بینگکاک: بیجنگ، نئی دہلی اور تھائی لینڈ جیسے شہروں میں فضائی آلودگی اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ گویا کہر اور دھند کا ایک سیاہ لحاف ان علاقوں پر چڑھا ہوا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے تھائی لینڈ کی بلدیہ نے شکر ملے میٹھے پانی کا چھڑکاؤ کرنا شروع کردیا ہے تاہم اس پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔
اس کی ابتدا بینگ کاک سے کی گئی ہے جہاں تجرباتی طور پر ہوا میں شکر پانی کا اسپرے کیا گیا۔ اس عجیب وغریب اقدام کا مقصد یہ ہے کہ چینی ملنے سے پانی گاڑھا ہوجاتا ہے اور وہ ہوا میں موجود خطرناک ذرات کو اچھی طرح چپکا کر نیچے گرادیتا ہے۔
دوسری جانب ماہرین نے اسے ایک احمقانہ خیال تصور کیا ہے۔ کیمیا کے ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر ویراچائی پیوٹا وونگ نے کہا ہے انہیں شک ہے کہ سادہ پانی کے مقابلے میں چینی ملا پانی فضائی دھند کاٹنے میں کوئی خاص کردار ادا نہیں کرسکے گا، پانی کی لزوجیت (وسکاسٹی) یا گاڑھا پن بڑھانے سے خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ اسپرے کرنے والے پمپ اتنے قوی نہیں کہ وہ پانی کے چھوٹے قطرے بنا کر انہیں اس قابل بناسکیں جو ڈھائی مائیکرون کے ذرات کو چپکا سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہی ذرات آلودگی کی جڑ ہوتے ہیں جنہیں قابو کرنا ضروری ہے فی الحال جو مشینیں استعمال ہورہی ہیں وہ صرف دس مائیکرون یا اس سے بڑی جسامت کے ذرات کو ہی قابو کرسکتی ہیں، جب میٹھے پانی کے قطرے زمین پر گریں گے تو ان میں بیکٹیریا اور فنجائی پیدا ہوسکتی ہے جس سے معاملہ مزید الجھ سکتا ہے۔
قبل ازیں تھائی لینڈ نے ڈرون کے ذریعے پانی گرانے کا منصوبہ بنایا تھا تاہم اب توپ نما طاقت ور پمپوں کے ذریعے شکر ملا پانی فضا میں اچھالا جارہا ہے۔