( مینگورہ سوات )
"کمرشل لبرلز” کو اردو زبان کی نفاذ ہضم نہیں ہورہی لہذا فیس اور دیگر سوشل میڈیا پر طرح طرح کی پوسٹیں لکھ کر لوگوں کو اردو زبان سے بدظن کرنے کی جان توڑ اور بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔ کبھی "گول کیپر” کی مثال دیتے ہیں تو کبھی "ٹیوب لائٹ” کی لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بیچارے اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پہنچانے کیلئے اردو ہی کا سہارا لے رہے ہیں میرا مطلب ہے کہ اردو کی مخالفت میں جو کچھ بھی لکھ رہے ہیں اردو زبان ہی میں لکھ رہے ہیں تو اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے اردو کی اہمیت پر؟؟
دیکھئے بھئی۔۔۔!!
اردو میں الفاظ کو جذب کرنے کی انتہائی صلاحیت موجود ہے لہٰذا ایسے مثالیں دینے والوں کو ادب کیساتھ عرض ہے کہ جس طرح آپ مدرسہ کو اردو میں بھی "اسکول” لکھ کر اور بول کر قبول کرچکے ہیں "مطب” کو ہسپتال لکھتے اور بولتے ہیں اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو بھی قبول کرچکے ہیں تو بالکل اسی طرح "گول کیپر” کو بھی "گول کیپر” یا "ٹیوب لائٹ” کو ٹیوب لائٹ ہی لکھا اور بولا کریں انشاءاللہ کوئی آپ پر فتوی لگانے کی جسارت یا جرأت نہیں کرے گا۔
اس کے علاوہ آج ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ویب سائٹ پر اردو کی مخالفت میں ایک خبر پڑھنے کو ملی جس میں لکھا تھا کہ اردو کو اگر سرکاری زبان کے طور پر نافذ کردیا گیا تو عدالتی کاروائی کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ سارا عدالتی ریکارڈ انگریزی زبان میں ہے اور اس ریکارڈ میں لاکھوں ایسے حوالے ہیں جوکہ روزانہ کی بنیادوں پر گاہے گاہے وکلاء اور عدالتی عملے کو عدالتی کاروائی میں درکار ہوتے ہیں۔
پہلے تو میں مذکورہ نشریاتی ادارے بی بی سی کو کو یہ بتانا چاہونگا کہ اگر اردو اتنی ہی بے کار زبان ہے تو برائے مہربانی آپ اپنا اردو سروس فوری طور پر بند کریں۔
دوسری بات یہ کہ اگر عدالتی ریکارڈ ملزم یا مدعی کی سمجھ سے بالاتر ہو تو لعنت ہو ایسی ریکارڈ پر !!
سچ پوچھئے تو اردو زبان سے سارا مسلہ ان "بابُو” لوگوں کو ہے جو کہ عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں انگریزی بیچتے رہتے ہیں اور انگریزی ہی ان کا ذریعۂ معاش ہے اورعدالتوں اور دیگر سرکاری دفاتر میں بیٹھے غیر سرکاری لُٹیروں کو بھی اردو کے نفاذ سے خار ہے جوکہ ایک ایک کاغذ کیلئے غریبوں کی دوڑیں لگواتے ہیں اور کبھی فوٹو سٹیٹ کے بہانے تو کھبی کاغذ کے بہانے اپنا خرچہ پانی نکالتے ہیں۔
گاؤں کے کسی مزدور کو اگر اپنے حق کے مطالبے کیلئے درخواست لکھنی ہو تو اُسے پورے گاؤں میں کوئی ایسا شخص دستیاب نہیں ہوتا کہ اس کی مدد کرے اور اس کے لئے مطلوبہ درخوست لکھے لہٰذا چار و ناچار وہ ان "بابُو مافیا” کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور دو دن کی مزدوری کو ایک درخواست کیلئے ضائع کرتا ہے یہی نہیں بلکہ آج کل تو سرکاری دفاتر میں انگریزی دانوں کا راج ہے اور کاغذات میں ایسے ھیرا پھیری کرتے رہتے ہیں کہ فیصلے بھی زیادہ پیسے دینے والوں کے حق میں ہوتے ہیں۔
اور تو اور انگریزی ہی کے بل بوتے پر مقدمات کو طول دیا جاتا ہے کیونکہ عوام کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ جج صاحبان اور وکلاء کونسی اور کس قسم کی کاروائی فرمارہے ہیں۔
بلکہ جسٹس کاظم ملک کے مطابق آدھے سے زیادہ مقدمات ایک پیشی میں ختم کئے جاسکتے ہیں اور اور قتل جیسے سنگین مقدمات کے فیصلیں بھی تین پیشیوں میں سُنائے جاسکتے ہیں لیکن اُن کا کہنا ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو وکلاء کی اکثریت بھوکی مر جائیگی۔
قارئیں کرام ۔۔!!
اگر عوام کو کاغذات اور دفتری کاروائی کی خود سمجھ آئیگی تو ان لوگوں کے کاروبار پر بے حد اثر پڑے گا یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ قومی زبان میں "گول کیپر” اور "ٹیوب لائٹ” جیسے الفاظ کے ترجمہ کے مضحکہ خیز مثالوں کی تخلیق کرتے ہیں اورقومی زبان کے خلاف "کمرشل لبرلز” کو تضحیک کے مواقع فراہم کررہے ہیں۔
حالانکہ تُرکی اور چین کی ہی مثال لے لیں انہوں نے بھی سرکاری طور اپنے قومی زبانیں نافذ کردی ہیں۔
تو مجھے بتایا جائے کہ ہے کوئی جو ان قوموں کو ترقی کرنے سے روکے؟
انہوں نے بھی "گول کیپر” اور ٹیوب لائٹ” جیسے الفاظ کے متبادل الفاظ ڈھونڈ لئے ہونگے جبکہ ان قوموں کی زبانیں اتنی جاذب ہرگز نہیں ہیں جتنی کہ اردو جاذبِ الفاظ زبان ہے۔
اکی بات اور !!
اردو میں بھی ایسے کئی الفاظ ہیں جن کا انگریزی میں ترجمہ نہیں کیا جاسکتا جیسے کہ تایا ، ماموں ، چچا ، بھانجا ، بھتیجا ، وغیرہ اور ان الفاظ کا استعمال اور ضرورت "گول کیپر” اور "ٹیوب لائٹ” کی بہ نسبت ہمارے دفاتر میں زیادہ بھی ہے کیونکہ یہ الفاظ ہمارے معاشرے کی ترجمانی کرتے ہیں۔
لیکن بد قسمتی سے سرکاری زبان کے طور ہم پر مسلط کرنے کیلئے ایسی زبان کا انتخاب کیا گیا ہے کہ جس میں ہمارے معاشرے کے مستقل اقدار کا سرے سے تصور ہی نہیں تو بھلا ہم اردو کی نفاذ کی تائید کیوں نا کرے ؟؟؟
آخر میں "اقبال اشعر” صاحب کی ایک نظم ملاحظہ کیجئے۔۔!!
اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی
میں میر کی ہم راز ہوں غالب کی سہیلی
دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا
سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا
ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
میں داغ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی
غالب نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
حالی نے مروت کا سبق یاد دلایا
اقبال نے آئینۂ حق مجھ کو دکھایا
مومن نے سجائی میرے خوابوں کی حویلی
ہے ذوق کی عظمت کہ دیے مجھ کو سہارے
چک بست کی الفت نے میرے خواب سنوارے
فانی نے سجائے میری پلکوں پہ ستارے
اکبر نے رچائی میری بے رنگ ہتھیلی
کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ
اپنے ہی وطن میں ہوں مگر آج اکیلی
تحریر : آصف شہزاد ( مینگورہ سوات )