نیویارک ٹائمز کی پاکستانی اشاعت میں منظورپشتین کے مضمون کی سنسرشپ

مشہور امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا انٹرنیشنل ایڈیشن پاکستان میں ایکسپریس ٹریبیون کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت شائع ہوتا ہے۔ دفتر میں اخبارات کی فائل دیکھتے ہوئے اس پر بھی نگاہ پڑتی رہتی ہے۔میں نے دیکھا ہے کہ کبھی کبھار نیویارک ٹائمز کے صفحات پرکوئی جگہ مکمل طور پر خالی ہوتی ہے ۔ خالی اسپیس کے نیچے لکھا ہوتا ہے کہ ’’ اس مواد کے ہٹانے سے نیویارک ٹائمز کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ مقامی پارٹنر پبلیکیشن کا فیصلہ ہے‘‘ ۔

شروع میں مجھے یہ دیکھ کر تجسس ہوا تو میں نے اصل ایڈیشن آن لائن چیک کیا ، اس تحقیق پر معلوم ہواکہ ہٹایا جانے والامواد کوئی ایسا مضمون ہے جس کی اشاعت کا رسک پاکستانی صحافت نہیں لے سکتی یا وہ موضوع یہاں کے اعتبار سے کافی بولڈ تصور کیا جاتا ہے۔ ایک بار یہ بھی دیکھا کہ اصل ایڈیشن میں ایک بڑی تصویر شائع ہوئی تھی ، وہ تصویر ایسی تھی جس کے لیے ابھی پاکستانی معاشرے کو تیار نہیں سمجھتا جاتا ۔ یعنی کہ وہ تصویر یہاں کے ممنوع موضوعات میں سے ایک کی عکاسی کرتی تھی ۔

اخبار پڑھنے والے جانتے ہیں کہ نیو یارک ٹائمز (انٹرنیشنل ایڈیشن) کے لے آؤٹ کا ایک مستقل عنصر یہ ہے کہ وہ فرنٹ پیج پر شروع میں ایک مضمون سنگل کالم میں شائع کرکے اس کا اگلے کسی صفحے پر بقیہ چلا دیتا ہے ۔

آج بھی ایسا ہی ہوا ۔ نیویارک ٹائمزمیں کل ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان تھا :In Pakistan Pashtun cry for equality ،یعنی پاکستان میں پشتون برابر حقوق کے لیے فریاد کناں ہیں۔ اسی صفحے پر ایک ڈیک (مواد میں نمایاں سرخی) یوں نکالا گیا ہے :’’ ملک کی طاقتور فوج شہری حقوق کی پُر امن تحریک کو مٹانا چاہتی ہے‘‘ ۔ مضمون نگار کے طور پر پی ٹی ایم کے سربراہ منظور احمد پشتین کا نام درج ہے ۔لیکن ٹریبیون کے ساتھ شائع ہونے والے آج کے نیو یارک ٹائمز میں اس مضمون کی جگہ خالی رکھی گئی اور وہی وضاحتی سطر نیچے لکھی گئی کہ اس مواد کو ہٹانے میں نیو یارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ کا کوئی کردار نہیں۔

نیویارک ٹائمز انٹرنیشنل ایڈیشن کی اصل اشاعت

ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا میں کافی عرصے سے پی ٹی ایم کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے ۔عملی طور پر یہ بھی ممنوع موضوعات میں شامل ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک میری نگاہ سے کوئی ایسا ریاستی حکم نامہ نہیں گزرا جس میں اس کی ممانعت کی گئی ہو ۔اور یہ بھی ضروری نہیں کہ سارے حکم نامے تحریری ہی ہوں۔

ایکسپریس ٹریبیون کی جانب سے اس مضمون کو ہٹایاجانا مجھے نئی چیز نہیں لگی ۔ موجودہ صورت حال میں اخبارات پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں اور بعض اوقات کسی ناگہانی مصیبت میں پڑجانے کا خیال آتے ہی وہ محتاط ہو جاتے ہیں۔ یعنی سیلف سنسر شپ ۔ اس وقت پی ٹی ایم کو زیادہ کوریج سوشل میڈیا پر مل رہی ہے اور اس کے ارکان اسی میڈیم پر زیادہ اعتماد کر رہے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز انٹرنیشنل کی 12 فروری کی اشاعت میں منظور پشتین کا مضمون غائب ہے

ایک بات مجھے البتہ ٹھیک یہ لگتی ہے کہ ٹریبیون پاکستان میں ہٹائے گئے مواد کی جگہ کچھ اور نہیں چھاپتا ، ظاہر ہے یہ دونوں پارٹنرز کے درمیان معائدہ کا حصہ ہوگا ۔ خالی اسپیس اور اس کے نیچے درج وضاحت دیکھ کر قارئین کے ذہن میں تجسس پیدا ہوتا ہے تو وہ میری طرح اصل سورس کی جانب چل پڑتے ہیں اور فی الحال یہی ممکن ہے ۔

نیو یارک ٹائمز انٹرنیشنل کی 12 فروری کی اشاعت میں منظور پشتین کا مضمون غائب ہے

ہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے جب انٹرنیٹ پر سنسرڈ مضمون تک رسائی بالکل آسان ہے تو پبلیکیشن سے ہٹا دینا کتنا فرق ڈال سکتا ہے۔ جو لوگ ابھی تک مطبوعہ اخبار پڑھتے ہیں ان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شائع ہونے کی صورت میں شاید وہ مضمون ان کی مطالعے سے رہ جاتا لیکن ہٹانے کی بعد تو اس بات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں کہ وہ اسے تلاش کرکے پڑھیں گے ۔ تازہ ترین تجربات کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناقابل اشاعت قرار دیا گیا مواد قارئین کی زیادہ توجہ (اور ڈیجیٹل میڈیا کی زبان میں زیادہ Hits) لیتا ہے .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے