کم سِنی کی شادیاں،چند قابل غور پہلو

دنیا بھر میں بلوغت کی عمر وہاں کے مقامی موسمی حالات ، خوراک کی عادات ، پرورش کے طریقے اور اسی طرح کے مختلف وجوہات پر مبنی ہوتی ہے – اسی طرح زندگی کے مختلف شعبوں کے لئے بھی عمر کا معیار مختلف مقرر ہے ، جیسے بچے اور بچی کی شادی کی عمر، سرکاری نوکری کی ، فوج میں بھرتی کی ، معاہدات کرنے ، زمین جائیداد حاصل کرنے کی ، ووٹ دینے وغیرہ – ریاستیں ان کو گھٹاتی بڑھاتی بھی رہتی ہیں – اس کے لئے کوئی مستقل فارمولہ نہیں بلکہ حالات اور ضروریات کے مطابق ریاست عوامی اور ریاستی مفاد میں ایسا کرنے کا اختیار رکھتی ہے –

فی زمانہ دنیا بھر میں شادی کی عمر مقر ر کرنے کے بارے مین بحث و تمحیص جاری ہے – کئی ممالک نے ایک خاص مدت کے اندر اس عمر کو یکساں بنانے کے معاہدات بھی کر لیے ہیں اور اس پر عمل درآمد کرنا ناگزیر ہو گیا ہے کیونکہ کہ ہر ملک کا اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے ضرورت کی مختلف اشیا کو حاصل کرنے اور فالتو کو فروخت کرنے کا انحصار در آمدات بر امدات پر ہے، اس کے لیے یہ ممالک اپنی شرائط بھی مقرر کرتے ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے –

اسلامی ممالک عمومی طور ازداواجی زندگی کو سامنے رکھ کر بلوغت پر اصرار کرتے ہیں جبکہ زندگی صرف جنسی تعلق ہی نہیں ہے – اس سلسلے میں بھی مختلف آراء اور دلائل پر مبنی عمر کی حد مختلف ہے – تاہم تمام فقہا کا اس بات پر تقریبآ اتفاق ہے کہ جب بچی حیض کی اور بچہ احتلام کی عمر میں داخل ہوتا ہے یہی اس کی بلوغت کی عمر ہے – اب اس کا انحصار بھی مختلف عوامل پر ہے جس پر موسمی ، خوراک ، پرورش کے طریقے اثر انداز ہوتے ہیں – یہ بھی عمومی طور پر نو سال سے تیرہ سال کے درمیان کی عمر سمجھی جاتی ہے- حیض اور احتلام پر اتفاق کو بلوغت کا معیار سمجھنا شادی ، ازدواجی اور جنسی تعلقات قائم کرنے کا غماز ہے – کیا اس عمر کا بچہ بچی وہ اہلیت ، شعور ، فہم و فراست ، ذہنی بلوغت جس کو انگریزی مین Maturity age اور عربی مین “ سِن رُشد “ کہتے ہیں ، بھی حاصل کر لیتا ہے جو ازدواجی زندگی کے نتائج مرتب کرتے ہیں ؟ اصل سوال یہ ہے –

انسانوں اور حیوانوں کے درمیان اللہ تعالی نے یہی امتیاز قائم کیا ہے کہ حیوان بلوغت میں پہنچتے ہی جنسی خواہشات اور شہوت کی تکمیل کرنا شروع کرتا ہے ، لیکن قدرت نے اس کے اندر بھی ایک mating season مقرر کیا ہے ، جبکہ انسان میں جنسی خواہشات اور شہوت کا کنٹرول اللہ نے انسان کے ہاتھ میں رکھا ہے اور اس کا کوئی mating season بھی نہیں ہوتا – اس کے لئے کوئی اجتماعی نظم قائم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کیونکہ بے شعوری کی عمر میں شادی کے بھیانک نتائج کے اثرات ریاست کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں –

یورپی ملکوں میں نصاب اور تربیت میں جنسی تعلیم بھی دی جاتی ہے ، جس کے فوائد اور نقصان بھی بتائے جاتے ہیں -لیکن اسلامی اور بالخصوص پاکستان جیسی تہذیب والے اسلامی ملکوں میں اس کو بے حیائی سمجھا جاتا ہے – حالانکہ قرآن پاک میں استقرار حمل کی وجوہات سے لے کر رحم مادر کے اندر مختلف مراحل سے گزر کر وضع حمل، رضاعت اور اس کے ختم ہونے کے تمام مراحل درج ہیں – جو سب کے سب جنسی تعلیم ہے – اس کے بعد زچہ بچہ کی نگرانی ، نگہداشت ، بچے کی پرورش ، تعلیم و تربیت ،اس کے لیے وسائل اس کے قدرتی نتائج اور ذمہ داریاں ہیں – کیا نو اور تیرہ سال کے بچے بچی کو اس کا شعور و ادراک ہوتا ہے ؟ اکثریت میں ایسا نہیں ہوتا، جس وجہ سے بھیانک نتائج سے دو چار ہونا پڑتا ہے- جو اس جوڑے، خاندان، معاشرے اور پوری ریاست کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے – مجموعی معاشرتی مسائل کا حل ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اس لیے اس کی احتیاطی تدابیر کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے جس میں کم از کم شادی کی عمر مقرر کرنا بھی شامل ہے –

کئی اسلامی ممالک نے بچے اور بچی کی شادی کی کم سے کم عمر مقرر کر لی ہے اور وہ کسی طور “ حیض اور احتلام “ کے اصول کے مغائر نہیں ، کیونکہ اس عمر میں پہنچ کر شادی فرض ، واجب یا سنت نہیں ہو جاتی – یہ ایک علامت ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں – اس وقت کئی اسلامی ممالک نے ، جس کی تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں ، بچی اور بچے کی شادی کے لئے اپنی مرضی ، والدین کی اجازت یا عدالتی اجازت سے مشروط کرکے ، سترہ سے اکیس سال کے درمیان مقرر کی ہے – اصولی طور پر یہی “ سِن رُشد “ یعنی Matuarity age ہے، جس میں انسان کو سود و زیاں ، فیملی اور دنیاوی ذمہ داریوں کا احساس اور ادراک ہو جاتا ہے –

اللہ نے انسانوں کے لیے “ رسول اللہ صلعم کی زندگی کو بہترین نمونہ “ قرار دیا ہے – ان کی زندگی کے ازدواجی پہلوؤں پر نظر ڈالیں تو حضور اکرم صلعم کی ازدواجی زندگی پچیس سال کی عمر میں شروع ہوئی اور وقتآ فوقتآ اور بہ یک وقت بھی کئی ازواج مطہرات ان کے عقد میں رہی ہیں ، جن میں کسی کی عمر سترہ سال سے کم نہیں تھی اور بالائی عمر کی بھی کوئی حد نہیں تھی – سب سے زیادہ حضرت عائشہ صدیقہ کی عمر کے بارے میں مختلف روایات ہیں لیکن اکثریت کا اتفاق اس پر ہے کہ ان کی رخصتی بہ الفاظ دیگر ازدواجی زندگی سترہ سال کے بعد شروع ہوئی ہے – حضور کے عقد میں سب سے پہلی اور سب سے بڑی عمر کی خاتون حضرت خدیجہ تھیں جن کی عمر چالیس سال اور حضور کی عمر پچیس سال تھی – ان کی ازدواجی زندگی کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ ان کے عقد میں سوائے حضرت عائشہ کے ، سب بیوہ یا مطلقہ اور مختلف قبیلوں کی ازواج تھیں – کیا اس سے شادی کے لیے کم سے کم عمر کی حد اور ترجیحات کا استنباط نہیں کیا جا سکتا؟ قرآن پاک کے بعد ، ان کی زندگی ہی ہمارے پاس رہنمائی کا بہترین اور قابل عمل نمونہ ہے جو نہ صرف قابل تقلید بلکہ واجب التقلید ہے – ریاست کو اس کی روشنی میں ملک کی مجموعی حالت اور بین الاقوامی تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرنا چاہیے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے