ضلع سدھنوتی کی پس ماندگی کا ذمہ دار کون؟

ضلع سدھنوتی جس کا قدیم شہر پلندری آذاد ریاست جموں و کشمیر کے قیام کے وقت دارالخلافہ قرار پایا تھا اور ریاست آزاد جموں و کشمیر کی نئی حکومت نے اسی دارالخلافہ میں حکومتی سرگرمیوں کا آغاز کر کے آزاد ریاست کے تمام اداروں کی بنیاد رکھی تھی۔وقت اور حالات کے ساتھ تبدیلی ہوئی اور دارالخلافہ پلندری سے مظفر آباد منتقل کر دیا گیا۔

آج میں انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ یہ تحریر آپ سب پڑھنے والوں کی نظر کر رہا ہوں۔مجھے اس بات کا بھی پورا یقین ہے جتنے دکھ اور افسوس کے ساتھ میں الفاظ تحریر کر رہا ہوں اس سے زیادہ دکھ اس تحریر کو پڑھتے ہوئے آپ سب کو بھی ہو گا۔بلکہ یوں سمجھیے کہ میں ضلع سدھنوتی کے پورے عوام کا دکھ اس تحریر میں الفاظ کی شکل میں نچوڑ رہا ہوں۔

ضلع سدھنوتی کی سنہری تاریخ کا ذکر 1832 میں ڈوگرہ راج میں ذندہ کھالیں کھنچوانے والے سبز علی خان اور ملی خان کی تاریخ سے شروع ہو چکا تھا۔اسکے بعد بھی اس ضلع کے غیور عوام نے آزادی کی تحریک میں بھرپور شرکت کی اور کئی نامور شخصیات جن میں سر فہرست ،بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان صاحب، کرنل محمد حسین خان مرحوم اور کرنل محمد ہدایت خان مرحوم نے سدھنوتی کا نام روشن کیا۔

ضلع سدھنوتی جو کہ سابقہ ضلع پونچھ کا حصہ تھا۔ ضلع سدھنوتی کا باقاعدہ قیام 1995 میں ہوا تھا آج 24 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ضلع سدھنوتی ضلع کے حساب سے آزاد کشمیر کا سب سے پس ماندہ ضلع ہے۔باوجود اسکے اس ضلع کے صدر مقام پلندری سے مسلسل دو دہائیوں سے زائد عرصے سے اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والے نمائندے محترم ڈاکٹر نجیب نقی صاحب جو کہ بابائے پونچھ کی نسل سے ہیں ۔اسی طرح ضلع سدھنوتی کے دوسرے حلقے بلوچ سے مسلسل کئی مرتبہ اسمبلی کے لئے منتخب ہونے والے نمائندے محترم سردار فاروق طاہر صاحب ہیں۔

اس وقت ضلع سدھنوتی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منتخب عوامی نمائندوں کے خلاف اور اپنے حقوق کے تحفظ کا احساس دلانے کے لیے ضلع سدھنوتی میں دو اہم تحریکوں کا وجود پذیر ہو چکا ہے۔حلقہ پلندری میں ہسپتال بناؤ زندگی بچاؤ اور حلقہ بلوچ میں تحریک تحفظ حقوق لوئر بیلٹ اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ ہر گاؤں اور محلے میں لوکل سطح پر ان دونوں تحریکوں کو عوام کی بھرپور حمایت اور تائید حاصل ہے۔

ہسپتال بناؤ زندگی بچاؤ تحریک اور تحریک تحفظ حقوق لوئر بیلٹ ضلع سدھنوتی کے نوجوانوں نے تمام سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے الگ طور پر شروع کیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ضلع سدھنوتی کے عوام نے عوامی نمائندوں اور حکومتی اداروں کی ناقض کارکردگی کے باعث ان تحاریک کا بھرپور ساتھ دینا شروع کر دیا ہے۔

ضلع سدھنوتی آذاد کشمیر کا ایسا ضلع ہے جس میں عوام علاقہ کے لئے انتہائی غیر معیاری ہسپتال موجود ہے اور باوجود عرصہ دراز سے حکومتی سطح پر اس ہسپتال کو اپ گریڈ کرنے کی منظوری بھی ہو چکی ہے لیکن حکومت ہی کی ناقص کارکردگی اور منتخب عوامی نمائندوں کی مکمل سر پرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ التوا کا شکار ہے۔ضلع بھر کے بنیادی ہیلتھ یونٹس کی عمارات کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں اور ڈسپنسریاں بھوت بنگلے کی اشکال میں موجود ہیں جن میں تعینات محکمہ صحت کے اہلکار مہینے میں ایک سے دو بار صرف خانہ پری کے لئے حاضری کا فریضہ پورا کرتے ہیں۔

ضلع سدھنوتی کا دوسرا بڑا مسئلہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں ضلع بھر کی سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں اس کی اہم وجہ بھی منتخب عوامی نمائندوں کی بھرپور توجہ نہ ہونے کی وجہ ہے۔منتخب عوامی نمائندے جب بھی کسی سڑک کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ منظور کرواتے ہیں تو من پسند ٹھیکیداروں کو منصوبہ دلوا کر کرپشن کے ذریعے اپنے بنک بیلنس کو بڑھاتے ہیں اور سڑک کی تعمیر میں ناقص میٹریل استعمال کر کے کاغذی کارروائی کو پر کرتے ہیں۔

ضلع سدھنوتی کا تیسرا بڑا مسئلہ سکولوں کی ابتر صورتحال ہے ضلع بھر کے سکولوں کی عمارات انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں موجود ہیں جن میں نہ تو پورا فرنیچر موجود ہے اور زیادہ تر میں نہ ہی بجلی کی سہولت۔اسکے علاؤہ بے شمار سکولوں میں عملہ کی تعداد بھی پوری نہیں ہے۔سیاسی وابستگیوں کو مد نظر رکھ کر سکولوں میں میرٹ کے خلاف تعیناتیاں معمول بن چکی ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ سکولوں میں عملہ کی ٹرانسفر بھی سیاسی انتقام کے ذریعے بنیادی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

ضلع سدھنوتی کا چوتھا بڑا مسئلہ علاقے میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح ہے جس کی بنیادی وجہ ضلع بھر میں روزگار کے مناسب ذرائع نہ ہونا ہے۔اسوقت دونوں حلقوں سے منتخب عوامی نمائندے اپنا زیادہ تر وقت مظفر آباد اور اسلام آباد میں گزارتے ہیں۔دونوں عوامی نمائندے صرف سیاسی پروگرامز یا پارٹی کی سطح پر عوام کے ساتھ روابط کو برقرار رکھے ہوئے ہیں لیکن عوام کے مسائل پر وہ توجہ جو منتخب عوامی نمائندوں کی خاصیت ہوتی ہے کہیں بھی دکھائی نہیں دیتی جس کی وجہ سے ضلع بھر کے بے روزگار نوجوانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے اور اسی بددلی کی وجہ سے نوجوان غلط سرگرمیوں کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں جس سے ضلع بھر میں جرائم کی سطح اسوقت بلند ترین ہے۔

سدھنوتی ضلع کے باقی مسائل میں سیاحت کے حوالے سے کسی اہم پروجیکٹ کا نہ ہونا اور پورے ضلع میں مقدور بھر انڈسٹری کا نہ ہونا بھی ضلع سدھنوتی کی بد قسمتی ہے۔

اسوقت ضلع سدھنوتی کے نوجوانوں میں امید کی کرنیں ہسپتال بناؤ زندگی بچاؤ اور تحریک تحفظ حقوق لوئر بیلٹ کے ذریعے پہنچ رہی ہیں اور امید کی جا رہی ہے دونوں تحاریک اپنی غیر سیاسی جہدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے منتخب عوامی نمائندوں اور حکومتی اداروں پر دباؤ کے ذریعے ضلع سدھنوتی کے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے انکے حل کے لئے بھرپور کوشش کرتے ہوئے پائے تکمیل تک پہنچائیں گی۔

اس ضلع سدھنوتی کی ایک بڑی بدقسمتی یہاں سے الیکشن لڑنے والے اپوزیشن لیڈران بھی ہیں جو کے دونوں ہی حلقوں میں کافی بڑی تعداد میں ووٹ لیکر خاموشی سے عوام علاقہ کی بنیادی سہولیات سے آنکھیں پھیرے بیھٹے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے