری ہوگیا۔

دلچسپ بات یہ ہوئی کہ آزادکشمیر کے تقریباً سبھی نمایاں اخبارات یہ خبر آنے سے قبل چھاپہ خانوں میں جاچکے تھے اور اگلے دن جو خبر شائع ہوئی اس کا لب لباب کم و بیش یہ تھا کہ ’’فاروق حیدر ایکٹ 74میں ترامیم کروانے میں ناکام ہوگئے‘‘ ۔ پھر کچھ صحافتی اداروں نے اگلے دن کا اخبار شرمندگی سے بچنے کے لیے اپنی ویب سائٹس پر اَپ لوڈ نہیں کیا۔حیرت اس بات پر ہوئی کہ اسلام آباد سے شائع ہونے والے چھ بڑے کشمیری اخبارات نے بھی اس خبر کا انتظار نہیں کیا اور اگلے دن ایک مردہ خبر شہہ سرخی کے طور ان کے قارئین کا منہ چڑا رہی تھی۔

[pullquote]کیا نمایاں تبدیلیاں ہوئی ہیں؟[/pullquote]

نئی ترامیم کے بعد پہلی دفعہ ’’آزادکشمیر‘‘ میں ’’آئین‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیااور ایکٹ کے بجائے اس دستاویز کو ’’آزادجموں کشمیر عبوری آئین1974ء‘‘ لکھا گیاہے۔عبوری آئین میں ریاستی باشندوں کی باہم برابری ، تعلیم کا حق اور اطلاعات تک رسائی جیسے بنیادی حقوق کو شامل کیا گیا ہے۔ اسلامی طرز زندگی کے فروغ کی بات بھی کی گئی ہے ۔ خواتین کی تمام شعبہ ہائے زندگی میں شمولیت اور اقلیتوں کے تحفظ ، سماجی انصاف وغیرہ کی شقیں بھی شامل کی گئی ہیں ۔

ایک بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ اب ریاست کا صدر وہیں کی قانون ساز اسمبلی ہی منتخب کرے گی ۔جموں کشمیر کونسل کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ نئی ترامیم کے مطابق صدر کو وزیراعظم کی تجویز پر7 دن میں عمل کرنا ہو گا بصورت دیگر وہ تجویز از خود نافذ العمل قرار پائے گی۔ وزراء کی تعداد30فی صد تک محدود کی گئی ہے اور وزیراعظم کو 2مشیر اور اتنے ہی خصوصی معاون رکھنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ پارلیمانی سیکریٹری بھی 5 سے زیادہ نہیں ہوں گے۔

جموں کشمیر کونسل کے قانون سازی اور ٹیکس جمع کرنے کے تمام اختیارات ختم کرکے اسے ایک مشاورتی باڈی قرار دیا گیا ہے جو چیئرمین کشمیر کونسل (وزیراعظم پاکستان) کو مسئلہ کشمیر سے متعلق مشورے دے گی۔ کونسل کے تمام اثاثے بشمول کنسولیڈیٹڈ فنڈحکومت آزادکشمیر کو منتقل ہو گئے ہیں لیکن کونسل کی ظاہری ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔آزادکشمیر میں الیکشن کمیشن کے قیام کی بات کی گئی ہے اور ججوں کی تعیناتیوں کے عمل میں بھی معمولی تبدیلی کی گئی ہے لیکن اسے پاکستان میں رائج نظام سے کلی طور پر ہم آہنگ نہیں کیا گیا۔

قانون سازی سے متعلق 52میں سے 33 سبجیکٹس جموں کشمیر کونسل کے دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں لیکن بجائے پاکستانی کشمیر کی حکومت کو دینے کے ، وہ سب سبجیکٹس براہ راست چئیرمین کشمیر کونسل (وزیراعظم پاکستان ) کوسونپ دیے گئے ہیں۔باقی ماندہ 21 سبجیکٹس کے سے متعلق ریاستی حکومت کو قانون سازی کا اختیار تو ملا ہے مگر اس کی اجازت بھی چئیرمین کونسل یعنی وزیراعظم پاکستان سے لینا لازم قرار پائی ہے۔ شہریت و ڈومیسائل ، کونسل کے الیکشن، اور انکم ٹیکس کے اختیارات پاکستانی کشمیر کی حکومت کو ملے ہیں لیکن ’’کارپوریٹ ٹیکس‘‘ پر اب بھی ریاستی حکومت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ نئی ترمیم میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی کشمیر کی حکومت صرف بجلی کے ان منصوبوں کے بارے میں قانون سازی کر سکتی ہے جو اس نے خود شروع کیے ہوں ، حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر پاکستانی کشمیر کی حکومت 50 میگا واٹ سے زیادہ کا منصوبہ لگانے کا اختیار نہیں رکھتی۔

[pullquote]نئی ترامیم پر اعتراضات کیا ہیں؟[/pullquote]

اس وقت پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں جہاں حکمراں جماعت سے وابستہ لوگ اور اس کے ہمدرد ان تازہ ترامیم کو سراہ رہے ہیں وہیں ایک قابل ذکرحلقہ نئی ترامیم کے بارے میں کئی طرح کے تحفطات کا شکار ہے ۔ ناقدین میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ کچھ آزاد دانش ور اور تجزیہ کار بھی ان نئی آئینی ترامیم کی افادیت کو ماننے سے انکاری ہیں۔ ناقدین کا کہناہے کہ یہ ترامیم پاکستانی کشمیر کے عوامی نمائندوں کی جانب سے مرتب کی گئی تجاویز سے بہت مختلف ہیں۔آزادکشمیر کی حکومت کی جانب سے یکے بعد دیگرے پیش کی گئی تجاویز کو ناصرف یہ کہ وفاقی حکومت کی جانب سے نظر انداز کیا گیا بلکہ ان کی مانگوں سے بالکل الگ ترامیم کی منظوری دی گئی۔ اگر کل 56 سبجکیٹس میں سے 33پر حکومت پاکستان کو براہ راست کُلی اختیار دے دیا گیا ہے اور باقی ماندہ 21 سبجیکٹس پر قانون سازی کوبھی پاکستان کے وزیراعظم کی اجازت کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے تو گویا عملی طور پر پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومت پہلے کی نسبت زیادہ بے اختیار اور پابند ہو چکی ہے۔

جہاں تک معاملہ جموں کشمیر کونسل سے مالی اختیارات کی منتقلی کا ہے تو یقیناً اہم پیش رفت ہے ۔ لیکن یہ بھی ایسا سادہ بھی نہیں ہے۔ جموں کشمیر کونسل ریاست بھرسے ٹیکسوں کی مد میں جمع کی گئی رقم کا30فی صد حصہ خود رکھ لینے کے بعد باقی رقم ریاستی حکومت کو دیتی تھی ۔ اب کشمیر کونسل کے سب اثاثے(بشمول پاکستان میں ریاست کی ملکیتی زمینیں اور عمارتیں) اور ملازمین ریاستی حکومت کی ذمہ داری میں آ گئے ہیں ، اس لیے اخراجات کا میزانیہ کچھ زیادہ نہیں بدلتا دکھائی نہیں دیتا ۔ اثاثہ جات کے اس انتقال پر یہ کہنا کہ حکومت کوبڑا مالی فائدہ ہوا ہے،مکمل طور پر درست معلوم نہیں ہوتا۔

ایک اور بڑا اعتراض یہ بھی کیا جارہا ہے کہ پاکستانی کشمیر کی اسمبلی نے یہ ترمیمی بل منظور کر کے وزیراعظم پاکستان کو ریاست کے آئین میں مداخلت کے لامحدود اختیارات تفویض کردیے ہیں حالانکہ جمہوری بندوبست میں ایگزیکٹو کبھی بھی قانون ساز شمار نہیں ہوتا۔ خاص طور پر اس علاقے میں تو بالکل بھی نہیں جو اس کے براہ راست دائرہ اختیار میں نہ آتا ہو . جموں کشمیر کونسل کے اختیارات اگرپاکستانی کشمیر کی حکومت کو مکمل طور پر تفویض کیے جاتے تو یقیناً یہ کامیابی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ان میں سے اکثر اختیارات اب فرد واحد کے تصرف میں دے دیے گئے ہیں۔

کچھ قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذکورہ ترامیم کے نتیجے میں ریاست کے آئین سے متعلق بنیادی اختیارات وزیراعظم پاکستان کودینااقوام متحدہ کی ریاست جموں کشمیر سے متعلق 13اگست 1948کی قرارداد کے واضح خلاف ورزی کیونکہ اس قرارداد کے پارٹ (2) II A کے میں درج ہے کہ

[pullquote] ’’حتمی فیصلے تک جو علاقہ پاکستانی فورسز نے خالی کرایا ہے اس کا انتظام کمیشن کی نگرانی میں لوکل اتھارٹیز کے پاس ہوگا‘‘۔ [/pullquote]

اب یہ علاقہ لوکل اتھارٹی کے تحت تو ہے لیکن وہ اتھارٹی حقیقی معنوں میں ’’ اتھارٹی‘‘ کہلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ریاستی اسمبلی اصولی طور پر یہ اختیار ہی نہیں رکھتی کہ وہ کسی دوسرے ملک کو یا اس کے کسی عہدے دارکو ریاست میں قانون سازی کا اختیار سونپ دے ۔ اس کے علاوہ کچھ ایسی شقیں بھی اس ترمیم کے بعد عبوری آئین میں شامل کی گئی ہیں جوریاستی باشندوں کے حقِ آزادی اظہار کو محدود کرنے کی مترادف ہیں۔ غرض کئی طرح کے سوالات ہیں جو مختلف حلقوں میں گردش کر رہے ہیں۔

ان ترامیم کے بارے میں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ 44 برس کے مکمل جمود کے بعد اعلیٰ سطح پر کشمیر کے پاکستانی زیر انتظام حصے کے آئین میں اصلاحات کی جانب قدم اٹھایا گیا ہے لیکن ان ترامیم کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ اس کے مسودے کی تیاری میں پاکستانی کشمیر کی تمام سیاسی پارٹیوں کو سنجیدگی سے شامل نہیں کیا گیا اورریاستی اسمبلی میں بھی اس پر سیر حاصل بحث نہ ہو سکی ۔ یہ تأثر برابر ملتا رہا ہے کہ پاکستانی کشمیر کے وزیراعظم فاروق حیدر بہت جلدی میں ہیں اور وہ کسی بھی طرح ان ترامیم کی منظوری کا کریڈٹ اپنے نام کرنا چاہتے ہیں ۔ فاروق حیدر یقینی طور پر اپنی خواہش کی تکمیل کر چکے ہیں لیکن اب خدشہ یہ ہے کہ اگر آئینی اصلاحاتی عمل یہیں رُک گیا تو ریاست کے اس حصے میں شدید بے چینی جنم لے گی۔

نئی آئینی ترامیم کی منظوری کے بعد ایک محفل میں فاروق حیدر نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر عوام چاہیں گے تو آزادکشمیر پاکستان کا صوبہ بھی بن سکتا ہے‘‘۔ اس بیان سے یہ تأثر ملتا ہے کہ ریاست کے اِس پار(آزادکشمیر) کی سیاسی قیادت جموں کشمیر کے مخصوص تشخص کے اپنے پرانے موقف سے ہٹتی جا رہی ہے اور کسی نہ کسی سطح پر وہ بھی ’’جو جس کے پاس ہے‘‘ والی صورت حال پر تیار ہو چکی ہے۔

حالیہ ترامیم میں موجود تضادات اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی حکومت کی جانب سے اسے دیرینہ خواب کی تکمیل قرار دینے پر اصرار دیکھ کر اُردو کے ممتاز ترین افسانہ نگار سعادت حسن منٹوکے مشہور افسانے’’نیا قانون‘‘ کے ساتھ ساتھ فیض احمد فیض ؔ کا یہ شعربھی ذہن میں آتا ہے :

یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گُزیدہ سحر
وہ اِنتظار تھا جس کا یہ وہ سَحر تو نہیں

[pullquote]
بشکریہ :ویکلی نوائے جہلم، سری نگر[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے