خبریں لکھنے اور پڑھنے کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ خبروں کے لیے موزوں مضامین بھی تجویز کریں- خبریں تجویز کرنے سے پہلے کن اصولوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے؟ کیوں مارش بتاتے ہیں کہ آپ کس طرح میٹنگز میں تجاویز پیش کر سکتے ہیں-
صحافت کی ہر کامیاب مثال کسی تجویزسے ہی شروع ہوتی ہے۔ اگر آپ تنہا کام کرنے کے عادی ہیں، تب بھی کسی مقام پر آپ کو اس بات پر عمل کرنا ہی پڑے گا۔ مگر کئی شاندار خیالات اس مرحلے پر دم توڑ دیتے ہیں۔ ایک اچھی تجویز کے دو اجزا ہوتے ہیں۔
تبادلۂ خیال یا میٹنگ
آپ کی تجویز کردہ خبر کا معیار۔
پہلے پرآپ کا کنٹرول بہت کم ہوتا ہے تا وقتکہ آپ پروگرام ایڈیٹر ہوں، تاہم آپ اپنی تجویز کردہ خبر کا معیار کنٹرول کرسکتے ہیں۔ آپ بتائیں کہ آپ کے خیال میں اچھی خبر کیا ہے یا خبر کو کس طرح اچھا بنایا جا سکتا ہے یا خبر پر کام کرنے کا بہتر طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔
لہٰذا خبر تجویز کرنے سے پہلے اپنے آپ سے پوچھ لیں کہ وہ کیا وجہ ہے جس کی بدولت آپ کو یقین ہے کہ آپ کی تجویز اچھی ہے۔ اگر آپ کی تجویز میں یہ نہیں ہے تو اس کا امکان بہت ہی کم ہے کہ یہ کارآمد ثابت ہوگی، محض اتفاق کے سوا۔
بی بی سی ریڈیو فور کے ایک ایڈیٹر، پیٹر رپن کہتے ہیں کہ:
’جب آپ کوئی خبرتجویزکریں تو صرف خبر کی تجویز نہ دیں بلکہ واضع انداز میں بتائیں کہ وہ کیا ہے جو اس خبر کے بارے میں آپ کہنا چاہتے ہیں‘۔
ریڈیو فور کی پروڈیسر سرین بینز اس تنبیہ کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں:
’آپ جنہیں حقائق کہتے ہیں انہیں پیش کرتے ہوئے تحریف کرنے سے نہ صرف آپ کی بات برباد ہوگی بلکہ آپ کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔ اگر آپ تفصیلات سے متعلق بے یقینی کا شکار ہیں، مگر سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اچھا آئیڈیا ہوسکتا ہے تو یہ بات واضع کردیں‘۔
مگر یہ سب صرف اس پر منحصر ہے کہ میٹنگ یا تبادلۂ خیال کے دوران ہر ایک کتنا تخلیقی بننا چاہتا ہے۔
ایک اچھی تخلیقی میٹنگ کی ابتدا کسی حتمی فیصلے کے بغیر ہونی چاہیے کیونکہ یہ ایک اشتراکی عمل ہے۔ اکثربہترین صحافت ’ہاں ، اور ۔ ۔ ۔ ‘ کے مکالمے سے شروع ہوتی ہے۔
بی بی سی ایلسٹر الفیک کہتے ہیں:
لوگوں کی ہمت بڑھائیں کہ وہ میٹنگ کے دوران متجسس رہیں اور خبر کے مختلف زاویوں کو جانچنے اور تلاش کرنے سے لطف اندوز ہوں۔ ایڈیٹوریئل اور پروڈکشن سے متعلق سوالات جو دوسرے لوگ پوچھتے ہوں سنیں اور گروپ کو اجازت دیں کہ وہ ان کا حل تجویز کرے۔ انہیں سنئے اور دیکھئے کونسا طریقہ بہتر ہے‘۔
بی بی بی کے مختلف ایڈیٹرز کی مشترکہ ذہانت کے مطابق:
’ابتدائی طورپر کوئی خیال بھی بےکار نہیں ہوتا ۔ ۔ جس قدر ممکن ہو خبر کو بنیادی طور پرسوچیں ۔ ۔۔ ایک مرتبہ آپ کو ایک عمومی خیال مل جائے تو اسے آپ ہمیشہ اپنا سکتے ہیں یا اس میں ترمیم کرسکتے ہیں‘۔
’آپ کا کام میٹنگ کے دوران یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ دوسروں کے خیالات سنیں اور ان کی مدد کریں۔ بحث ختم نہ کریں۔ ’ہاں ‘ یا‘ اور ’ہاں مگر‘ جیسے الفاظ استعمال کریں‘۔
’میٹنگز میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کام کریں، (یہ ایک باہمی مدد کا فورم ہے نہ کہ کسی مقابلے کا)۔ دوسرے کے مشوروں کو مثبت انداز میں لیں۔ کسی بھی خیال یا تجویز کو یکدم رد نہ کریں۔‘
عموما آپ چھوٹے گروپس میں زیادہ تخلیقی ہوتے ہیں کیونکہ ہر تجویز سے دوسروں کو بھی خیالات آتے ہیں‘۔
’کسی آئیڈیے کو بہت جلدی نہ ختم کریں۔ سوچیں اور بات کریں کہ کس طرح سے نئی صورتِ حال کو بہتر انداز میں دیکھا جا سکتا ہے، دعوؤں پر سوال اٹھائیں اور خبروں پر دھیان دیں‘۔
سرین ایسی میٹنگز میں شریک ہونے والے نوجوان پروڈیوسرز کی مشکلات کے بارے میں کہتی ہیں کہ:
’بیٹھے رہنے اور صرف اپنے مطلب کے کام کے بارے میں فکر کرنے کا مطلب ہے کہ آپ مباحثہ میں اضافہ کرنے کا موقع کھو رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بات کسی ایسے موضوع پر ہو رہی ہو جس سے آپ زیادہ واقف نہیں۔
ممکن ہے کہ آپ کسی خبر کا تازہ تجزیہ پیش کر سکیں اور اسے پیش کرنے کے بارے میں کچھ کہہ سکیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خبر کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں، ممکن ہے وہ دراصل خبر کے اسی پہلو پر صرفِ نظر کر رہے ہوں جس پر بحث ہونی چاہیے یا جسے پرکھا جانا چاہیے۔
یہ بھی ٹھیک ہے کہ بہترین سلسلہ اصل آئیڈیے (یا اس کی جھلک) سے ہی آتا ہے تاہم مختلف مشوروں سے اسے ایک شکل مل جاتی ہے۔
دوسرے الفاظ میں، صرف آپ کی تجویزسے کام نہیں بنتا؛ بلکہ آپ دوسرے افراد کی دی گئی تجاویز میں جو حصہ ڈالتے ہیں وہ اصل فرق ڈالتا ہے۔
بی بی سی بیلفاسٹ کی ٹیم کا آخری مشورہ، خصوصاً اگر کسی دباؤ سے بھری میٹنگ میں خبر تجویز کرنا ہو تو:
’اکثرآپ کو کسی ایسے شخص کی ضرورت پڑتی ہے جو زیادہ تجربے کار ہو اور جس کی ذات پر آپ بھروسہ کرتے ہوں۔ اس سے خبر کے بارے میں مشورہ کریں۔ اپنی ٹیم میں ایسا شخص ڈھونڈیں جو آپ کی تجاویز وغیرہ دیکھ سکتا ہو اور اگر کوئی کام ٹھیک ہونے کا امکان نہیں تو وہ آپ کو بتا سکتا ہو۔ ہمیشہ خبروں سے متعلق بات چیت کرکے خود اپنا اوردوسروں کا امتحان لیں‘۔
مختصراً :
’کبھی بھی کوئی چیز اپنے تجربے کار ساتھی کو بتاتے ہوئے نہ جھجکیں۔ کئی نوجوان صحافی اپنی تجاویز دینے سے یہ سوچ کر کتراتے ہیں کہ کہیں ان کی تضحیک نہ ہو جائے‘۔
بشکریہ بی بی سی اُردو