دیماینتی تمبے : بھارتی جنگی پائلٹ کی بیوی جو پاکستان سے اپنا خاوند مانگ رہی ہے .

‘جب ہم پرانے ہو جاتے ہیں تو ہمارے گھر کی چیزیں بھی قدیم ہو جاتی ہیں۔‘ انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ دوپہر کے 12 بج رہے ہیں، دہلی کے موسم سے سردی چھٹ رہی ہے۔

دیماینتی تمبے ہاتھ میں چائے کا کپ تھامے مجھے اپنی زندگی کی خوشگوار یادیں بتا رہی ہیں۔ یہ وہی خاتون ہیں جو اپنے شوہر کو پاکستان سے واپس لانے کی جدوجہد کر رہی ہیں۔

تاہم ان کا کہنا ہے ‘برائے مہربانی اسے جدوجہد مت کہیں مجھے یہ لفظ بہت بڑا لگتا ہے۔ میں صرف کوشش کر رہی ہوں، جی جان سے کوشش اور میں یہ کوشش کرتی رہوں گی۔‘

ان کے شوہر وجے تمبے انڈین فضائیہ میں فلائٹ لیفٹیننٹ تھے۔ سنہ 1971 کی پاکستان انڈیا جنگ میں پاکستانی فوج نے ان کے طیارے کو مار گرایا تھا اور انھیں گرفتار کر لیا تھا۔ اس وقت دیمیانتی صرف 23 برس کی تھیں اور ان کی شادی کو صرف 18 ماہ ہوئے تھے۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان میں گرائے جانے والے انڈین طیارے کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کی پاکستان میں گرفتاری اور 50 گھنٹے بعد رہائی کے بعد دیمیانتی کی کہانی بھی گردش کرنے لگی ہے۔ ایک ایسی خاتون کی کہانی جو اپنی زندگی کی ساتویں دہائی میں ہیں اور اکیلے اپنے شوہر کو پاکستان سے واپس لانے کی لڑائی لڑ رہی ہیں اور انھیں اب تک کوئی کامیابی نہیں ملی۔

ان کی کہانی میں یقیناً خبریت ہے۔ میں بھی ان سے ملنے خبر کی تلاش کے مقصد سے ہی گئی تھی تاہم جب ملاقات ہوئی تو احساس ہوا کہ اس خاتون کی زندگی اس ایک واقعے پر رک نہیں گئی (جیسا کہ بہت لوگ کہتے ہیں) بلکہ اس کے بعد ان کی زندگی ایک متاثرکن کہانی بن گئی ہے۔

دیماینتی تمبے، جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی سابق سپورٹس ڈپٹی ڈائریکٹر، انڈیا کی بیڈمنٹن کی بین الاقوامی کھلاڑی اور ارجن ایوارڈ یافتہ ہیں لیکن سب نے ان کی شناخت کو ایک ہی چیز تک محدود کر دیا تھا۔ ایک ایسی عورت جو 48 سال سے اپنے شوہر کا انتظار کر رہی ہے۔

میں نے انھیں اپنے دفتر سے فون کر کے ان سے ملاقات کی درخواست کی تھی۔ وہ اگلے دو دن مصروف تھیں لہذا انھوں نے مجھے تیسرے دن 11 بجے ملاقات کے لیے بلایا تھا۔

انھوں نے مجھے فون پر کہا’ براہ مہربانی سوالات لکھ کر لائیے گا، اور ہاں ایک اور بات مجھ سے مخصوص سوالات پوچھیے گا۔ مجھ سے میرے شوہر کی یادیں اور میں نے 48 سال کیسے گزارے یہ مت پوچھیے گا۔ آپ مجھ سے ایک گھنٹے کے لیے ملیں گی اور مجھ سے گذشتہ 48 برسوں کا حساب مانگیں گی۔ یہ میرے لیے بھی مشکل ہو گا اور آپ بھی مکمل طور پر کچھ سمجھ نہیں سکیں گی۔’

انھوں نے یہ سختی سے کہا مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں کسی سخت طبعیت نانی سے بات کر رہی ہوں۔

لہذا میں نے اپنے آپ کو تیار کیا اور ان سے ملنے چلی گئی۔ انھوں نے خود دروازہ کھولا۔ میرے ہاتھ میں کیمرے کے سٹینڈ کا بیگ جبکہ میرے کیمرہ مین مدھات کے پاس کیمرہ تھا۔ ہم پر نظر ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا ‘ آپ کی نسل کے بچوں نے ہر لحاظ سے اپنا بوجھ کم کر لیا ہے۔’ جس کے بعد ان کے چہرے پر ایک دھیمی مسکراہٹ آ گئی۔ ‘پہلے وقتوں میں وہ بڑی او بی وین کے ساتھ آتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے ایک صحافی سے درخواست کی تھی کہ اپنی وین کہیں دور کھڑی کرے کیونکہ وہ میری کالونی کے مرکزی دروازے سے اندر داخل نہیں ہو سکے گی۔’

تب مجھے ان کی جانب سے فون پر سخت ہدایات کی سمجھ آئی۔ ان سے ایک جیسے سوالات متعدد بار پوچھے گئے تھے۔ لوگ انھیں ان کے شوہر کی یادیں بتانے، ان کی تنہائی کے احساس اور ان کے دکھ اور تکلیف سے متعلق سوال کرتے تھے۔

انھوں نے ماضی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ‘ہم نے ڈیڑھ برس کا عرصہ ساتھ گزارہ تھا۔ اب 48 برس بعد میں وہ سب کیسے یاد کر سکتی ہوں اور آپ کو کیا بتا سکتی ہوں۔ میں ہمیشہ سفر میں رہتی تھی۔ مجھے کھیلوں کے ٹورنامنٹ کے سلسلے میں مختلف مقامات پر جانا پڑتا تھا۔‘

’جب میں واپس لوٹتی تو وجے مذاق اڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہتے کہ ان کی بیوی گھر چھٹیوں پر آئی ہے۔ دیگر افسران کے ساتھ یہ ہوتا کہ ان کی بیویاں ان کی واپسی کا انتظار کرتیں لیکن ہمارے معاملے میں یہ الٹ تھا۔’

دیمیانتی جن کی عمر 71 برس ہے اکیلی رہتی ہیں۔ وہ اس عمر میں بھی گھر کا سارا کام خود کرتی ہیں۔ وہ گاڑی چلاتی ہیں، گھر کا کام کاج دیکھتی ہیں اور متعدد اداروں کی ایگزیکٹو بورڈز کی رکن بھی ہیں۔ انھوں نے پختگی سے کہا ‘لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں نے کیسے اتنے سال تنہا گزار لیے؟ لیکن مجھے کبھی کسی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ مجھے کبھی کسی سے براہ راست مدد یا جذباتی وابستگی کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ میں اپنے آپ کے لیے کافی مضبوط تھی۔’

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سامنے ان کے چھوٹے سے گھر میں جب ہم داخل ہوئے تو ہمیں وہاں متعدد ٹرافیاں اور یادگاری شیلڈز دکھائی دیں۔ وہاں یقیناً تین سے چار درجن ٹرافیاں موجود تھیں۔ مگر میں دروازے کے قریب ایک چھوٹی الماری پر رک گئی جہاں پر تین چیزیں بہت نمایاں کر کے رکھی گئیں تھیں۔ جن میں ارجن ایوارڈ، ویر پتنی ایوارڈ (شجاعت کا ایوارڈ جو فوجیوں کی بیویوں کو دیا جاتا ہے) اور دیمیانتی اور وجے کی ایک خوبصورت تصویر۔ یہ سب کچھ ایسے رکھا گیا تھا کہ الماری کا اوپری حصہ اس خاتون کی پوری زندگی کی عکاسی کر رہا تھا۔

ہم نے عکس بندی کے لیے ان کے برآمدے کو بے ترتیب کر دیا تھا۔ ہم نے ارجن ایوارڈ کی جگہ تبدیل کی، ویر پتنی ایوارڈ کو بھی ہٹایا اور مسکراتے جوڑے کی تصویر کو کہیں اور رکھا۔ ہم یہ سب کچھ درہم برہم کرنے پر شرمندہ ہو رہے تھے اور ان کو یقین دلایا کہ جب ہم اپنا کام ختم کریں گے تو یہ تمام چیزیں ترتیب سے واپس رکھ کر جائیں گے۔

وہ پرسکون انداز میں ہمیں دیکھ رہیں تھیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ‘پریشان نہ ہوں مجھے چیزیں سمیٹ کر ترتیب میں رکھنے کی عادت ہے۔’ انھوں نے یقیناً اپنی زندگی میں اپنے آپ کو متعدد بار سمیٹا ہو گا کہ ہمارا شور اس کے مقابلے میں کچھ نہیں تھا۔

انھوں نے مجھے کمرے کے کونے سے فوٹو البم لانے کو کہا۔ اس البم میں ان کی اور فلائیٹ لیفٹینٹ وجے کی شادی اور ہنی مون کی تصاویر تھیں۔ وہ ایک ایک کر کے مجھے تصویریں دکھا رہی تھیں۔ اس البم میں تصاویر کی ترتیب خود وجے نے دی تھی۔ ہر تصویر کے نیچے خوشخطی میں عبارت لکھی تھی۔ ‘دیکھو اس کی لکھائی کتنی خوبصورت تھی۔’

ان میں سے ایک تصویر میں دیمیانتی نے شارٹ سکرٹ پہنی ہوئی تھی وہ سکول جانے والی ایک لڑکی لگ رہی تھیں لہذا وجے تمبے نے اس تصویر کی عبارت لکھی تھی ‘جب سکول جانے والی لڑکیوں کو ہنی مون پر جانے کی اجازت مل جائے، حیرانگی ہے!’

وہ محبت جس کو 49 سال ہو گئے تھے آج بھی زندہ تھی۔ ان کے گھر میں ہر جگہ وجے تمبے موجود تھے۔ وہ گراموفون اور کیسیٹس جو انھیں سننا پسند تھا سب کو حفاظت سے رکھا گیا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی کوئی مزاح کی حس سے بھرپور بزرگ صاف ستھرے پاجامہ میں کسی کمرے سے نکل آئے گا۔

میں نے ان سے کہا ’آپ کے گھر میں ایک قدیم خزانہ ہے۔‘ انھوں نے مسکرا کر کہا ’اب ہم خود ہی قدیم بن گئے ہیں اور آپ چیزوں کے بارے میں بات کر رہی ہیں۔‘

انھوں نے بھی ہماری افراتفری میں حصہ لیا۔ وہ دوسری الماری سے کچھ اور تصاویر، چند کتابیں، کیسٹیں اور دستاویزات لے کر آئیں۔ ’یہ دیکھو، دھول، ان ربڑ بینڈز کو دیکھو، کیسٹ کے ساتھ بندھے یہ ربڑ بیڈز کیسے پگھل گئے ہیں۔‘ پھر انھوں نے مدھات سے کہا ’اس مٹی کی فلم نہ بنانا۔‘

میں بہت اشتیاق سے اپنے ہاتھ میں موجود البم کو دیکھ رہی تھی۔ اس البم میں دیماینتی اور وجے تامبے کے دورۂ کشمیر کی تصاویر بھی تھیں۔

دیماینتی نے بتایا ’یہ تمام تصاویر آٹو میٹک کیمرے کی مدد سے لی گئی تھیں۔ انھیں صحیح کرنے کے لیے بہت زیادہ کوشش کی ضرورت تھی۔ ہمیں 15 گھنٹوں کے لیے مشق کرنا پڑی اور جی، جی میں حیران ہو رہی تھی کہ کس نے تصاویر پر کلک کیا۔ ’میں نے کہا ’ہنی مون پر کون تیسرے شخص کو لے کر جاتا ہے؟‘ وہ شوخی سے مسکرا دیں۔

انھوں نے مجھے ایک تصویر تھماتے ہوئے فلپ سائیڈ پر لکھا ہوا متن پڑھنے کو کہا۔ انھوں نے کہا’آپ اس کو پڑھیں اور اسے صرف اپنے تک رکھیں۔‘

اس تصویر کی پشت پر میاں بیوی کے تعلق سے حوالے سے ایک خوبصورت نظم لکھی ہوئی تھی۔ یہ نظم وجے تامبے نے اپنی بیوی دیماینتی کے لیے لکھی تھی۔

ان تصاویر میں سے ایک ناقابل فراموش تصویر تھی۔ اس تصویر میں دیماینتی میک اپ کے بغیر سفید ساڑھی پہنے ہوئے وی وی گری سے ارجن ایوارڈ وصول کر رہی تھیں۔

کیمرہ مین مدھات نے رائے دی کہ ان تصاویر کو ڈیجیٹلائزڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ دیماینتی نے کہا ’اب اس کا کیا استعمال ہے؟ اب زندگی اختتام کا سامنا کر رہی ہے۔ اب کتنے دن باقی رہ گئے ہیں؟ مستقبل کو طے کرنے دو کہ ان چیزوں کے ساتھ کیا کریں۔‘

میں نے پوچھا ’کیا آپ کبھی زندگی سے بیزار نہیں ہوئیں؟ کیا آپ نے اپنے شوہر کی واپسی کے خیال کو ترک نہیں کیا اور نئی زندگی شروع کرنے کے بارے میں نہیں سوچا؟‘

انھوں نے جواب دیا دیکھو، میں کئی برس تک یہ محسوس کرتی تھی کہ وہ یقینا واپس آئیں گے۔ اسے رجائیت پسندی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن خدا کے فضل سے میں امید پروری سے بچ گئی اور زندگی کی شروعات کرنے کے بارے میں، اصل میں میری زندگی کبھی بھی اس طرح نہیں رکی تھی. میں نے اپنی نوکری جاری رکھی۔ میری بیڈمنٹن میرے ساتھ تھی۔ میں نے وجے کی یادوں کے ساتھ گھر بنایا۔ میرے لیے وجے کے ساتھ گزارہ ہوا ڈیڑھ سال کا عرصہ ہی کافی تھا۔ میں نے بہت سے بچوں کو سکھایا، میں نے بہت سے کھیل کھیلے، میں نے دوسروں کو تربیت دی، میں نے مکمل طور پر خود انحصار زندگی گزاری. ایماندار ہونے کے لیے، میں نے جو کچھ بھی کیا میں اس پر فخر محسوس کرتی ہوں۔‘

دیماینتی نے سرکاری سطح پر وجے کو واپس لانے کی بہت کوشیں کیں، وہ بہت سے دفاتر میں گئیں۔ انھوں نے اپنی کوششوں کو جاری رکھنے کے لیے دہلی میں نوکری کی۔ انھوں نے اپنے آپ کو ایسے خاندانوں کے ساتھ منسلک کیا جنھوں نے پاکستان میں اپنے رشتے داروں کو کھو دیا۔ انھوں نے بہت سے لوگوں کی مدد کی، انھیں بہت سے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن وہ ثابت قدم رہیں۔

جب وہ 23 برس کی تھیں تو انھوں نے حکومت سے اپنے شوہر کو واپس لوٹانے کی اپیل کی جس پر ایک وزیر نے انھیں پہلے عسکری کواٹروں میں جانے کا بولا۔

’میں جب تک زندہ ہوں، وجے کو واپس لانے کی ہر ممکن کوشش کروں گی۔ میں نہیں جانتی کہ وہ اب کہاں ہیں؟ آیا وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔ لیکن اگر وہ واپس آئے تو میں انھیں ہر حال میں قبول کروں گی۔ یہ 200 فیصد سچائی ہے۔ میری زندگی میں ان کی جگہ کبھی خالی نہیں ہوئی۔ مجھے ان کے لیے جگہ بنانے کے لیے کوئی خاص کوشش نہیں کرنی پڑی کیوںکہ ان کی جگہ ہمیشہ سے تھی۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے