ناصرکاظمی کے گھرمیں ایک یادگارشام

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

تقسیم ہند کے بعد کےاُردو شاعروں میں ناصر کاظمی کو جس قدر تیزی سے مقبولیت ملی ، شاید ہی کسی اور کو ملی ہو ۔ کئی دوسروں کے برعکس یہ مقبولیت دیر پا بھی ثابت ہوئی ۔ ناصر کی غزل نے پڑھنے والوں کو بہت کم وقت میں اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا ۔ ناصر کو عمر نے زیادہ مہلت نہ دی ، محض چھیالیس برس کی عمر میں وہ گزر گئے لیکن ان کا کلام مداحوں کو آج تک برابر اپنے سحر میں جکڑے ہوئے ہے۔

تقسیم ہند کے بعد ناصر کاظمی کا خاندان ہجرت کرکے لاہور میں مقیم ہوا ۔ انہیں پرانی انار کلی کی بھگوان اسٹریٹ میں واقع ایک گھر میں سر چھپانے کی جگہ ملی ، دس برس تک ناصر اس گھر میں رہے ۔ اپنا بہت سا تخلیقی کام بھی انہوں نے یہیں پر کیا ،شاعری کے پہلے مجموعے برگِ نےکے علاوہ نشاطِ خواب ، سُرکی چھایا اور دیوان کا معتد بہ حصہ اسی چھت تلے لکھا گیا ۔ اس لیے اس گھر کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔

ناصر کاظمی کے بڑے صاحبزادے باصر سلطان کاظمی برطانیہ میں رہتے ہیں۔ اب کی بار انہوں پاکستان آنے کا ارادہ کیا تو ہمارے مصنف و صحافی دوست محمود الحسن نے یہ آئیڈیا پیش کیا کہ کیوں نہ ناصر کاظمی کے اس گھر کے در دیوار کی زیارت اُن کے صاحبزادے کی ہمرہی میںکر لی جائے ،جہاں ناصر کی تخلیقی زندگی کے اہم ترین برس گزرے ۔ گزشتہ ماہ کے آخری دنوں میں بالآخریہ خواہش پوری ہو ہی گئی ۔

محمود الحسن ، معروف شاعرسجاد بلوچ اورمعروف اداکارنورالحسن کے ہمراہ پرانی انارکلی کی گلیوں میں پہنچا،ہمارے میزبان ناصر کاظمی کے قریبی عزیز اور شاعرتاثیر نقوی صاحب تھے ۔ وہاں باصر کاظمی صاحب کے ساتھ تاثیر نقوی کے علاوہ ڈاکٹر ساجد علی بھی تھے ، ڈاکٹر ساجد علی اور باصر کاظمی کی دوستی نصف صدی پر محیط ہے۔

اس نشست میں باصر کاظمی نے اپنے والد ناصر کاظمی سے متعلق دلچسپ گفتگو کی ،باصر اپنے والد کا ذکر’’پاپا‘‘ کہہ کر کرتے ہیں اور اپنی والدہ کو وہ ’’باجی ‘‘ کہتے ہیں ،والد انہیں ـ’’گُڈو‘‘ کہتے تھے ۔ والدہ کو ’’باجی‘‘ کہنے کی وجہ کافی دلچسپ ہے۔ باصر کاظمی نے اس نشست میں تقسیم ہند کے بعد کے سماجی ومعاشرتی حالات کا تجزیہ بھی کیا ، ناصر کے پرانے گھر کی درو دیوار سےجڑی کہانیاں ہم نے اُسی احاطے میں کھڑے ہوکر سنیں۔ میں نے اس گھر کی دیواروں میں وہ اُداسی ڈھونڈنے کی کوشش کی جو کبھی ناصر کو وہاں بال کھولے سوتی دکھائی دیتی تھی۔

نورالحسن ،محمود الحسن، سجاد بلوچ اور میں نے باصر کاظمی سے کرید کرید کر سوال پوچھے۔ وہ بھی اُس شام پوری طرح آمادہ کلام تھے، سو بھرپور گزری۔ چونکہ تاثیر نقوی صاحب کی پیدائش اِسی گھر میں ہوئی ، وہ بھی اس گھر ، گلی اور محلے سے متعلق اہم باتیں بتاتے رہے۔ باصر کاظمی نے ناصر کے کبوتربازی کے شوق کا ذکر بھی کیا ۔ اُن کے قریبی دوستوں احمد مشتاق (باصرجنہیں مشتاق چچا کہتے ہیں)اور شہزاد احمد کے متعلق دلچسپ قصہ سنایا۔ کرشن نگر والے گھر کا بھی ذکربھی ہوا، جہاں ناصر کاظمی بعد میں منتقل ہو گئے تھے۔

میں نے اس خوبصورت اور یاد گار شام کے بہت سے لمحات کو کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا اورانہیں ایک ویڈیو کی صورت میں ڈھالا ہے۔اس ویڈیو میں ناصر کاظمی کا ایک نایاب ٹی وی انٹرویوبھی شامل ہے جو انہوں نے ستر کی دہائی کے شروع میں پی ٹی وی کو دیا تھا۔ انہوں نے اس انٹرویو کے دوران اپنی مشہور غزل ’’وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے‘‘ بھی سنائی۔ اس رپورٹ میں ناصر کی کاظمی کی ایک مشاعرے میں پڑھی گئی غزل’’گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ ‘‘ کی آڈیو بھی شامل ہے۔ میں نے یہ سب چیزیں ایک جگہ جمع کر دیں تاکہ ناصر کے چاہنے والوں کو سہولت رہے۔

ضروری نوٹ: ویڈیو میں تاثیر نقوی صاحب کا نام غلطی سے’’تاثیر کاظمی‘‘ لکھا گیا، ویڈیو میں ایڈیٹنگ اب مشکل ہے،اس لیے اسے ’’تاثیر نقوی‘‘ پڑھا جائے۔ شکریہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے