ڈیورنڈ لائن ، جب چالیس ہزار پشتون قتل ، زخمی اور دربدر ہوئے .

میر عبد الرحمان

سواصدی قبل ڈیورنڈلائن معاہدے کے بعد افغان حکمرانوں نے برطانوی راج کے تحت آنے والے پشتونوں کےمقامی رہنماﺅں کی اپیلوں اوردرخواستوں کے باوجود ان کاپوچھاتک نہیں اور طورخم سے اٹک تک کے پشتونوں کو انگریزوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ۔1893ءمیں سلطنت برطانیہ کی جانب سے سرمورٹیمراورافغان حکمران امیرعبدالرحمن کے مابین ڈیورنڈلائن کامعاہدہ ہوا جس کے تحت چترال سے لیکر مہمند ،خیبر،ٹوچی،وزیرستان سے ہوتے ہوئے چاغی تک کے علاقے میں سرحدکی حدبندی کی جائے گی . اس کے بعد چارمزید کمیشنزنے باقاعدہ طور پر چترال کے چرخوپاس سے لیکر باجوڑکے ناواپاس، خیبرسے لیکرٹوچی ،ٹوچی سے لیکر گومل اور آگے چاغی تک سات معاہدوں کے ذریعے مقامی افغان رہنماﺅں کے ساتھ سرحدکی حدبندی کی۔

[pullquote]ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ اور انگریزوں کے خلاف بغاوت [/pullquote]

ڈیورنڈکے معاہدے کے بعد1897سے لیکر1898تک دو سالوں کے دوران برطانوی راج کے زیر تسلط پشتونوں کے علاقوں میں انگریزوں کے خلاف مقامی تنازعات کے باعث بغاوت کاعلم بندہوا، اس دوران سوات ،ملاکنڈ،باجوڑ،مہمند ، وزیرستان ،پشاو رحتیٰ کہ صوبے کے دیگرعلاقوں میں انگریزوں کےخلاف باقاعدہ لڑائیوں کاآغازہوا. یہ تمام لڑائیاں علاقائی سطح پر ہوئیں غیر منظم ہونے کےباعث مقامی قبائل کو شکست کاسامناکرناپڑا. اس دوران افغانستان کے علاقے سارہ گڑھئی میں پشتونوں اور سکھوں کے مابین بھی لڑائی کا واقعہ سامنے آیا. تاریخ یوسفزئی کے مطابق ان تمام لڑائیوں کے دوران پورے علاقہ میں انگریزوں کے استبدادی روئے کے باعث تقریباًچالیس ہزارسےزائدپشتونوں کو قتل ،زخمی اور بے گھرکیاگیا.

ڈیورنڈلائن معاہد کے اہم کردارسر مورتمر ڈیورنڈ کے والد سر ہنری میرئن (Marion) ڈیر اسماعیل خان میں دفن ہیں

کہاجاتاہے کہ انگریزوں نے بڑے پیمانے پر مقامی پشتونوں کو پھانسی دینے کے بعد جلادیا. تاریخ کی کتابوں کے مطابق 1898میں 18آفریدی قبائلی رہنماﺅں نے مقام اورکزئی ہنماﺅں کی ایماءپر افغانستان کے امیر عبدالرحمن سے ملنے کی کوشش کی تاکہ انہیں بتاسکیں کہ پشتون انگریزوں کےخلاف بغاوت کاعلم بلندکررہے ہیں ،آپ ہماری مددکریں لیکن امیرعبدالرحمن نے اس 18رکنی جرگے کو کابل پہنچنے سے پہلے جلال آبادمیں ہی روک دیا اورکئی ہفتوں تک انہیں روکے رکھا. اس دوران امیرعبدالرحمن نے علماء کی مشاورت سے فتویٰ جاری کیاکہ انگریزوں کے ساتھ ڈیورنڈمعاہدے کی پاسداری کی جائے گی کیونکہ حضرت محمد ص نے کفارکے ساتھ جومعاہدے کئے تھے آپ نے ان تمام معاہدوں کی پاسداری کی .

18رکنی جرگے کو یہ بھی پیغام دیاکہ جب1893میں معاہدہ ہورہاتھاتواس وقت آپ لوگ کہاں تھے، کہاجاتاہے کہ اس جرگے کو خرچہ دیکر واپس کیاگیا،بعدازاں امیرعبدالرحمن کے صاحبزادے حبیب اللہ خان نے بھی پشتون قبائل رہنماﺅں کے مطالبات پر کان نہ دھرے. اس دوران انگزیزوں نے مقامی پشتون قبائلیوں کو چن چن کرمارناشروع کیا. لڑائیوں میں پشتونوں کو مارنے کے بعد جلایاجاتاتھاکیونکہ اسوقت مقامی مذہبی رہنماﺅں کا کہناتھاکہ اگرکوئی بندہ جنگ میں شہیدہوجائے تو وہ صحیح حالت میں جنت میں داخل ہوگالیکن جلانے کے بعد اس کاوجودجنت میں داخل نہیں ہوسکتا اوراسی نکتے کاانگریزوں نے فائدہ اٹھایا تاکہ لاشوں کو جلاکرخوف وہراس کی فضاءقائم رکھ سکے۔

[pullquote]تیسری افغان اینگلوجنگ[/pullquote]

1919میں ایک مرتبہ پھرمہمند اور وزیرستان میں انگریزوں کےخلاف جنگ کاآغاز ہوا . اس جنگ میں محدود پیمانے پر افغان حکمران غازی امان اللہ نے مقامی قبائل کی مدد کی لیکن برطانوی فضائیہ کے حملوں کے باعث افغان حکمرانوں نے گھٹنے ٹیک دیے . 1919ءمیں معاہدہ پنڈی کے ذریعے ڈیورنڈکوسرحدتسلیم کرتے ہوئے انگریزوں سے آزادی حاصل کی.

1879 کے معاہدہ گندمک سے لیکر1919تک افغانستان کو خارجہ پالیسی اختیارکرنے کی اجازت نہیں تھی تاہم 1919میں انگریزوں نے معاہدہ پنڈی کے تحت انہیں خارجہ پالیسی اختیار کرنےکی اجازت دیدی .کہاجاتاہے کہ اس دوران مہمندقبائل میں انگریزوں کے خلاف جنگ نے شدت اختیار کی تھی. تاریخ پشتون کے جلد چھارم میں تحریر کیا گیا ہے کہ 1915میں مہمندقبیلے کے جنگجوﺅں کوگرفتارکرنے کے بعد انگریزوں نے ترکزئی ، حلیمزئی اور دیگر قبائیلیوں کوتاروں میں باندھ کر پہلے انہیں برقی رو سے مارا اور بعد ازاں انہیں آگ لگادی کیونکہ مہمندانگریزوں کےساتھ رہنے کی بجائے افغانستان کے ساتھ الحاق پسندکرتے تھے.

قبائیلی علاقہ مھمند کے کانٹا تار جسمیں مقامی قبائیلیوں کو برقی رو سے مارنے کے بعد جلایا گیا

1919کے معاہدے میں مہمند مستقل طور پر انگریزوں کے تسلط میں آگیا. اس دوران غازی امان اللہ کو مقامی مہمنداوروزیرقبائل نے الحاق کی متعدد درخواستیں کیں حتیٰ کہ آفریدیوں نے لنڈیکوتل میں انگریزوں کے دفاترکوجلایالیکن غازی امان اللہ نے سرحدکے اس پارپشتون قبائل کی مددنہیں کی ۔

اس جنگ کے دوران وزیرقبائلیوں نے ہنگوکے علاقے ٹل میں انگریزوں کے قلعے پربھی قبضہ کیالیکن پھر بھی غازی امان اللہ نے کسی بھی طور ان قبائلی رہنماﺅں کا ساتھ نہیں دیا . مورخین کے مطابق جب سرحدپار افغانستان سے آج بھی مقامی پشتونوں کو طعنے دئیے جاتے ہیں توانہیں یہ یادرکھناچاہئے کہ1893سے 1919تک موجودہ خیبرپختونخوااورسابقہ فاٹا کے متعددرہنماﺅں نے افغان حکمرانوں سے مددکی درخواست دی تھی لیکن انہوں نے ساتھ دینے کی بجائے ان علاقوں کے بدلے پہلے18لاکھ اوربعدازاں26لاکھ تک سالانہ ٹیکس وصول کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے