پاکستان اورایران میں عدم اعتماد کی اصل وجہ؟

فارس موجودہ ایران کی جغرافیائی حدود شمال میں آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان ، مشرق میں پاکستان اور افغانستان ، مغرب میں ترکی اور عراق کے علاقے کردستان سے ملتی ہیں۔ مزید برآں خلیج فارس بھی اس سے ملحق ہے۔ خمینی انقلاب سے پہلے ایران مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا میں بےجا مداخلت کا مرتکب نہیں ہوا بلکہ ملحقہ ممالک سے تعلقات مشترکہ مفادات اور دوستانہ بنیادوں پر استوار کیے رکھے۔

خمینی انقلاب کے بعد مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کے ریجنز اضطراب اور گومگو کی کیفیات سے دوچار ہوئے۔ ایران میں شعیہ ازم نے ریاستی پشت پناہی میں مضبوطی پکڑی اور ملحقہ علاقوں بالخصوص مشرق وسطی میں اپنا ا اثرورسوخ بڑھا نا شروع کر دیا۔ مشرق وسطی بالخصوص سعودی عرب میں تشویش کی لہر دوڑ ی اور یوں سنی اکثریتی آبادی والی ریاست سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی آبادی والی ریاست ایران ہر محاذ پہ دوبدو ہوئے۔سعودی عرب مشرق وسطی میں اپنا مضبوط قدکاٹھ بنا کر بڑا ایکٹیو رول ادا کر رہا ہے۔

سعودی عرب نے جنرل ابوالفتح سیسی کی عسکری وسیاسی مدد کرکے اخوان المسلمون کے خلاف بغاوت کروا کر اخوانیوں کو تخت سے تختہ دار تک لے کر آنے کےبعد ترکی کے اندر فوجی بغاوت کی پشت پناہی کی۔ جس کو ترکی کی عوام نے ناکام بنا یا۔ اور اس کے ساتھ قطر پر دہشت گردی کا الزام لگا کر سفارتی طور پر تنہا کرنے کی ناکام کوشش کی۔ ان تمام کشیدگیوں میں ایران نے سعودی عرب کے مخالف دھڑے کی اخلاقی و سفارتی مدد کی۔سعودی عرب اور ایران مشرق وسطی کے ممالک یمن، شام اور لبنان میں اپنے مفادات کی خاطر پراکسی وار لڑ رہے ہیں۔

اصل تنازع ہے کیا؟

اسلام کا آغاز سعودی عرب سے ہوا تھا۔ اس لیے وہ آج بھی خود کو مسلم دنیا کا رہنما سمجھتا ہے۔ تاہم 1979 میں ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد خطے میں ایک نئی طرز کی مذہبی ریاست وجود میں آ گئی، جس کا واضح مقصد یہ تھا کہ اپنا ماڈل اپنی سرحدوں سے باہر برآمد کیا جائے۔اس ریاست نے سعودی عرب کی حیثیت کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ مشرق وسطی میں لڑائی حقیقت میں شیعہ سنی تفریق کے تناظر میں لڑی جا رہی ہے۔سنی اکثریتی ممالک اور تنظیمیں سعودی عرب کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں اور شیعہ اکثریتی ممالک اور تنظیمیں ایران کی طرف

پاکستان میں شیعہ سنی پراکسی وار

خمینی انقلاب جلد ہی سیاسی انقلاب کی نہج کو ترک کر کے فقہی انقلاب میں بدلا تو ایران میں شیعہ ازم نے ریاستی پشت پناہی میں مضبوطی پکڑی اور پاکستان میں شیعہ برادری کو متحد کر کے پر پھیلا نے کی کوشش شروع کر دی تاکہ پاکستان میں خمینی انقلاب کی راہیں ہموار کی جاہیں نتیجتا پاکستان میں مختلف فرقہ وارانہ اور شدت پسند شیعہ تنظیموں نے جنم لیا جن میں( 1)نفاذ فقہ جعفریہ ( 2) سپاہ محمد اور(3) وحدت المسلمین ہے ۔ جن کو مالی و عسکری کمک ایران سے ملتی تھی اور ہے۔ اس فقہی انقلاب کی راہ روکنے کےلئے پاکستان میں سنی تحریکوں نے زور پکڑا اور یوں پاکستان میں شیعہ سنی فسادات کا آغاز ہوا۔ جس دلدل سے پاکستان آج تک نہ نکل سکا.

عرب سپرنگ اور شیعہ سنی سرد جنگ

2011 میں ‘عرب سپرنگ’ کے تحت اس خطے میں خاصی ہلچل پیدا ہوئی اور کئی ملک عدم استحکام کا شکار ہو گئے۔سعودی عرب اور ایران نے اس غیر یقینی صورتِ حال کو اپنا دائرۂ اثر بڑھانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ شام، بحرین اور یمن خاص طور پر اس رسّہ کشی کا شکار ہوئے، اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان خلیج گہری ہوتی چلی گئی۔ایران کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے آلۂ کار نصب کر کے ایران سے بحیرۂ روم تک کے علاقے پر اپنا غلبہ چاہتا ہے۔اس مقصد میں ایران کو بڑی حد تک کامیابی بھی حاصل ہو رہی ہے۔

شام میں ایرانی اور روسی پشت پناہی کی بدولت صدر بشار الاسد باغیوں کا بڑی حد تک خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ سعودی عرب ان باغیوں کا سب سے بڑا حامی تھا۔سعودی عرب بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ روکنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے، اور اس کے نوجوان ولی عہد محمد بن سلمان کشیدگی کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔اسی مقصدکو لے کرولی عہدنے سعودی عرب کے جنوب میں واقع یمن میں باغیوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے تاکہ وہاں ایرانی اثر ختم کیا جا سکے۔ لیکن تین برس سے جاری یہ جنگ اب تک ایک مہنگا جوا ثابت ہوئی ہے۔

ایران اور سعودی عرب کی دشمنی کی لہر لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے سعد الحریری جو سعودی عرب کا اتحادی ہے اور شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ جو لبنان میں ایران کی مدد سے گلی کوچوں میں پھیلی ہوئی ہے کے درمیان صورت حال بڑے عرصے ت کشیدہ ہے۔ سعد الحریری سعودی عرب میں 4 نومبر 2017 کو کانفرنس کرتےہوئے یہ کہہ کر مستعفی ہو گئے کہ حزب اللہ مجھے قتل کرنے کے لیے خفیہ منصوبہ بناچکی ہے۔جس کی پشت پناہی ایران کر رہا ہے ردعمل میں ایران اور حزب اللہ کی طرف سے بیان میں کہا گیا کہ سعد الحریری نے سعودی عرب اور امریکہ کے دباؤ میں آ کر استعفی دیا ہے تاکہ خطے میں مزید کشیدگی پیدا کی جا سکے۔

اس کے علاوہ یہاں بیرونی طاقتیں بھی سرگرم ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کو شہ دے رکھی ہے، جب کہ اسرائیل بھی ایران کو اپنا دائمی دشمن سمجھتے ہوئے ایک لحاظ سے سعودی عرب کی بالواسطہ مددکر رہا ہے۔اسرائیل کو خدشہ ہے کہ ایران نواز شامی جنگجو کہیں اس کی سرحد تک نہ پہنچ جائیں۔اسرائیل اور سعودی عرب ہی وہ دو ملک تھے جنھوں نے 2015 میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر طے پانے والے بین الاقوامی معاہدے کی شدت سے مخالفت کی تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ معاہدہ ناکافی ہے۔

ان کے علاقائی حلیف کون ہیں؟

مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بڑی حد تک شیعہ سنی تفریق کی عکاسی کرتا ہے۔ سعودی عرب کے کیمپ میں متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین، مصر اور اردن ہیں۔دوسری طرف ایران کے طرف داروں میں شامی حکومت کے علاوہ حزب اللہ کی طرز کی شیعہ جنگجو تنظیمیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عراق کی شیعہ اکثریتی حکومت بھی ایران کی حلیف ہے۔

پاکستان کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات کی نوعیت

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات دیرینہ، دوستانہ اور برادرانہ نوعیت کے ہیں۔ سعودی عرب نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔سعودی ولی عہد شہزاد محمد بن سلیمان نے مارچ 2019 پاکستان کے دورے کے دوران بھاری سرمایہ کاری کے منصوبوں پر دستخط کیے۔حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ معاہدوں کی جو تفصیلات جاری کیں ہیں ان میں 5 سال کے دوران مختلف منصوبوں میں 21 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائیگی ۔تفصیلات کے مطابق پہلے 2 سال میں 7 ارب ڈالرز، تیسرے سال 2 ارب ڈالرز اورآخری 2 سال میں مزید 12 ڈالرز کی سرمایہ کاری ہوگی، سب سے زیادہ گوادر آئل ریفائنری میں 10 ارب ڈالرز انویسٹ کئے جائیں گے، 4 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری 2 ایل این جی پاور پلانٹس میں کی جاے گی۔

اس کے برعکس پچھلے ایک عشرے سے پاک ایران تعلقات بلیم گیم کی کالی گھٹاؤں نے دوستانہ فضا کو آلودہ کر رکھا ہے۔لیکن اس کے ساتھ چند مثبت ڈویلپمنٹس بھی دیکھنے کو ملیں، جو سابق صدر آصف زرداری کے دور میں پاک ایران گیس پائپ لائن( امن گیس پائپ لائن) سے شروع ہو کر چین کی پاکستان اور ایران میں بھاری سرمایہ کاری کی وجہ سے پاک ایران تعلقات میں معمولی بہتری تک محدود ہیں۔

مخاصمانہ تعلقات کی ابتداء خمینی انقلاب کے بعد سے لے کر اب تک جاری ہے۔ پاک ایران سرحد تقریبا 900 کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ ایرانی سرحد سے متصل پاکستانی علاقوں میں چاغی، پنجگور، گوادر، واشک اور تربت واقع ہیں جو ماضی میں پرسکون رہے لیکن خمینی انقلاب کے بعد پاسداران انقلاب کی سربراہی میں اسمگلنگ اور منشیات کے کاروبار کا آغاز ہوا۔ ان واقعات نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی سمیت پاکستان کی معیشت کو گہرا نقصان پہنچا۔ خاص طور پر ایرانی پیٹرول اسمگل ہو کر کراچی اور اندرون سندھ تک پہنچتا ہے۔جس پر ٹیکس نہ لگنے کی وجہ سے ایک طرف معیشت کو غیر معمولی نقصان پہنچ رہاہے تو دوسری طرف غیر معیاری ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کے انجنوں کو خراب کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

بھارت کے ساتھ تہران اعلامیہ پر دستخط اور اس کے بعد 2002 میں بھارت کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدے کے بعد ایرانی سرحد سے پاکستان کےلیے سکیورٹی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت اور نسلی فسادات کو ہوا دینے کے لیے بھارت ایران کے ساتھ مل کر بلوچستان میں دراندازی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔مارچ 2016 کو پاکستانی سکیورٹی ایجنسیز نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو گرفتار کیا جو ایرانی پاسپورٹ پر سفر کر رہا تھا۔ گرفتار بھارتی جاسوس کی منظر عام پر آنے والی دوسری ویڈیو میں اس بات کا اعتراف تھا کہ وہ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو آپریٹ کرتا تھا۔جس کا مقصد سنی شیعہ فسادات سمیت کراچی اور بلوچستان میں لسانی فسادات برپا کرنا تھے ۔اس کے ساتھ گرفتار جاسوس نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ہزارہ برادری کے قتل عام میں بھی اس کا نیٹ ورک کام کرتا تھا تاکہ شیعہ سنی فسادات کو ہوا دی جا سکے اور عزیر بلوچ کو اماراتی حکام نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ ایرانی پاسپورٹ پر سفر کر رہا تھا۔یہ تمام کڑیاں اس بات کو تقویت دے رہی ہیں کہ بھارت اور ایران پاکستان کے مغربی علاقوں میں دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے صف آرا ہو چکے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق تفتان کراسنگ پوائنٹ سے چالیس کلومیٹر دور ایرانی سرحد سے متصل پاکستانی علاقوں پر رات کے وقت مارٹر گولوں کی فائرنگ شروع ہوجاتی ہے نتیجتا نصف آبادی ہجرت پر مجبور ہو چکی ہے۔

ایک طرف ایران سرحدی دراندازی کا مرتکب ہو رہا ہے تو دوسری طرف پاسداران انقلاب کے دہشتگرد وینک کا سربراہ قاسم سلیمانی پاکستان کو آئے روز دھمکیاں دیتا ہے کہ سعودیہ عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اپنے تعلق محدود کرے ورنہ اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں جمعہ 22 فروری کو بابل شہر میں جمعہ کی نماز سے خطاب میں قاسم سلیمانی نے کہا کہ پاکستان پاسداران انقلاب پر ہونے والے حملے کی تعزیت نہ کرے بلکہ مشترکہ سرحد پر ہمارے مفادات کو یقینی بنائے ورنہ سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ بھی الزام لگا ڈالا کہ سعودی عرب کے طرف سےپاکستان کو دی جانے والی امداد ایران کے مفادات کے خلاف استعمال ہوتی ہے۔

اس سے بڑھ کر پاسداران انقلاب کے سربراہ علی جعفری نے تو یہ تک کہہ ڈالا کہ 13 فروری کو زیدان میں پاسدران انقلاب پر ہونے والا حملہ سعودی عرب اور پاکستان کی مشترکہ سازش تھی۔

حال ہی میں گوادر کے قریب اورماڑا میں ہونے والے حملے میں پاکستان نے بھی کے اہلکاروں سمیت 14 افراد شہید ہوے۔ جس پر پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ بیان دیا کہ حملہ آور ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے اس سے قبل الزام تراشیوں کا سلسلہ سرد مہری کے ساتھ دونوں طرف سے ہوتا رہا ہے اس کے ساتھ ہی وزیر خارجہ نے ایرانی باڈر کے اندر موجود بھارت نواز اور پاکستانی دشمن بلوچ علیحدگی پسندوں کے تربیتی کیمپوں کا ذکر کیا اور ساتھ ہی 900 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی پاک ایرانی سرحد پر آئینی بڑھ لگانے کا اعلان کیا۔ اس کے ساتھ وزیراعظم عمران خان نے ایران کا دورہ کیا اور پاک ایران بارڈر کو کنٹرول کرنے کے لیے مشترکہ فورس بنانے کا عندیہ دیا۔

پاکستان اور ایران کے درمیان سردمہری، بلیم گیم کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ دوطرفہ تعلقات میں اعتماد کے فقدان اور ایران کا بھارت کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے ایرانی سرحد سے متصل پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی اور سکیورٹی کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان کو ایران کے دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ کسی قسم کی کشیدگی دونوں ملکوں کے لانگ ٹرم مفاد میں نہیں ہوگی۔پاکستان کو شیعہ سنی فسادات کی روک تھام کےلیے سوبر پالیسی وضع کرنی چاہیئے اور نیشنل ایکشن پلان کو فالو اپ کرنا چاہئیے تاکہ جاری شیعہ سنی لو سکیل کشمکش کا قلع قمع کیاجاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے